تبدیلی بتدریج آتی ہے

انقلاب کے لفظ میں ایک خاص نوعیت کی رومانویت ہے۔ جن ممالک نے انقلاب کی تباہ کاری دیکھی ہی نہیں‘ وہاں کے عوام سمجھ نہیں سکتے کہ کس طرح معاشرے کا پُورا ڈھانچہ ہل کر رہ جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کوئی ملک انقلاب کا متحمل ہی نہ ہو سکا اور بکھر گیا۔ ایسا بھی ہُوا کہ ایک تنظیم یا جماعت کسی انقلاب کے لیے کوشاں رہی، اُس نے قربانیاں دیں اور جب تبدیلی آئی تو کسی اور قوت نے اسے ہائی جیک کر لیا۔ قربانیاں دینے والوں کو ثمرات سمیٹنے کے بجائے مُشکلات اورکٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس باعث جدید دور میں یہ اصول طے ہو چکا ہے کہ انقلاب کے بجائے بتدریج اصلاحات کی کوشش کی جائے۔ ادارے بنائے جائیں، نظام میں بُنیادی تبدیلیاں لا کر اسے عوام کے لیے مفید اور ہمدرد بنایا جائے۔ آزادانہ جمہوری ماحول قائم ہو، عدلیہ اور میڈیا آزاد ہوں، احتساب کا شفاف اور قابلِ اعتماد نظام قائم کیا جائے۔ مُلکی پالیسیاں فردِ واحد کے ہاتھ میں دینے کے بجائے ادارہ جاتی سطح پر طے ہوں، تھنک ٹینک بنیں تا کہ اجتماعی قومی دانش بروئے کار لائی جا سکے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمارے جیسے تیسری دُنیا کے پسماندہ ممالک کے عوام کو سمجھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں تو ویسے بھی شخصیت پرستی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ جو شخص بھی انقلاب کا نعرہ لگا کر پُرجوش جذ باتی باتیں کرے، کچھ نہ کچھ حمایت اسے مل ہی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ حمایت سیاسی عصبیّت میں بدل جاتی ہے۔ اس عصبیّت یا غیرمشروط حمایت کا اگلا درجہ موروثیت ہے۔ یہ موروثیت انفرادی طور پر پیروں، صاحبزادوں اور مخدومین کی شکل میں موجود ہے اور سیاسی جماعتوں میں بھی اس کے گہرے نقش نظر آ تے ہیں۔ لوگ کسی لیڈر کے لیے اپنی حمایت اس کی اولاد اور بسا اوقات اولاد در اولاد کے لیے منتقل کرتے جاتے ہیں۔ یہ لوگ مانتے ہیں کہ اُن کے پسندیدہ لیڈر کی بیوی، اولاد یا خاندان اس درجہ اہل نہیں‘ اُن میں وہ اوصاف موجود نہیں، جو اُن کے پسندیدہ لیڈر کا خاصہ تھے‘ اس کے باوجود وہ اُسے اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیںکہ لیڈر کی آنے والی نسل‘ خواہ وہ جس قدر بھی نالائق اور نکمی ہو، کی غیرمشروط حمایت کرنی چاہیے۔ بات انقلاب سے شروع ہوئی تھی۔ بتدریج اصلاحات کا نُکتہ مجھے اخوان المسلمون کی قیادت سے گفتگو کے بعد سمجھ آیا۔ دو سال پہلے مجھے چند دنوں کے لیے مصر جانے کا موقع ملا۔ قاہرہ میں قیام کے دوران میں نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے سربراہ اور دیگر لیڈروں سے انٹرویو کی کوشش کی، جو کامیاب ہوئی۔ اخوان کے مرکزی دفتر میں کئی گھنٹے گزارنے کا موقع ملا۔ اخوان المسلمون کے سربراہ‘ جسے مرشدِ عام کہا جاتا ہے، سے انٹرویو بھی کیا۔ اُن دنوں مرشدِ عام مہدی عاکف تھے، جو بعد میں اپنی صحت کے پیش نظر ریٹائر ہو گئے۔ یوںموجودہ مرشدِ عام ڈاکٹر محمدالبدیع کو منتخب ہونے کا موقع ملا۔ اخوان کے ایک اہم لیڈر ڈاکٹر عصام الریان اور عرب میڈیکل یونین کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح سے بھی دلچسپ گفتگو رہی۔ مصر کے موجودہ صدر ڈاکٹر مرسی بھی وہاں موجود تھے، اگرچہ اُس وقت یہ اندازہ نہ ہوا کہ وہ اخوان کی قیادت میں کوئی اہم مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عصام سے میں نے وہ روایتی سوال کیا، جو پاکستانی میڈیا میں ہر دینی سکالر یا رہنما سے کیا جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کیسے لایا جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر عصام نے تیز نظروں سے میری جانب دیکھا، چند لمحوں کا توقّف کیا اور پھر بولے: ’’ہم انقلاب کا لفظ استعمال نہیں کرتے‘ ہم اصلاحات لانے کے حامی ہیں، بتدریج اصلاحات۔ مصر سے ہم کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں، آزادی، اظہار کی آزادی، استعمار سے آزادی۔ ہم گڈ گورننس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر عصام نے کمال صاف گوئی سے کہہ دیا کہ ان ذاتی رائے میں اخوان نے پچاس کی دہائی میں جس فوجی انقلاب کی حمایت کی تھی، وہ غلط فیصلہ تھا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں بعدازاں جمال ناصر حکمران بنا اور اُس نے اخوان پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ عصام الریان کے بقول: ہم بطور جماعت بہت عرصہ پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیںکہ کسی خفیہ انقلاب کی حمایت نہیں کرنی، صرف اور صرف دستوری جدوجہدکے ذریعے ہی تبدیلی لانا ممکن ہے، باقی صرف رومانویّت اور خواب پرستی ہے، جس کا انجام بُرا ہی نکلتا ہے۔ مرشدِ عام مہدی عاکف سے بات ہوئی تو مزید حیرت ہوئی۔ اُنہوں نے بھی انقلاب کے بجائے اصلاحات کی بات کی۔ انہوں نے صاف کہا کہ ان کی جدوجہد معاشرہ بدلنے کے لیے ہے۔ سماج میں تبدیلی لانا ہی اصل انقلاب ہے، جو حضور اکرم ﷺ نے برپا کیا تھا۔ انہوں نے کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ اگر معاشرے میں تبدیلی آ گئی تو حکومتی سطح پر خودبخود تبدیلی آ جائے گی کہ حکومت کا حصّہ بننے والے لوگ یہاں سے جاتے ہیں‘۔ میں نے سیاسی جدوجہد کی بات کی تو وہ بولے اخوان المسلمون ہر محاذ پر کام کرنا چاہتی ہے، سیاست میں بھی ہم موجود ہیں۔ کہنے لگے کہ ہمارا اصل کام دعوت و تعلیم کا ہے، سیاسی جدوجہد تو صرف پانچ فیصد بنتی ہے۔ مصر اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں اخوان المسلمون کی کامیابی دیکھتے ہوئے مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ اخوان اگر دعوت و تربیت پر اتنا زور نہ دیتی تو اُنہیں اس قدر زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو پاتی۔ اگرچہ میرے خیال میں ’’عرب بہار‘‘ کی لہر کے باعث اخوان کو چند سال قبل از وقت اقتدار مل گیا۔ حُسنی مبارک کی سختیوں کے باعث اُنہیں کُھل کر معاشرے میں کام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اگر اُنہیں پاکستانی مذہبی جماعتوں جیسا سازگار ماحول ملتا تو اخوان کی کامیابی کا تناسب دُگنا ہو سکتا تھا۔ ہمارے ہاں ’’عرب بہار‘‘ نے ایک خاص قسم کی رومانویّت پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر‘ خاص طور سے نوجوانوں میں‘ جوش و خروش بہت زیادہ بڑھ گیا۔ انقلاب انقلاب کے نعرے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ دیرپا اور ٹھوس کام اصلاحات لانا ہے۔ سماج میں تبدیلی لانا اصل کام ہے۔ سیاسی تطہیر کا ایک ایسا نظام وضع ہو، جس سے کرپٹ اور خائن لوگوں کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوتی جائیں۔ پیسے کے زور سے، برادری اور بدمعاشی کی قوت سے انتخاب جیتنے والے انتخابی نظام سے باہر ہوتے جائیں۔ کام دونوں سطحوں پر ہو۔ الیکشن اصلاحات ایک اہم کام ہے، باسٹھ، تریسٹھ پر عمل ہو، ٹیکس چور، ڈیفالٹر، سزا یافتگان، بدنام لوگ الیکشن لڑ ہی نہ پائیں۔ جو اس فلٹر سے بچ جائیں اُنہیں عوامی ووٹ سے باہر ہو جانا چاہیے۔ اس کے لیے مگر عوام کی تربیت، اُن میں سیاسی شعور بیدار کرنا، تھانہ کچہری کے دبائو سے آزاد کرنا اور نظریاتی سیاست کو دوبارہ سے رائج کرنا ہو گا۔ یہ کام محنت اور وقت مانگتا ہے۔ ہماری جماعتوں اور دردِ دل رکھنے والے افراد کو اپنے اپنے دائرے میں اس جانب کام کرنا چاہیے۔ انٹیلی جنشیا، تجزیہ کار، اینکر اور لکھاری حضرات کو اپنے سطحی مفادات اور پسند ناپسند سے بالاتر ہو کر اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی بتدریج ہی آتی ہے، عجلت میں معاملات بگڑتے ہیں، سنورتے نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں