معاشرے میں رہتے ہوئے انسان کی زندگی تنہا نہیں گزرتی بلکہ وہ سماج اور خاندان سمیت مختلف تعلقات کے بندھن میں بندھا ہوتا ہے۔ ان تعلقات میں دوستی ایک اہم تعلق ہے۔ دوست کے ساتھ انسان اپنی زندگی کے بہت سے معمولات پر تبادلۂ خیال کرتا اور اپنے اہداف اور راز کی بھی بہت سی باتیں کرتا ہے۔ انسان دوستوں کی وجہ سے اپنے آپ کو مضبوط محسوس کرتا اور ان کی عدم موجودگی میں اپنے آپ کو کمزور اور بے بس سمجھتا ہے۔ انسانی معاشروں میں ہمیشہ سے اچھائی اور برائی کے راستے پر چلنے والے لوگ موجود رہے ہیں۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کو اچھے دوست میسر آ جائیں۔ اس کے برعکس جنہیں بری صحبت میسر آتی ہے‘ ان کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔
اچھی صحبت کی وجہ سے انسان کو نیک نامی حاصل ہوتی ہے جبکہ بری صحبت انسان کی بدنامی اور رسوائی کا باعث ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کو واضح کیا کہ اہلِ ایمان ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التوبہ کی آیت: 71 میں ارشاد فرماتے ہیں ''مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار و معاون اور) دوست ہیں‘ وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں‘ نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں‘ اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں‘ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ بہت جلد رحم فرمائے گا‘ بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے‘‘۔
مومنوں کے برعکس منافق ایک دوسرے میں سے ہوتے ہیں اور غلط کاموں میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں۔ چنانچہ سورۃ التوبہ ہی کی آیات: 67 تا 68 میں ارشاد ہوا ''تمام منافق مرد وعورت آپس میں ایک ہی ہیں‘ یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں‘ یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا‘ بیشک منافق ہی فاسق وبدکردار ہیں۔ اللہ ان منافق مردوں‘ عورتوں اورکافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کر چکا ہے جہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اچھی صحبت انسان کی کامیابی کا سبب اور بری صحبت انسان کی ہلاکت اور بربادی کا باعث ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے بری دوستی کے نقصانات کے حوالے سے سورۃ الفرقان کی آیات: 27 تا 29 میں قیامت کے دردناک مناظر کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا: ہائے کاش کہ میں نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے افسوس! کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے گمراہ کر دیا‘ اس کے بعد کہ نصیحت میرے پاس آ پہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے‘‘۔ چنانچہ انسان کو اپنی زندگی میں ہمیشہ اچھے دوستوں کا چنائو کرنا چاہیے اور دوستی کی بنیاد اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہونی چاہیے۔ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے محبت کرے‘ اس سے ہمیں محبت ہونی چاہیے اور جو اللہ تبارک وتعالیٰ سے دور ہو یا اس کی نافرمانی کرے‘ اس سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جو اللہ اور اس کے رسول اور اہلِ ایمان سے محبت کرتے ہیں‘ اپنی جماعت قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیات: 55 تا 56 میں ارشاد فرماتے ہیں ''(مسلمانو)! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں‘ جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ رکوع (خشوع وخضوع) کرنے والے ہیں۔ اور جو شخص اللہ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے‘ وہ یقین رکھے کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہے گی‘‘۔
اسی طرح قرآن مجید میں اس بات کی بھی نصیحت کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے عداوت رکھتا ہے تو ایسا شخص خواہ کتنا بھی قریبی کیوں نہ ہو‘ انسان کو اس سے محبت اور مودت والا رشتہ نہیں رکھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المجادلہ کی آیت: 22 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے‘ گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے‘ اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں‘ آگاہ رہو! بیشک اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والا ہے‘‘۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی دوستی کی بنیاد کو بڑے خوبصورت انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ سنن ابو دائود میں حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے اللہ کی خاطر محبت کی‘ اللہ کی خاطر غصہ کیا‘ اللہ کے لیے دیا اور اللہ کی رضا مندی کے پیش نظر نہ دیا‘ تو اس نے اپنے ایمان کو کامل کر لیا‘‘۔ کتاب و سنت میں جہاں دوستی کی بنیادوں کو واضح کیا گیا وہیں دوست کے حقوق اور ذمہ داریوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔ خیر خواہی اور نصیحت: دوست کا پہلا حق یہ ہے کہ اسے خیر خواہی اور بھلائی کی دعوت دی جائے اور غلطی پر نرمی اور اخلاص سے سمجھایا جائے۔ صحیح مسلم میں حضرت تمیم داریؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایاکہ دین تو خیرخواہی کا نام ہے۔ یعنی مسلمان دوسرے مسلمان کے بارے میں خیر خواہی کے جذبات رکھتا ہے۔ جب اس کو صراط مستقیم پہ چلتا ہوا دیکھتا ہے تو اس کی تائید کرتا ہے جبکہ اسے بھٹکا ہوا دیکھ کر اس کو بھلائی کی دعوت دیتا ہے۔
2۔ مشکل وقت میں ساتھ دینا: زندگی کے اتار چڑھائو کے دوران اپنے دوستوں کے کام آنا دوست کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے سنن ابو دائود میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘ نہ اس پر ظلم وزیادتی کرتا ہے اور نہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے (کہ اس کی کوئی پروا ہی نہ کرے)‘ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی کوئی ضرورت پوری کرے گا‘‘۔
3۔ خیر کے کاموں میں معاونت اور شر کے کاموں میں عدم تعاون: دوست کا دوست پر حق یہ ہے کہ خیر کے کاموں میں اس سے تعاون کیا جائے اور بدی کے کام میں اس کی معاونت سے احتراز کیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت: 2 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو‘‘۔
4۔ عیوب کی پردہ پوشی: ہر انسان غلطی اور خطا کا پتلا ہے۔ کئی مرتبہ انسان دوسروں کی کمزوریوں پر مطلع ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کو دوسروں کی غلطیوں کو اچھالنے کے بجائے ان کی پردہ پوشی کرنی چاہیے۔ جو کسی مسلمان کے عیب کی دنیا میں پردہ پوشی کرے گا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ روزِ قیامت اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔
5۔ دوست کیلئے دعا کرنا: دوست کیلئے ہمیشہ خیر کے کاموں کی دعا کرنی چاہیے۔ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں اس کیلئے دعائے خیر کرتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتے کو مقرر کیا جاتا ہے جو اس کیلئے اسی قسم کی بھلائی کی دعا کرتا ہے۔
اگر ہم دوستو ں کے حوالے سے اپنے پہ عائد ذمہ داریوں کو ادا کریں تو یقینا دوستی کا تعلق ایک مثالی تعلق میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے دوستوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے‘ آمین!