اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا انسان ایک ایسا شاہکار ہے جو ہمارے لیے علم و معلومات کا ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارا ہمیں معلوم نہیں۔ اس کا آغاز ایک خلیے (Cell) سے ہوتا ہے۔ اس ایک خلیے سے دو خلیے بنتے ہیں، پھر چار، آٹھ، سولہ بن جاتے ہیں اور یہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہ اربوں‘ کھربوں بن جاتے ہیں۔ یوں اربوں‘ کھربوں خلیات پر مشتمل ایک بچہ 9ماہ بعد دنیا میں نمودار ہوتا ہے۔ جب یہی بچہ ساڑھے پانچ فٹ سے چھ فٹ کا ایک مضبوط جوان بن کر ابھرتا ہے‘ تب اس میں لگ بھگ دس کھرب خلیات پائے جاتے ہیں۔ پھر یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 100کھرب ہو گئی اور پھر اس قدر بڑھ گئی کہ انسانی خلیات کو گننا ممکن ہی نہ رہا۔ بین الاقوامی سطح پر آج گنتی کے لیے جو پیمانے استعمال ہو رہے ہیں‘ وہ ملین، بلین اور ٹریلین ہیں۔ کوئی شئے کھربوں میں ہو تو وہ ایک ٹریلین بنتی ہے۔ انسانی خلیات کا خوردبین سے اندازہ لگاتے لگاتے بات 40 ٹریلین تک جا پہنچی۔ بعض کے ہاں 60ٹریلین تک گئی اور پھر 100ٹریلین تک پہنچ گئی۔ یہ ٹھہرتی دکھائی نہیں دیتی۔ اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ یہ تعداد کتنی ہے۔ یاد رہے! انسانی جسم میں جس قدر عمومی خلیات پائے جاتے ہیں ان کی تعداد سے ''بیکٹیریل خلیات‘‘ کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ جی ہاں! یہ جو خلیات ہیں‘ ان کی بھی متعدد اقسام ہیں۔ انتڑیوں کے خلیات کی شکل ہاتھ سے ملتی جلتی ہے۔ جگر کے خلیات کی شکل ایسے لڈو جیسی ہے جسے انگوٹھے سے درمیان میں سے دبا دیا گیا ہو۔ دل کے خلیے کی شکل ایسی ہے جیسے بغیر پتوں کے کوئی شاخ دار ٹہنی ہو۔ شریانوں کے خلیے کی صورت ایسے رومال جیسی ہے جس کے چاروں کونوں پر ہرن کے سینگ اگے ہوئے ہوں۔ خون کے خلیات سرخ نگینوں جیسے لگتے ہیں۔ پھر خون کے خلیات کی بھی تین اقسام ہیں؛ سرخ خون کا خلیہ الگ ہے۔ سفید خون کا خلیہ الگ ہے۔ پلیٹ لیٹس کا خلیہ الگ ہے۔
ایک خلیہ متعدد حصوں پر مشتمل ہوتا ہے‘ ان میں سے ایک حصے کا نام ''ڈی این اے‘‘ ہے۔ سیل یعنی خلیے سے ''ڈی این اے‘‘ کو نکالنے کے لیے سائنسدانوں کو 40سال لگ گئے۔ اس پر جب مزید ریسرچ کی گئی تب پتا چلا کہ یہ انسانی جسم کے بہت سارے علمی سمندروں میں سے ایک اور سمندر ہے۔ اللہ اللہ! ایک ڈی این میں تین بلین یعنی تین ارب (Base Pairs) ہوتے ہیں یعنی بنیادی جوڑے تین سو کروڑ کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ اب سوچئے! تمام خلیات میں بنیادی جوڑوں کی تعداد کو کیسے گنتی کیا جائے گا؟
ڈاکٹر ریکارڈو‘ جو خلیاتی علم کے ماہر ہیں‘ کہتے ہیں کہ ایک نومولود بچے کے تمام ''ڈی این اے‘‘ اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ اگر ٹائی ٹانک جیسے دو ہزار بحری جہاز ہوں اور ان پر بچے کے ''ڈی این اے‘‘ کی معلومات پر مبنی فلیش ڈرائیوز (USB) بنائی جائیں تو دو ہزار بحری جہاز ان یو ایس بیز سے بھر اور لد جائیں گے۔ میں کہتا ہوں ایسا کرنے کے لیے ساری دنیا میں جو آئی ٹی کے ماہرین ہیں‘ وہ سب مل کر یہی کام کرتے رہیں تو اک نومولود کے ڈیٹا کو ساری زندگی نہ بنا پائیں گے اور نہ لاد سکیں گے‘ چاہے اگلی کئی نسلیں اس کام پر لگ جائیں۔
یاد رہے! تین ارب بنیادی جوڑے 46عدد کروموسوم میں Arrange کیے گئے ہیں۔ وہاں ان کی جو زبان ہے وہ A,T اور G,T کے جوڑوں سے سائنسدانوں نے ظاہر کی ہے۔ اس ڈھانچے کی بنیاد ''نائٹروجن‘‘ پر ہے۔ اس پر اثرات کہاں کہاں سے آتے ہیں‘ اس حوالے سے ابھی تحقیق اور ریسرچ کے نجانے کتنے بے شمار دروازے کھولنا ہوں گے۔
اے انسان! تیرے دماغ کے جو خلیات ہیں ان کو ''نیو رونز‘‘ کہا جاتا ہے۔ دماغی نیو رونز کے کئی حصے ہیں۔ ہر حصہ الگ بھی فنکشن کرتا ہے اور باقی سب حصوں کے ساتھ جڑا ہوا بھی ہے۔ جس قدر جسم کے خلیات کی تعداد ہے‘ اسی قدر دماغ کے نیو رونز کی تعداد ہے۔ ہر دو نیو رونز کے درمیان اُس وقت ایک روشنی پیدا ہوتی ہے جب انسان سوچتا ہے یا دماغ کو کسی بھی طرح سے استعمال میں لاتا ہے۔ اس روشنی کو Synapse کہا جاتا ہے۔ ان کا اگر شمار ممکن ہو سکے‘ جو کہ فی الوقت تک ناممکن ہے‘ تو شاید روشنی کے یہ بلب آسمان کے چمکتے ستاروں کی تعداد کو پہنچ جائیں۔ مگر یہ بلب جلتے اور بجھتے رہتے ہیں۔ ان کی تعداد کوکون شمار کرے گا۔ ایک انسان کے دماغ کے بلبوں کی تعداد کا یہ عالم ہے تو آٹھ ارب انسانوں کے دماغوں سے نیو رونز کے قمقموں کی تعداد کتنی ہوگی؟ یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں‘ جو خالق بھی ہیں اور مالک بھی ہیں۔ یہ انسان بے چارا اپنے آپ کو کیا جانے گا۔ اس کا علم اپنے مادی وجود کے بارے میں جس قدر بھی ہے‘ وہ نہ ہونے کے برابر ہے تو یہ اپنی روح کے بارے میں ''روحانی علم‘‘ تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟
میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ انسان کے جسم میں کھربوں خلیات روزانہ مرتے ہیں اور ان کی جگہ پر نئے خلیات بن جاتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے جو خلیات مرتے ہیں‘ ان کا ڈیٹا نئے خلیات میں کیسے منتقل ہوتا ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ہے جو ایک انسان میں روزانہ اور مسلسل ہو رہا ہے۔ زندگی اور موت کا کھیل روزانہ ہر انسان کے وجود میں کھیلا جا رہا ہے۔ کھربوں خلیات مرتے ہیں اور جسم کے اندر ہی ان کے قبرستان بنتے ہیں۔ جی ہاں! ہم اپنے پیاروں کی قبریں بناتے ہیں‘ آئے روز قبرستان بھی جاتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ قبرستان ختم اور نابود ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اندر کے قبرستان بھی جب حد سے بڑھ جاتے ہیں تو Cupping کے ذریعہ یہ قبرستان ختم ہو جاتے ہیں۔ قدرتی صفائی کے ذریعے بھی یہ ختم ہوتے رہتے ہیں۔
سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ خلیات اگر دس ٹریلین کی تعداد میں ہوں اور ان سب کے ''ڈی این اے‘‘ کو نکال لیا جائے تو ڈی این اے کے دھاگے کی لمبائی 14ارب کلو میٹر ہو جائے گی۔ انسان کے ہر خلیے کے ڈی این اے کو ہر خلیے سے نکال دیا جائے تو پیارے قارئین! میں کہتا ہوں کہ ہمارے جسم کا دھاگہ اس قدر لمبا ہو جائے گا کہ نظامِ شمسی کی حدود کو پار کر کے ہماری مِلکی وے کہکشاں میں جا کمندیں ڈالے گا۔
ہم لوگ رات کے وقت آسمان میں بے شمار کہکشاؤں اور ان کے ستاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ امریکہ کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے دو تصاویر جاری کی ہیں۔ ایک تصویر ''جیمز ویب‘‘ کی ہے جو کائنات کے ایک ایسے حصے کی ہے جس میں بے شمار کہکشائیں اور ان کے جھرمٹ ہیں۔ دوسری تصویر انسانی دماغ کی ہے۔ حیران کن طور پر دونوں تصاویر ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں۔ لوگو! پس ثابت ہوا کہ جس خالق نے یہ ساری کائنات بنائی ہے‘ اسی خالق نے انسان کا دماغ بنایا ہے جو کائنات کے اندر کمندیں ڈال رہا ہے۔ جی ہاں!
مکڑی کا جالا دیکھا جائے۔ حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ مجید میں ''عنکبوت‘‘ کے نام سے سورت کو دیکھا جائے کہ اس کا مطلب ''مکڑی‘‘ ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں مکڑی کے جالے کا تذکرہ ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو اپنا کارساز بنا رکھا ہے‘ ان کی مثال مکڑی کی سی ہے وہ بھی اپنے تئیں ایک گھر بناتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر (جالا) ہے، کاش یہ لوگ اس بات کو جانتے۔ (مفہوم آیت: 41) اس مکڑی کا خالق بھی وہی ہے جو انسانی دماغ اور کائنات کا خالق ہے۔ انسان کا اپنا وجود گواہ ہے کہ اس کے وجود کے اندر جو علمی سمندربہہ رہے ہیں‘ ان کا کوئی خالق ہے۔ وہ ایک ہے اور اس کی ہر تخلیق قدم قدم پر گواہی دیتی ہے کہ ہر شاہکار کے پیچھے اُسی ایک ہی کی کارفرمائی ہے۔