چیچہ وطنی ضلع ساہیوال کا ایک اہم مقام ہے۔ اس علاقے کے لوگ دین سے محبت کرنے والے ہیں اور دینی اجتماعات میں بڑی دلجمعی اور دلچسپی سے شرکت کرتے ہیں۔ مجھے ماضی میں بھی کئی مرتبہ چیچہ وطنی میں خطاب کرنے کا موقع ملا۔ کچھ عرصہ قبل قرآن وسنہ موومنٹ ساہیوال کے رہنما ذیشان مجاہد اور مولانا احمد مدنی نے مجھ سے رابطہ کیا کہ چیچہ وطنی میں ختم نبوت وفضائل صحابہ کرامؓ کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کرنا ہے۔ انہوں نے اس کانفرنس کیلئے مجھ سے وقت مانگا تو میں نے کانفرنس میں شرکت کی ہامی بھر لی۔ 4 مئی کو منعقدہ اس کانفرنس میں علاقے کے بہت سے نمایاں علما نے شرکت کی اور قرآن وسنہ موومنٹ کے کارکنان بھی بڑی دلچسپی سے اس میں شریک ہوئے۔عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد معروف عالم دین نصر جاوید صاحب نے اس کانفرنس سے خطاب کیا اور ختم نبوت اور فضائل صحابہ کرامؓ کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے مظالم اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے بھی احسن انداز میں گفتگو کی۔ اس موقع پر شرکائے کانفرنس نے ملک کے دفاع کے لیے بھرپور انداز میں اظہارِ یکجہتی کیا۔ مجھ سے پیشتر بیٹے قیم الٰہی ظہیر نے پُرجوش خطاب کیا۔ میں نے اپنے خطاب میں ختم نبوت اور فضائل صحابہ کرامؓ کے عنوان سے جو گفتگوکی اس کو کچھ ترامیم اور کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین میں جہاں انسانوں کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کا بندوبست فرمایا وہیں انسانوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کی رشد و ہدایت کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا۔ انبیاء پر کتابوں کا نزول کیا گیا اور ان کو اپنے اپنے ادوار میں انسانوں کے لیے معلم اور نمونے کے طور پر مبعوث کیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام انبیاء کے بعد نبی آخر الزماںﷺ کو مبعوث فرمایا اورسورۃ الاحزاب کی آیت: 40 میں اس بات کو واضح فرما دیا ''نہیں ہیں محمد باپ کسی کے تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ رسول ہیں اللہ کے اور سلسلہ نبوت کی تکمیل کرنے والے ہیں‘ اور ہے اللہ ہر چیز سے پوری طرح باخبر‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں دین کو مکمل فرما دیا تھا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت: 3 میں ارشاد فرماتے ہیں ''آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے‘‘۔
نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں جہاں دین کو مکمل فرما دیا گیا وہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے بنی کریمﷺ کے اسوہ کو اسوہِ کامل بھی بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیت: 21 میں ارشاد فرماتے ہیں ''البتہ تمہارے لیے رسول اللہ (کی حیات) میں اچھا نمونہ ہے (ہر اُس شخص کے لیے) جو اللہ (پر ایمان) اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے‘‘۔ اسی طرح سورۂ آلِ عمران میں نبی کریمﷺ کی اتباع کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبتوں کا حقدار قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت: 31 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دو اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو تاکہ تم سے اللہ محبت کرے اور تمہارے گناہ بخش دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ جو نبی کریمﷺ کی اطاعت کرتا ہے حقیقت میں وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 80 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جس نے رسول کا حکم مانا اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے (اس سے) منہ موڑا تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا‘‘۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریمﷺ کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے۔
اگر انسان غور کرے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ بہت سے ایسے معاملات ہیں کہ انسان ان کو اپنی عقل کے ذریعے طے نہیں کر سکتا بلکہ اس کو ان معاملات میں نبی کریمﷺ کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ احادیث نبوی سے بات واضح ہوتی ہے کہ گھریلو گدھا حرام جبکہ جنگلی گدھا حلال ہے۔ جنگلی گدھے کی حلت اور گھریلو گدھے کی حرمت کا تعین کرنا انسان کے لیے اپنی عقل سے ممکن نہیں۔ اسی طرح اسلام میں مرد کے لیے بیک وقت چار شادیاں جائز جبکہ پانچویں شادی حرام ہے۔ عقل انسانی کے لیے اس بات کا تعین کرنا ممکن نہیں کہ وہ اس حلت اور حرمت کے درمیان تفریق کر سکے۔ انسان اپنی زندگی کے معاملات میں غور کرے تو اس کو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ انسان کی عقل ظاہری معاملات کا تعین تو کر سکتی ہے‘ رنگوں کے درمیان تفریق تو کر سکتی ہے‘ گرم وسرد کے مابین امتیاز تو کر سکتی ہے لیکن صحیح اور غلط کا امتیاز کرنے یا حلال و حرام میں فرق کرنے کے لیے انسان کو آسمانی ہدایت اور نبوت کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
دین میں کسی بھی قسم کے اضافے کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور نبی کریمﷺ کی رہنمائی ہمارے لیے حرفِ آخرکی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی معاملہ میں آپﷺ کی رہنمائی سے اختلاف کرنا کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر انسان کسی ایک مسئلہ میں بھی نبی کریمﷺ کی رہنمائی سے بے نیاز نہیں ہوسکتا تو یہ بات کیونکر ممکن ہے کہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے ہوتے ہوئے کسی نئے نبی کے امکانات کو قبول کر لیا جائے۔ نبی کریمﷺ کے بعد کسی نئے نبی کے امکانات کو اس لیے بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے نبی کریمﷺ کے فرامین مبارکہ کی افادیت اور اہمیت برقرار نہیں رہ سکتی جبکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ شریعت کے حوالے سے نبی کریمﷺ کا اسوہ‘ آپﷺ کی تائید اور آپ کی احادیث حرفِ آخر اور حجت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ جب بھی کسی شخص نے نبی کریمﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کیا اس کو علمائے امت نے کبھی قبول نہیں کیا اور اس دعویٰ کرنے والے کو کذاب اور مرتد قرار دیا گیا۔ اسی طرح اس کے پیروکاروں کو بھی دائرہِ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔
جہاں نبی کریمﷺ کے فرمودات اور اقوال ہمارے لیے حجت کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں اس بات کو بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ نبی کریمﷺ کی تعلیمات اور ارشادات کا مجموعہ ہم تک صحابہ کرامؓ کے ذریعے پہنچا ہے۔ نبی کریمﷺ کی زندگی کے حصے دو ہیں؛ ایک حصہ وہ جو آپﷺ نے اپنے گھر میں گزارا اور اس حصے کو سمجھنے کے لیے ہمیں اہل بیت اطہارؓ کی شہادتوں کی ضرورت ہے جبکہ نبی کریمﷺ کی زندگی کا ایک حصہ وہ ہے جو آپﷺ نے اپنے گھر سے باہر‘ اپنے دوست احباب میں گزارا۔ اس حصے کو سمجھنے کیلئے ہمیں آپﷺ کے اصحاب اور آپ کے دوست احباب کی گواہیوں کی ضرورت ہے۔ چنانچہ امت مسلمہ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شہادتوں کی روشنی میں نبی کریمﷺ کی زندگی کو سمجھتی ہے۔ اگر صحابہ کرامؓ کی روایات موجود نہ ہوتیں تو آج ہم نبی کریمﷺ کی اتباع کے قابل نہ ہوتے؛ چنانچہ ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ نبی کریمﷺ کے تلامذہ کی صداقت اور دیانت پر اعتماد کر کے ہی ہم دین وشریعت اور نبی کریمﷺ کے فر مودات سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ ختم نبوت اور عظمت صحابہؓ پر یقین رکھنے کی وجہ ہی سے ہم اندھیرے اور اجالے کے مابین تفریق کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اگر ختم نبوت اور صحابہ کرامؓ کے حوالے سے ہمارا عقیدہ درست نہ ہو تو ہمیں کبھی منزل نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ختم نبوت اور فضائل صحابہ کرامؓ کے اہم عقائد کو سمجھنے کی توفیق دے‘ آمین!
اس موقع پر سامعین نے بڑی توجہ سے اہلِ علم کے خطابات کو سنا۔ تقاریر کے بعد مہمانوں کیلئے ایک پُرتکلف ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ یوں یہ اجتماع اپنی جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوا۔