"AIZ" (space) message & send to 7575

جغرافیے اورنظریے کا تحفظ

پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جس کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر‘ کتاب وسنت کی عملداری کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ اس وطن کے حصول کیلئے ہزاروں لوگوں نے اپنے گھر بار کو چھوڑا‘ بڑی تعداد میں بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں ڈبویا گیا‘ مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی عزت پر حملہ کیا گیا‘ نوجوانوں اور معصوم بچوں کو شہید کیا گیا۔ پاکستان کے قیام کے وقت بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ عشروں تک چلنے والی تحریک پاکستان میں جس مطالبے کو سرفہرست رکھا گیا تھا اسی مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کیا جائے گا۔ قائداعظم کو قیام پاکستان کے بعد زندگی نے زیادہ مہلت نہ دی لیکن آپ جتنی دیر زندہ رہے‘ قیام پاکستان کے مقاصد کے حصول کیلئے بھرپور جدوجہد کرتے رہے۔
پاکستان کا قیام بھارت کو کسی بھی طور پر قبول نہ تھا؛ چنانچہ بھارت پاکستان کے قیام کے بعد سے مسلسل پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا۔ 1965ء میں بھارت نے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پاکستان کے خلاف بھرپور جارحیت کا ارتکاب کیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے افواجِ پاکستان اور ان کی پشت پر کھڑے عوام نے بھارت کے مکروہ عزائم کو بری طرح ناکام بنا دیا۔ لاہور اور سیالکوٹ کے محاذ پر بھارتی پیش قدمی کو پوری قوت اور عزم کے ساتھ روکا گیا۔ 6 ستمبر 1965ء کا دن وطن کے دفاع کے حوالے سے تجدیدِ عزم کا دن تھا۔ دفاعِ پاکستان کیلئے عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ پوری قوم نے بھی بھرپور انداز میں اخوت و یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ یہ دن پاکستان کی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے‘ جس روز پاکستان کے اداروں اور قوم نے پاکستان کے جغرافیہ کے تحفظ کیلئے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک سنہری باب بن گیا۔ 6 ستمبر جب بھی آتا ہے اسی ولولے کی تجدید اور عزم کی بحالی کے پیغام کو لاتا ہے۔ پاکستانی قوم اپنے ان شہدا کو نہیں بھولی جنہوں نے دفاعِ وطن کے لیے کلیدی کردار ادا کر کے حیاتِ جاوداں حاصل کر لی اور اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ ''صلۂ شہید کیا ہے تب وتاب جاودانہ‘‘۔
جس طرح ہم نے 6 ستمبر کو پاکستان کے جغرافیہ کا بھرپور دفاع کیا تھا اسی طرح 7 ستمبر کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان کی نظریاتی اساس کا بھرپور دفاع کیا گیا۔ نبی کریمﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں اس بات کو واضح کر دیا تھا کہ آپﷺ کے بعد نبوت کے 30 جھوٹے دعویدار آئیں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبیِ مہرباں حضرت محمد کریمﷺ پر نبوت اور رسالت تمام ہو چکی ہے۔ آپﷺ کے واضح ارشادات کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے خلاف بھرپور انداز سے پیش قدمی کی اور اس کے ناپاک فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ نبی کریمﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اسود عنسی‘ سجاح اور بہت سے دیگر بدبخت کذابوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا لیکن ہر شخص کو اپنے مذموم عزائم کے حوالے سے ناکامی اور نامرادی کا مزہ چکھنا پڑا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک مختلف ادوار میں مختلف فتنے سر اٹھاتے رہے ہیں لیکن ان کو ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ہے۔ خلافتِ اسلامیہ کے سقوط کے بعد جب استعمار کا مسلم ممالک پر تسلط ہوا تو اس وقت بہت سے فتنوں نے ازسرِ نو سر اٹھایا جن میں بابی‘ بہائی اور قادیانی گروہ سرفہرست ہیں۔ ان تمام گروہوں نے اپنے اپنے پیشوائوں اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی تائید کی اور امت کے شیرازے کو منتشر کیلئے منظم منصوبہ بندی کی۔ اس موقع پر علمائے اسلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام اور نبی پاک حضرت محمد کریمﷺ کی احادیث طیبہ کو امت کے سامنے رکھا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
ختم نبوت کے حوالے سے کتاب وسنت کے دلائل بہت واضح ہیں۔ سورۃ الاحزاب کی آیت: 40 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ ''محمد (ﷺ) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘۔ جہاں قرآنِ مجید نے مسئلۂ ختم نبوت کو واضح کیا‘ وہیں احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم‘ مسند احمد اور سنن الکبریٰ للبیہقی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: میری اور سابق انبیاء کرام کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص نے ایک خوبصورت گھر بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کر اس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ''قیامت اُس وقت تک نہیں آئے گی‘ جب تک تیس بڑے کذاب نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے‘‘۔ صحیح بخاری میں حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ ''رسول اللہﷺ جب جنگ تبوک کیلئے نکلے تو آپﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا نائب مقررکیا۔ حضرت علیؓ نے عرض کی کہ (میں تو میدانِ جنگ کا سوار ہوں) کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکر جانا چاہتے ہیں؟ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے علی! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ کو ہارون علیہماالسلام سے تھی‘ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ''بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیاء کرام حکومت کرتے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہو جاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعدکوئی نبی تو نہیں ہوگا؛ تاہم خلفا ہوں گے اور تعداد میں بہت ہوں گے‘‘۔ سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''میرے بعد تیس بڑے جھوٹے آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔
تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے اس حوالے سے نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا مفتی محمود‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ علامہ احسان الٰہی ظہیر‘ آغا عبد الکریم شورش کاشمیری اور دیگر علماء نے مختلف مقامات پر بڑے بڑے اجتماعات کے ذریعے ختم نبوت کے عقیدے کو واضح کیا اور اس مسئلے میں اپنے اکابرین کی روایات کو آگے بڑھایا۔ عقیدہِ ختم نبوت کے دفاع کے لیے مولانا ثناء اللہ امرتسری‘ مولانا محمد حسین بٹالوی‘ مولانا عطا اللہ شاہ بخاری‘ مولانا انور شاہ کشمیری اور پیر مہر علی شاہ نے ابتدا میں جو کردار ادا کیا تھا‘ اکابرین نے اسی کردار کو آگے بڑھانے کی بھرپور کوشش کی۔ عوامی اجتماعات کے ذریعے جہاں رائے عامہ کو ہموار کیا وہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی اس مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر قانون سازی کی تجویز پیش کی گئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے 7 ستمبر 1974ء کوکتاب وسنت اور اجماعِ امت کی روشنی میں واضح ہونے والے مسئلے کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔ بعد ازاں جنرل ضیا الحق کے دور میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کے ذریعے قادیانیت کی تبلیغ اور نشر واشاعت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک مختلف ادوار میں کئی ایسی کوششیں کی گئیں جن کا مقصد ملک میں ختم نبوت کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرنا تھا مگر علمائے اسلام اور ملک کی دینی جماعتوں نے اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا اور کسی بھی سازش کو کامیاب نہ ہونے دیا۔
7 ستمبر اس عزم کے اظہار کا دن ہے کہ پاکستان کے عوام جغرافیہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ نظریات کے دفاع کے لیے بھی بھرپور انداز سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو پاکستان کے جغرافیہ اور اس کے نظریے کے دفاع کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں