"AHC" (space) message & send to 7575

23مارچ اور الطاف حسن قریشی کی کتاب

23مارچ 1940ء: وہ دن ہے جب لاہور میں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے پاکستان کے نام سے ایک الگ ملک بنانے کی جدوجہد کا اعلان ہوا۔اس اعلان کو ''قرارداد پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔ ہندوئوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ہندوئوں کے گلی کوچوں میں نعرے لگنے لگے ''جو مانگے گا پاکستان اس کو دیں گے قبرستان‘‘۔ کانگریس کی قیادت میں اس نعرے میں تشدد اور خونریزی کی بو تھی۔ حالانکہ مسلم لیگ اور مسلمانوں کا مطالبہ پرامن تھا، آئینی اور جمہوری تھا، اس کے مقابلے میں کانگریس اور اس کے ہمنوائوں کا جواب متشددانہ تھا۔ مایہ ناز اور بزرگ صحافی محترم الطاف حسن قریشی نے نصف صدی قبل انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا جو ''اردو ڈائجسٹ ‘‘میں چھپتے رہے۔ ان میں سے اہم ترین اور منتخب انٹرویوز ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ قریشی صاحب نے اس کا ایک نسخہ مجھے بھی ارسال فرمایا، میں نے ساری کتاب پڑھ ڈالی اور حسن اتفاق ایسا کہ اوپر سے 23مارچ کا یادگار دن قریب آ گیا۔ 
محترم قریشی صاحب نے قائداعظم کے مخلص ساتھی اور پاکستان کے وزیراعظم چوہدری محمد علی مرحوم کے انٹرویو کو بھی اپنی اس کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ چوہدری صاحب بتاتے ہیں کہ 1946ء میں یعنی پاکستان بننے سے صرف ایک سال قبل جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی تو ستمبر 1946ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے عبوری کابینہ میں وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا تو برملا کہا کہ دنیا میں صرف چار بڑی طاقتیں ہیں، امریکہ، روس، چین اور ہند... اس فہرست میں برطانیہ شامل نہیں تھا غالباً اس لئے کہ نئے ہند کو مشرق میں برطانیہ کا جانشین تصور کر لیا گیا تھا۔ اس سے پہلے 1945ء میں نہرو نے اپنی کتاب ''تلاش ہند‘‘ میں یہ اعلان کیا تھا کہ مستقبل میں بحرِاوقیانوس کے بجائے بحرالکاہل اعصابی مرکز ہو گا۔
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ قائداعظم کی قیادت میں تحریک زوروں پر ہے مگر جواہر لعل نہرو 1945ء میں بھی پورے ہندوستان پر ہندوئوں کی حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں اور 1946ء میں اپنے آپ کو ایک سپرپاور کے سربراہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں قائداعظم چٹان کی طرح کھڑے منہ زور موجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ لارڈ مائونٹ بیٹن بھی اس کا ہمنوا تھا۔ وہ تو ریفری تھا مگر جب ریفری ہی جانبدار ہو جائے تو میچ جیتنا کس قدر دشوار ہو جاتا ہے یہ بخوبی سمجھ میں آتا ہے۔ ریفری کیا کر رہا تھا، اس کا اندازہ بلوچستان کی ریاست قلات کے حکمران میر احمد یار خان مرحوم کے انٹرویو سے ہوتا ہے۔ قریشی صاحب کا ایک سوال اور میر احمد یار خان کا جواب ملاحظہ فرمایئے:
''کیا آپ کے دور حکومت میں غیر ملکی طاقتوں نے بلوچستان میں قدم جمانے کی کوشش کی تھی؟‘‘
''اوہ! یہ آپ نے سیلاب کے آگے بندھا ہوا بند توڑ ڈالا ہے، کیا بتائوں انگریزوں نے کیسے کیسے منصوبے بنائے اور وہ مجھے دامِ ہم رنگ میں لانے کے لئے کیا کیا کوششیں کرتے رہے۔ میں اس وقت صرف ایک ہی منصوبے کا ذکر کروں گا۔
''یہ 1945ء کے شروع کی بات ہے جب انگریزوں کو دوسری جنگِ عظیم میں اپنی کامیابی کا پورا یقین ہو گیا تھا اور وہ دس برس بعد ابھرنے والے حالات کی پیش بندی کرنا چاہتے تھے۔ ہندوستان میں ان کے لئے سب سے زیادہ اہمیت بلوچستان کی تھی کہ یہ افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر واقع تھا۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ اگر صوبہ سرحد کا علاقہ افغانستان کے حوالے کر دیا جائے تو وہ روس کے درمیان ایک مضبوط بفر اسٹیٹ کا کام دے سکے گا۔ بلوچستان میں فوجی اڈے قائم کر کے افغانستان کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور اس طرح روس کی پیش قدمی روکی جا سکے گی، چنانچہ مجھے یہ پیغام دیا گیا کہ ہم ریاست قلات کی حفاظت شرق اردن کی طرح کریں گے جو مکمل طور پر ایک آزاد ریاست ہو گی۔ اس آزادی کے صلے میں ہمیں کوئٹہ چھائونی کا علاقہ انگریزوں کے حوالے کر دینا ہو گا۔ دراصل کوئٹہ اور اس کے نواح کا علاقہ ریاست قلات کا حصہ تھا جو ریاست نے انگریزوں کو پٹے پر دے رکھا تھا۔ وہ اس علاقے کے علاوہ جیونی بندرگاہ کا بھی مطالبہ کر رہے تھے۔ اس بندرگاہ کے ذریعے انگریز افغانستان کو بحری راستہ دینا چاہتے تھے۔ اس پیشکش میں بے پناہ کشش تھی، مگر میں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس جال میں پھنسنے والا نہیں۔ اگر پاکستان کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جاتا اور ہندوستان میں ہندوئوں کی سلطنت قائم ہو جاتی ہے تو ان اژدہوں کے سامنے کتنے دن زندہ رہ سکوں گا۔ وہ تو برصغیر کے سارے مسلمانوں کو ہڑپ کر جائیں گے۔‘‘
قارئین کرام! اندازہ لگائیں پاکستان کے بالکل عقب میں جا کر انگریز کیا کیا چالیں چل رہا تھا کہ بلوچستان کو پاکستان میں شامل نہ ہونے دیا جائے مگر میر احمد یار خان بڑے زیرک اور محب اسلام رہنما تھے۔ انگریزوں کی ان چالوں سے قائداعظم بھی باخبر تھے۔ ان کے میر احمد یار خان سے انتہائی خصوصی روابط تھے۔ میر احمد یار خان نے قائداعظم اور فاطمہ جناح کو سونے اور چاندی میں تولا تھا۔ یہ دولت اور اس کے علاوہ بھی اپنی ساری دولت کی پیشکش کرتے ہوئے انہوں نے کہا جناب قائد! میری ساری دولت آپ کی ہے اسلحہ خریدیئے، قوم میں (پاکستان کے لئے) سیاسی بیداری پیدا کیجئے اور عالم اسلام کو ایک مرکز پر لے آیئے۔ میر احمد یار خان مرحوم قریشی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں مزید بتلاتے ہیں کہ ''قائداعظم پاکستان بننے سے پہلے میرے ہاں ہفتوں قیام کرتے اور میں اپنی مقدور کی حد تک ان کی خدمت بجا لاتا اور ان کی سیاسی جدوجہد میں شریک رہتا۔ ہماری قربت کا یہ عالَم تھا کہ ایک بار قائداعظم نے فرمایا کہ اگر ہند کی تقسیم انگریزوں نے تسلیم نہ کی تو ہم قلات کو برصغیر کے مسلمانوں کا مرکز بنا کر یہاںسے آزادی کی تحریک پوری قوت سے چلائیں گے۔
قارئین کرام! اندازہ لگائیں کہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ اس قدر پرعزم تھے اور برصغیر کے مسلمانوں کے مفاد کی خاطر ایسی ناقابل تسخیر چٹان تھے کہ پاکستان کے حصول کی خاطر وہ یہاں تک فیصلہ کر چکے تھے کہ اگر ان کی پرامن، آئینی اور جمہوری جدوجہد کو نہیں مانا گیا اور ہمیں ہمارا حق نہیں دیا گیا تو انگریز جس قلات کے بارے میں برا سوچ رہے ہیں اسے مرکز بنا کر اس کے اور نہرو کے گٹھ جوڑ کے خلاف قوت کے ساتھ آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کی جائے گی۔ یہی وہ عزم تھا جس کے سامنے انگریزوں اور ہندوئوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور یوں نہرو کاخواب کہ وہ اک متحدہ ہندوستان کا سربراہ بنے گا، مہاراجااشوک کا وارث بنے گا، مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت اور انگریزوں کی سو سالہ حکومت کے بعد سارے ہندوستان کا سربراہ بنے گا، دنیا کی چوتھی بڑی سپرپاور کا سربراہ بنے گا، اس سارے خواب کو قائداعظم رحمہ اللہ نے چکنا چور کر دیا۔ آج حوصلے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اک بھنور سے نکل آیا ہے۔ دنیا میں ایک طاقتور ملک بن کر ابھر آیا ہے۔ ضرب عضب کی یلغار اسے ناقابل تسخیر بناتی چلی جا رہی ہے۔ 23مارچ 2016ء کے عزم سے یہی آشکار ہو رہا ہے کہ بہت ساری کوتاہیوں کے باوجود ہم اپنے قائد کے ورثہ کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے چلے جائیں گے اور قائد کے عزم کا تسلسل جاری رکھیں گے۔ (انشاء اللہ)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں