آج کی دنیا سینکڑوں ممالک اور ریاستوں پر مشتمل ہے۔ تیز رفتار ہوائی جہازوں‘ انٹرنیٹ‘ موبائل اور جدید ٹیکنالوجی نے ریاستوں اور انسانوں کے باہمی رابطوں کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ مختلف ممالک کے درمیان تجارتی‘ ثقافتی اور سیاسی تعلقات موجود ہیں۔ اسی طرح بہت سے ممالک میں تنازعات بھی پائے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی معاملات کو بہتر طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے موجودہ دور میں ہر ملک کو مخلص دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس ریاست کے مخلص دوست ہوں‘ اس کو بین الاقوامی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ہمارا ملک پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے۔ اس کے نظریاتی پس منظر کی وجہ سے ہمسایہ ملک بھارت ہمہ وقت اس کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین کشمیر کے مسئلے پر تنازع پایا جاتا ہے۔ نظریاتی اور جغرافیائی تنازعات کے سبب دونوں ملکوں میں جنگیں بھی ہو چکی ہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے پاکستان کو بہت سے مخلص دوست عطا کر رکھے ہیں‘ جن میں چین اور سعودی عرب سرفرست ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان بہت سے مشکل ادوار سے گزرا لیکن ہر دور میں سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی نبھائی۔ 65ء کی جنگ ہو یا 71ء کا سانحہ‘ سعودی حکمران ہمیشہ پاکستان کے دکھ درد میں پوری طرح شریک رہے۔ پاکستان نے جس وقت ایٹمی دھماکے کیے اس وقت پاکستان کو پوری دنیا کے دبائو کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس دوران جن ممالک نے پاکستان کی تنہائی کو دور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ان میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ آزادکشمیر‘ بالاکوٹ اور بالائی علاقوں میں 2005ء میں جب زلزلہ آیا تو بڑی تعداد میں جانی اور مالی نقصان ہوا۔ مصیبت کے ان لمحات میں متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے سعودی عرب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ سعودی عرب کے فرمانروا نے پاکستان کی مدد کیلئے سعودی عرب میں ایک خصوصی فنڈ قائم کیا اور پاکستان کو خطیر رقم بطور امداد دی۔ سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کسی مخصوص سیاسی حکومت تک محدود نہیں رہے بلکہ پاکستان میں جو بھی حکومت ہو‘ سعودی عرب ہمیشہ ایک مضبوط اور مخلص دوست کی حیثیت سے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ متعدد مرتبہ پاکستان کے سیاسی تنازعات کے حل کے لیے سعودی عرب نے اپنا کردار ادا کیا۔ جب قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوا تو اس وقت پاکستان میں سعودی سفیر پوری طرح سرگرم اور متحرک رہے۔ ان کا مقصد پاکستان میں قیام امن اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر ہر سال اسلام آباد میں سعودی سفارتخانہ پُروقار تقریب کا انعقاد کرتا ہے‘ جس میں تمام شعبۂ زندگی کی نمایاں شخصیات شرکت کرتی ہیں۔ ان تقاریب کے ذریعے جہاں پاک سعودی تعلقات کو فروغ حاصل ہوتا ہے وہیں پاکستان کے مختلف طبقات کو ایک مقام پر مل بیٹھ کر بہت سے اہم امور پر تبادلۂ خیال کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ کئی مرتبہ ان تقاریب کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک بڑی قومی کانفرنس ہو رہی ہے جس میں تمام جماعتوں اور مکاتب فکر کے نمایاں لوگ شریک ہیں۔
پاکستانیوں کی کثیر تعداد روزگارکے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دے کر جہاں اپنے کاروبار اور معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے وہیں کثیر زرمبادلہ پاکستان آتا ہے۔ سعودی عرب کی نمایاں یونیورسٹیوں میں پاکستانی طلبہ کی بڑی تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے‘ جن میں جامعہ ام القریٰ (مکہ مکرمہ)‘ جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) اور جامعہ امام محمد بن سعود (ریاض) سرفہرست ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں ہر سال پاکستانی طلبہ بڑی تعداد میں داخلہ لیتے اور شرعی علوم میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آکر ملک کے طول وعرض میں اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی احباب سعودی عرب میں ہی دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیتے اور مختلف سعودی اداروں میں سعودی شہریوں کے ہمراہ دین کی نشر واشاعت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ ان پاکستانیوں کے سعودی احباب سے بڑے خوشگوار تعلقات ہیں۔ مجھے کئی مرتبہ ان اداروں میں جانے اور متعلقہ افراد سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے۔ مکہ مکرمہ‘ مدینہ منورہ‘ جدہ اور طائف کے اداروں میں لوگوں سے گفتگو کرنے کا جب موقع ملا تو اس بات کا اندازہ ہوا کہ سعودی عرب کے دینی طبقات پاکستان سے جانے والے مہمانوں سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ حالیہ ایام میں بھی مجھے سعودی عرب جانے کا موقع ملا تو جدہ کی جالیات میں خطاب کے دوران وہاں کے عربی مدیر سے بھی ملاقات ہوئی‘ جنہوں نے نہایت گرم جوشی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ ملاقات کی بلکہ مستقبل میں بھی جالیات آکر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ سعودی عرب میں جہاں پاکستانی تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں وہیں ماضی میں جب سعودی عرب کو بعض سرحدی علاقوں میں شرپسندوں کی یورش کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت پاکستان نے عسکری اعتبار سے سعودی عرب کی بھرپور معاونت کی جس نے پاک سعودیہ تعلقات کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ایک عرصے سے یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل دنیائے اسلام کے خلاف مسلسل جارحیت میں مصروف ہے اور غزہ کے مظلوموں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ ان تمام ممالک‘ اداروں اور شخصیات کے خلاف بھی معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے جو غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ حماس کے رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ کا دائرہ کار اب مختلف ممالک تک پھیل چکا ہے۔ حالیہ ایام میں اسرائیل کی قطر پر بمباری اور جارحیت کسی طور بین الاقوامی قوانین‘ انسانی حقوق اور سماجی تعلیمات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ ان ایام میں یہ بات بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ اسرائیل پاکستان کے خلاف بھی جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کی کشیدگی کے دوران اسرائیل کی واضح ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں۔ اسرائیل جہاں پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا بہت بڑا دشمن ہے وہیں عالم عرب میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے بھی وہ ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر آمادہ وتیار ہے۔ ان سنگین حالات کو دیکھتے ہوئے اور معاملات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے حالیہ ایام میں پاکستان اور سعودی عرب نے دفاعی اعتبار سے ایک پیج پر آنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین باہمی تعاون ماضی میں جاری وساری رہا ہے۔ ان ایام میں اس قسم کا معاہدہ یقینا نہ صرف یہ کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو بہتر بنانے کا سبب بنے گا بلکہ اس کے نتیجے میں بہت سے مسلم ممالک میں امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت کا احساس اجاگر ہو گا اور یہ بات مسلم ورلڈ میں حکومتی اور عوامی سطح پر محسوس کی جائے گی کہ امتِ مسلمہ کو دفاعِ حرمین شریفین اور القدس کے علاقے میں بسنے والے مظلوموں کی حمایت کے لیے یکسو ہونا چاہیے۔
ماضی میں پاکستان میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو حکومتی دبائو کا سامنا رہا ہے لیکن آنے والے ایام میں اس اعتبار سے صورتحال بہتر ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے کہ عالم اسلام کے جملہ ممالک اسرائیلی جارحیت اور اس کے پھیلتے ہوئے خطرات کی سنگینی کا ادراک کر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نظریاتی اعتبار سے اگر تمام مسلم ممالک ایک نکتے پر مرتکز ہو جائیں تو اسرائیل کی ننگی جارحیت کا مقابلہ بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ یہ معاہدہ اللہ کے فضل وکرم سے دونوں ممالک کے تعلقات کو جہاں مزید مستحکم کرے گا وہیں امتِ مسلمہ کے لیے اس میں بہت سے امید افزا پہلو موجود ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مسلم حکمرانوں اور امتِ مسلمہ کو اپنے مشترکہ مخالفوں کے خلاف یکسو ہونے کی توفیق دے‘ آمین!