تحریک انصاف کا نیا جنم؟

اسے ٹیم کہہ لیں، پارٹی یا جماعت، اُس کی تاریخ خیرہ کُن کامیابیوں اور بدترین ناکامیوں سے معمور رہی۔ یہ تیزی سے اُبھری اور یکایک بلندیوں تک جا پہنچی۔ یوں لگا کہ اب یہ چوٹی پر ڈیرہ لگا لے گی۔ پھر اچانک ہی وہ پھسلی اور تیزی سے نیچے گرتی چلی گئی۔ اُس کی دھجّیاں تک اُڑ گئیں۔ جب لوگ اپنی دانست میں اسے دفنا کر قبر پر دو سوگوار پھول بھی اُگا چکے تو اچانک ہی اس کے تن مردہ میں جان پڑی اور یہ باہر نکل آئی۔ اس بار اس نے دھیرے دھیرے اُوپر چڑھنا شروع کیا۔ رفتار بڑی سست تھی لیکن آہستہ آہستہ، قدم قدم اُوپر چڑھتی رہی۔ لوگ طنز اور ترس کے ملے جلے جذبوں سے اس کے سفر کو دیکھتے رہے۔ بظاہر ایک رائگاں سفر، ناکام کوشش، لاحاصل کو پانے کی سعی۔ کئی برس گزر گئے۔ یار لوگ اُس کے سخت جان جوشیلے قائد کا مذاق اُڑاتے، اُسے چھیڑتے رہے، جو اپنی بساط سے بڑھ کر باتیں بناتا، دعوے کرتا تھا۔ پھر اچانک ہی ہر ایک حیران رہ گیا۔وہ پارٹی دبے قدموں سفر طے کرتی ایک اونچے مقام تک جا پہنچی۔چوٹی سے نیچے کے ایک اہم پوائنٹ تک اس کا پہنچ جانا حیران کن تھا۔ یکایک شہرکا شہر امڈ آیا۔ جسے کوئی خواب میں بھی سراہتا نہیں تھا، اسے یکباری ہزاروں لاکھوں سپورٹر مل گئے ، جو ہاتھ ہلاتے، نعرے لگاتے اس کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ پھر اچانک ہی جانے کیا ہوا۔ وہ ٹیم جو بظاہر چوٹی تک پہنچنے کا مقابلہ جیتتے نظر آ رہی تھی، سست پڑ گئی۔ اس کا لیڈر نجانے کن معاملات میں الجھ گیا۔ اوپر جانے، مقابلہ جیتنے کی حکمت عملی طے کرنے کے بجائے وہ کچھ ایسے کاموں میں پڑگیا،جس کی دور کھڑے لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اس کے حامی حیران تھے کہ اب جب چند ہاتھ لبِ بام رہ گئے ہیں، اس پارٹی کا ٹیمپو اس قدر سست کیوں پڑ گیا؟ ادھرمخالف ٹیم جو ماضی میں کئی مقابلے جیتنے کا تجربہ بھی رکھتی تھی، اس میں شکست سامنے دیکھ کر ایک نئی جان پڑ گئی، اس نے نئے نئے حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے۔ رفتار بڑھا دی،نئے اوزار نکال لیے، اردگرد سے مدد لینے لگی، اپنے کھلاڑیوں کو تھپکیاں دینے لگی ، کامیابی کے نعرے لگائے جانے لگے۔ یوں اس کی رفتار بھی بڑھ گئی اور وہ مقابلے سے آئوٹ ہوتے ہوتے دوبارہ واپس آ گئی۔ ادھر نیچے سے ڈرامائی انداز میں اوپر اٹھنے والی جماعت پر غنودگی طاری تھی۔ یہ کیفیت دیکھ کر ان مقابلوں پر نظر رکھنے والے جغادریوں نے پرانی تجربہ کار ٹیم کی جیت کی پیش گوئی کر دی۔ بظاہر سب کچھ توقع کے مطابق نظر آ رہا تھا، پھر اچانک ہی نیچے سے اوپر اور بلندیوں سے پستی تک کے ڈرامائی سفر کا ریکارڈ رکھنے والی جماعت نے جھرجھری لی۔ وہ اپنے اوپر جمی برف جھاڑ کر ایک بار پھر کھڑی ہوگئی۔ اس نے اپنے ہاتھ تیزی سے مسلے، اپنے اوزار دوبارہ سے نکالے اور ایک نئے جذبے سے دوبارہ مقابلے میں شامل ہوگئی۔ یہ ایک حیران کن امرہے۔ سیاست میں ایسا نہیں ہوتا، تاریخ اس طرح کی رعایتیں کم لوگوں کو دیتی ہے۔ اس جماعت تحریک انصاف کا تجزیہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے ہماری سیاست کی حرکیات سمجھنے میں مدد ملے گی۔ تحریک انصاف کے سفر کو تین حصوںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تحیر خیز کامیابیوں اور دلخراش ناکامیوں سے معمور ہے۔ پہلا فیز اس کے ابتدائی دو برسوں پر محیط ہے،جب عمران خان نے سیاست میں دھماکہ خیز انٹری دی۔ انہیں غیرمعمولی پزیرائی حاصل ہوئی، یوں لگا جیسے سیاست میں ایک نئی قوت نے جنم لے لیا ۔ یہ دور زیادہ دیر چلا نہیں، خود کو منظم کیے بغیر ستانوے کے انتخابات میں حصہ لیا اور بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ دوسرا فیز اگلے دس بارہ برسوں تک چلا ،جب اسے مبصرین نے ٹانگہ پارٹی قرار دے دیا تھا، پھر اچانک ہی تیس اکتوبر2011ء کی شام مینارِ پاکستان لاہور پر ایک دھماکہ خیز کامیابی حاصل ہوئی۔ اس روز لاکھوں لوگوں نے اپنے گھروں سے نکل کر اس کے حامی ہونے کا اعلان کیا۔ قائد عمران خان نے جو کشٹ کاٹا، انہیں اس کا ثمر مل گیا۔ٹی وی چینلز پر گلے کی رگیں پھُلائے، تمتماتا چہرہ لیے، بڑے بڑے ہاتھ لہراتے ،بلند بانگ دعوے کرتے ، تبدیلی کے مژدے سناتے جانے کب انہوں نے نوجوانوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ دائیں بازو والوں، ممی ڈیڈی کلاس کہلانے انگریزی بولنے والے گھرانوں، پڑھے لکھے مڈل کلاس خاندانوںاورگلے سڑے نظام سے تنگ نچلے طبقے کے نوجوانوں کے لیے وہ امید کی واحد کرن بن چکے تھے۔عوامی موڈ دیکھتے مختلف طاقتور سیاسی گھرانوں کے افراد نے تحریک انصاف پر یلغار کر دی۔ اس افراتفری اور دھکم پیل کو یہ جماعت برداشت نہ کر سکی، اس کا ڈھانچہ ہل کر رہ گیا۔دھچکا اس قدر شدید تھا کہ یہ کوما میں چلی گئی۔جب تیزی سے آگے بڑھنے کا وقت تھا، اس وقت تحریک انصاف بستر پر پہنچ گئی۔ مخالفوں کی پروپیگنڈہ مہم اس پر مستزاد تھی۔ یوں لگا جیسے بلبلہ پھٹ چکا ہے اور تحریک انصاف اپنے فطری انجام تک پہنچ گئی۔ پھر اچانک ہی فروری کے آخری ہفتے اس نے انگڑائی لی اوربستر سے اُچھل کر بیٹھ گئی۔ ا ب تحریک انصاف کا سب سے اہم اور کٹھن فیز شروع ہو رہا ہے۔ پچھلے ایک سال سے وہ اپنے اندرونی انتخابات میں اُلجھی رہی اور اب اگرچہ انتخابات کا مرحلہ نمٹ گیا ،مگر اس نے پارٹی پر کچھ اچھے نقوش نہیں چھوڑے۔ عمران خان کواکتوبر2011ء کے لاہور کے جلسے میں جو غیرمعمولی ایڈوانٹیج حاصل ہوا، وہ انہوں نے ضائع کردیا۔ پارٹی کے انتخابات انہیں ضرور کرانے چاہئیں تھے، مگر اس کے لیے اوّل تو اتنا زیادہ وقت صرف نہیں ہونا چاہیے تھا، دوسرا ضلعی اور دوسرے عہدے داروں کے لیے کارکنوں کے براہ راست ووٹ سے انتخاب کرایا جاتا۔ جو طریقہ اب اختیار کیا گیا ہے، اس سے بہت خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اورجیتنے والوں پر پیسہ استعمال کرنے کے الزامات لگے۔ براہ راست انتخاب سے ایسا نہ ہوتا۔ بہرحال یہ توعمران خان کی ایسی اجتہادی غلطی تھی، جس کے نتائج انہیں بھگتنا ہوں گے۔ یہ بات مگر عمران کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ گراس روٹ لیول تک انتخابات کرا کر اس نے دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے مشکلات ضرور پیدا کر دی ہیں۔ عمران خان کے لیے اب اصل مرحلہ پارٹی کو متحد کرنا اور اگلے انتخابات کے لیے منظم انداز سے میدان میں اترنا ہے۔ یہ کام آسان نہیں۔ مسلم لیگ اس دوران بہت آگے جا چکی ہے۔ اگراہمیت قابلِ انتخاب امیدواروں کی تھی تو یہ دوڑ ن لیگ نے جیت لی۔ سیاسی اتحاد اور جوڑ توڑ میں بھی وہ تحریک انصاف سے بہت بہتر ثابت ہوئی۔یوں لگ رہا ہے جیسے تحریک انصاف سیاسی میدان میں تنہا رہ گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں۔ ان کا زیادہ انحصار تئیس مارچ کو مینارِ پاکستان پر ایک بہت بڑا جلسہ کر کے دوبارہ سے لہر پیدا کرنے پر ہے۔ وہ ایسا کر پاتے ہیں یا نہیں اورپھر اگر بڑا شو کر بھی گئے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ تحریک انصاف کو الیکشن کے جھنجھٹ سے باہر نکلنا مبارک ہو، ان کا ایک بار پھر سیاسی جنم ہوا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ قدرت کی لافانی قوتیں انہیں اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا ایک اور موقع دیتی ہیں یا نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں