دنیا میں بہت سی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے انسانیت کو فلاح اور کامیابی کا راستہ دکھلایا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت اس اعتبار سے منفرد مقام کی حامل ہے کہ انہوں نے اپنی زندگیوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے ابلاغ کیلئے وقف کیے رکھا۔گروہِ انبیاء کرام میں سے بھی بعض ہستیاں اس اعتبار سے نمایاں حیثیت کی حامل ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لوگوں کیلئے اُن کی سیرت وکردار کو مثال بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ مقام بلند عطا کیا کہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے علاوہ آپ علیہ السلام کے اُسوہ کو امت محمدیہ کیلئے اُسوۂ کامل قرار دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں ''(مسلمانو!) تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو‘ ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں‘ ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت ظاہر ہوگئی جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لائو‘‘ ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سیرت وکردار پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں نہ کسی دبائو کی پروا کی اور نہ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت پرکسی کی محبت کو غالب آنے دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کارہائے نمایاں کو کلامِ حمید میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا۔ جوانی میں آپ علیہ السلام نے بت کدے میں جاکر بتوں کو توڑ ڈالا‘ جس پر آپ کو بستی والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الانبیاء کی آیات51 تا 70 میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے ''یقینا ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اس کے احوال سے بخوبی واقف تھے۔ جب اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں‘ جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو‘ کیا ہیں؟ سب نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا۔ (ابراہیم نے) کہا: پھر تو تم اور تمہارے باپ دادا سبھی یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا رہے۔ وہ کہنے لگے: کیا آپ ہمارے پاس سچ مچ حق لائے ہیں یا یونہی مذاق کر رہے ہیں۔ (ابراہیم نے) کہا: نہیں‘ درحقیقت تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے‘ جس نے انہیں پیدا کیا ہے‘ میں تو اسی بات کا گواہ (اور قائل) ہوں۔ اور اللہ کی قسم! میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ جب تم علیحدہ پیٹھ پھیر کر چل دو گے‘ ایک چال چلوں گا۔ پس اس نے ان سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے‘ ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ یہ بھی اس لیے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں۔ (قوم کے لوگ جب واپس آئے تو ) کہنے لگے کہ ہمارے خدائوں کے ساتھ یہ (سلوک) کس نے کیا؟ ایسا شخص تو یقینا ظالموں میں سے ہے۔ (کچھ افراد) بولے: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا‘ جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ سب نے کہا: اچھا‘ اسے مجمع میں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لائو تاکہ سب دیکھیں۔کہنے لگے: اے ابراہیم کیا تُو نے ہی ہمارے خدائوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟ ابراہیم نے جواب دیا: بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے‘ تم اپنے خدائوں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہوں۔ پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہو گئے اور کہنے لگے: واقعی ظالم تو تم (خود) ہی ہو۔ پھر (شرمندگی سے) اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے (اور کہنے لگے کہ) یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ بولنے چالنے والے نہیں۔ (ابراہیم نے) کہا: افسوس! کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان۔ تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں؟کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خدائوں کی مدد کرو‘ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے۔ ہم نے فرمایا: اے آگ! تُو ٹھنڈی پڑ جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا! گو کہ انہوں نے ابراہیم کا برا چاہا‘ لیکن ہم نے انہیں ہی خسارے والا بنا دیا‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے لوگ بت پرستی کے ساتھ ساتھ اجرامِ سماویہ کی پوجا بھی کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دلیل کے ذریعے اس باطل عقیدے کا بھی رد فرمایا۔ اس واقعہ کو سورۃ الانعام کی آیات 75 تا 79 میں کچھ یوں بیان کیا گیا ''اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھلائے‘ تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا اور کہا کہ یہ میرا رب ہے مگر جب وہ غروب ہو گیا تو کہا کہ میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا‘ چمکتا ہوا‘ تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہو گیا تو کہا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ دی تو میں راستہ گم کرنے والے لوگوں میں شامل ہوجائوں گا۔ پھر جب آفتاب کو دیکھا خوب چمکتا ہوا‘ تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے‘ یہ تو سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہا: بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اُس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر‘ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب بتوںاور اجرام سماویہ کی حقیقت کو واضح فرما دیا تو نمرود کی جھوٹی خدائی کو بھی بے نقاب کیا۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 258 میں کچھ یوں بیان کیا گیا ''کیا تو نے اُسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا۔ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو جِلاتا ہے اور مارتا ہے‘ (تو) وہ کہنے لگا: میں بھی جِلاتا اور مارتا ہوں، ابراہیم نے کہا: اللہ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تُو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا‘ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں رعب اور دبدبے کی پروا نہیں کی‘ وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے محبتوں کے حوالے سے بھی آپ کی آزمائش کی۔ آپ علیہ السلام نے اللہ سے بڑھاپے میں صالح اولاد کی دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بردبار بیٹا عطا فرمایا لیکن اس عطا کے بعد اللہ نے آپ علیہ السلام کو سیدہ ہاجرہ اور اپنے ننھے بیٹے اسماعیل کو وادیٔ بے آب و گیاہ میں چھوڑنے کا حکم دیا ‘جس پر آپ علیہ السلام نے سر تسلیم کو خم کیا۔ آپ علیہ السلام اس کے بعد بھی مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے رہے۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام دوڑ دھوپ کے قابل ہو گئے تو آپ علیہ السلام کو ایک خواب دکھلایا گیا جس میں آپ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا تقاضا کیا گیا۔ سورۃ الصافات کی آیات 102 تا 105 میں کچھ یوں بیان ہوا ''پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے‘ تو اس (ابراہیم) نے کہا: میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں‘ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس (باپ) نے اس (بیٹے) کو پیشانی کے بل گرا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقینا تُو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں‘‘۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی انہی ادائوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو رہتی دنیا تک کیلئے ایک نمونہ بنا دیا۔ حج اور عید الاضحی کے موقع پر ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کی اتباع کرتے ہوئے جانوروں کے گلے پر چھری چلاتے ہیں تو ہمیں بھی اسی جذبے‘ فکر اور اعتقاد کو اپنے دل میں جگہ دینی چاہیے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خاصہ تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق دے‘ آمین!