اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسان کی تخلیق کے مقصد کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ سورۃ الذاریات کی آیت نمبر 56 میں ارشاد ہوا ''میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں‘‘۔ جو اس مقصد پر جتنی زیادہ توجہ دے گا‘ اتنی ہی زیادہ کامیابیوں کے حصول کے امکانات روشن ہوتے چلے جائیں گے۔ ویسے تو انسان کو ہر روز ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لانے کی کوشش کرنی چاہیے اور نمازِ پنجگانہ و تلاوتِ قرآن مجید کا اہتمام کرنا چاہیے‘ اس کے ساتھ ساتھ جس حد تک ممکن ہو‘ نفلی عبادات اور صدقہ و خیرات کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض مواقع اور ایام ایسے رکھے ہیں جن میں خصوصیت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں روزے رکھے جاتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے‘ صدقہ و خیرات کیا جاتا ہے‘ نمازِ تراویح‘ تلاوتِ قرآن مجید‘ ذکرِ الٰہی اور توبہ استغفار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے اور لیلۃ القدر کو پانے کی جستجو کی جاتی ہے۔
رمضان المبارک کے علاوہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن ایام کو عبادات کے حوالے سے خصوصی اہمیت دی ہے‘ وہ ذوالحج کے پہلے 10 دن ہیں۔ ان دنوں میں کی جانے والی عبادات کا اجر سال بھر کے دیگر دنوں میں کی گئی عبادات سے کہیں زیادہ ہے۔ سورۃ الفجر کی پہلی دو آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی‘‘۔ مفسرِ اُمت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سمیت مفسرین کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک ان دس راتوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے۔ اس عشرے کے بہت سے فضائل احادیثِ طیبہ میں مذکور ہیں‘ تاہم ان فضائل کے تذکرے سے قبل اس عشرے سے متعلقہ بعض اہم مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جب ذوالحج کا چاند نظر آجائے تو اس موقع پر جس بندے کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو‘ اس کو اپنے بال اور ناخن ترشوانے سے رک جانا چاہیے۔ اس حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت سعید بن مسیبؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنا‘ وہ کہہ رہی تھیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا ''جس شخص کے پاس ذبح کرنے کے لیے کوئی ذبیحہ ہو تو جب ذوالحجہ کا چاند نظر آ جائے‘ وہ ہرگز اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘ یہاں تک کہ قربانی کر لے (اس کے بعد بال اور ناخن کاٹے)‘‘۔
احادیثِ مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص نے قربانی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے بھی بال اور ناخن نہ کاٹنا بہترہے۔ اس حوالے سے مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایامِ ذی الحجہ میں ایک عورت کواپنے بچے کے بال کاٹتے دیکھ کر فرمایا: اگر قربانی والے دن تک مؤخر کر دیتی تو بہتر تھا۔
اسی طرح ایک اور حدیث‘ جس کی صحت پر اختلاف ہے‘ تاہم علماء کی ایک جماعت اس کو صحیح سمجھتی ہے‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی سکت نہ رکھنے والا اگر قربانی کے دن بال اور ناخن ترشوائے گا تو اس کو قربانی جتنا ثواب حاصل ہوگا۔ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ''مجھے اضحی کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور عید مناؤں جسے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے خاص کیا ہے‘‘۔ ایک آدمی نے کہا: فرمائیے کہ اگر مجھے دودھ کے جانور کے سوا کوئی جانور نہ ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: '' نہیں‘ بلکہ اپنے بال کاٹ لو‘ ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیرِ ناف کی صفائی کر لو‘ اللہ کے ہاں تمہاری یہی کامل قربانی ہو گی‘‘۔
عشرہ ذوالحج کے مسائل کو سمجھنے کے بعداس کے فضائل کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اس عشرے میں کی جانے والی عبادات کا اجر و ثواب دیگر ایام کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے‘ اس لیے کہ اس عشرے کی 9 تاریخ کو وقوفِ عرفات اور 10 تاریخ کو یوم النحر ہوتا ہے۔ 9 تاریخ کو عرفہ کے مقام پر حاجیوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ سے گناہوں سے آزادی کا پروانہ حاصل ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ دین کے حوالے سے سورۃ المائدہ میں اعلان فرما کر رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے اسلام کو بطورِ دین منتخب فرما لیا جبکہ 10 تاریخ کو دنیا بھر میں یوم النحرکے موقع پر قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پورے عشرے ہی کو فضیلت عطا فرما دی اور اس عشرے میں کی جانے والی عبادات کو دیگر ایام کے مقابلے میں خصوصی فضیلت حاصل ہو گئی۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا: جہاد میں بھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں! جہاد میں بھی نہیں‘ سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرے میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)۔
عشرہ ذی الحجہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین تکبیرات کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ ان کی تکبیر (تکبیرات) سن کر تکبیر کہتے۔ حضرت محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے۔ چنانچہ ان دنوں میں ہمیں بھی تسبیح‘ تہلیل‘ تکبیر اور تحمید کی کثرت کرنی چاہیے۔ خاص طور پر یوم عرفہ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ اس دن کی بہترین دعا جو نبی کریم اور آپﷺ سے پہلے انبیاء کرام کا ذکر ہے‘ وہ ''لاالٰہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر‘‘ ہے۔ یوم عرفہ کی فضیلت تو واضح ہے کہ اس دن روزہ رکھنے والے کے گزشتہ اور آئندہ آنے والے برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن باقی ایام ذوالحج میں بھی روزہ رکھنا باعثِ اجر و ثواب ہے۔ سنن نسائی اور سنن ابی داؤد میں حدیث مذکور ہے کہ نبی کریمﷺ ذوالحج کے ابتدائی نو دن اور یومِ عاشورکا روزہ رکھا کرتے تھے۔ ان ایام میں کثرت سے توبہ واستغفارکا اہتمام بھی کرنا چاہیے تاکہ ہماری زندگی میں ہمارے گناہوں کی وجہ سے آنے والی تکالیف اور پریشانیوں کا خاتمہ ہو جائے اور اخروی فلاح و نجات ہمارا مقدر بن جائے۔ ان ایام میں کیے جانے والے نیکی کے کاموں میں سرفہرست عمرہ اور حج ہیں۔ عمرہ اور حج بکثرت کرنے سے جہاں انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘ وہیں اس کے رزق میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ان ایام میں کیے جانے والا دوسرا اہم کام جانوروں کی قربانی ہے۔ قربانی کا مقصد دکھلاوے کے بجائے اللہ کی خوشنودی کا حصول ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج کی آیت نمبر 37 میں اعلان فرمایاکہ ''اللہ تعالیٰ کو ہرگز جانوں کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا‘ بلکہ اس کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
عشرہ ذی الحجہ اپنے جلو میں رحمت‘ مغفرت اور برکات کا پیغام لے کر آتا ہے۔ ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ بندگی اور عبادات کا اہتمام کرکے اپنے پروردگار کو راضی کرنا چاہیے‘ اس کے ساتھ ساتھ گناہ اور نافرمانی والے کاموں سے بھی بچنا چاہیے۔ ان ایام کے گزر جانے کے بعد ہماری زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی آنی چاہیے اور ہمیں پہلے سے بڑھ کراللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے تاکہ ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے‘ آمین!