میرا کیا قصور ہے؟

ہر طرف سے مایوسیوں کی یلغار ہے۔ ہر گزرتا دن، ہر گزرتا لمحہ ڈپریشن اور فرسٹریشن کی کھیپ اپنے جلو میں لیے آتا اور اسے ہمارے اوپر انڈیل دیتا ہے۔ بطور قوم ہم ڈپریشن کی شدید کیفیت میں جا چکے ہیں۔ لہو رنگ صفحات اور خوف و دہشت سے معمور پروگرام لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے۔ جان پھر بھی نہیں چھوٹتی۔ ہر دوسرے چوتھے روز کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جس کی کربناک تفصیلات اُن تک پہنچ ہی جاتی ہیں۔ شرمندگی ندامت اور بے چارگی کی ایک نئی چادر سر پر تان دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ کم نہیں، مگر اس سے بھی بڑی مصیبت مایوسی پھیلاتی زبانیں اور زہر اگلتے قلم ہیں۔ ہر روز ایسے زہریلے کٹیلے جملے سننے پڑھنے میں ملتے ہیں جو چاروں طرف چھائے اندھیروں میں اضافہ کرتے ہیں۔ تم سب ایسے ہو، پاکستانی قوم ایسی ہے، دو قومی نظریہ ختم ہو گیا، یہ کیسا اسلام ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ کوئی نہیں جو اس پورے معاملے، پریشان کن مسئلے کا حل تجویز کرے۔ شکستہ حوصلوں کی فصیل از سر نو استوار کرے۔ پریشان حال دلوں کو امید دلائے، اندھیروں کو چاک کرتی روشنی کی کرن جگائے۔ صورت حال کا غیرجانبدارانہ آزاد ذہن سے تجزیہ کرے۔ جس کا جتنا قصور ہے، اتنا ہی بیان کرے۔ سب سے بڑھ کر وہ تجاویز دے جو اس کی دانست میں اس بے یقینی، پریشانی کا خاتمہ کر سکتی ہوں۔ میرے لے سب سے تکلیف دہ وہ الزامات، طعنے اور زہریلے تبصرے ہیں جن کا مجھے غیرضروری طور پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر مجھے ہر معاملے میں کیوں مطعون کیا جائے؟ میں عامر خاکوانی، جو ایک اخبار نویس، قلم کا مزدور ہے جس نے کبھی کسی معاملے میں تعصب سے کام لیا نہ ہی ظالموں کا ساتھی بنا۔ جو جنونیوں، دہشت گردوں اور محض سنی سنائی بات پر یقین کر کے مشتعل ہو جانے والے احمقوں سے ہمیشہ الگ رہا۔ مجھے ان چند افراد کے کیے گئے ظلم کا ذمہ دار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ جو کام میں نے کیا ہی نہیں، وہ میرے نامہ اعمال میں کیوں ڈال دیا جائے؟ مگر ٹھہریں، بات صرف میری نہیں۔ عامر خاکوانی تو ایک لفظ، ایک نام، ایک استعارہ ہے۔ اس کی جگہ کوئی ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، بینکر، اکانومسٹ، سرکاری ملازم، تاجر… کوئی عام آدمی، کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اس نام کی جگہ ان کروڑوں پاکستانیوں کے نام آ سکتے ہیں، جو میری طرح بے قصور ہیں۔ جو ظالم ہیں نہ ظلم کا حصہ بنے۔ جنہوں نے خاموشی کا جرم بھی نہیں کیا، وہ ان ظالموں کو، ان دہشت گردوں کو مسترد کرتے، ان کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ یہ اور بات کہ ان بے چہرہ پاکستانیوں کی آواز ہمارا میڈیا اپنی پوری قوت سے اٹھانے اور سب کے سامنے لانے میں ناکام رہا۔ یہ بھی ہے کہ غیرمنظم ہونے، اہل قیادت کے نہ ملنے اور ابلاغ کا ہنر نہ جاننے کے باعث یہ سب لوگ اپنے احتجاج کو ٹھوس شکل نہیں دے پائے۔ ہمارے دانش وروں، تجزیہ کاروں اور اہل علم نے سمجھایا ہی نہیں کہ ظلم پر احتجاج کس طرح کرنا ہے، اپنی قوت کو مجتمع کر کے کیسے دیوار بنانی ہے؟ یہ بات بھی میرے جیسے کم فہم کو سمجھ نہیں آتی کہ چند سو یا چند ہزار جنونیوں یا شدت پسندوں کا جرم پورے اٹھارہ کروڑ عوام کا قصور کیسے بن سکتا ہے؟ لاہور میں عیسائیوں کی بستی جلانے کے اگلے روز میں شہر میں گھومتا پھرتا رہا، بہت سے لوگوں سے بات ہوئی۔ بعض دینی مدارس کے طلبہ کو بھی ٹٹولا۔ میں نے ہر ایک کو غم زدہ، نادم اور پریشان ہی پایا۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ اگر ایک مسیحی نے توہین رسالت کی تو پوری کالونی اس کی ذمہ دار کیسے ہو سکتی تھی؟ چند شرابیوں کی اس لڑائی کو جس طرح اسلام کی جنگ بنایا گیا اس کا افسوس ہر ایک کو تھا۔ یہ سوال بھی مگر جگہ جگہ پوچھا گیا کہ اس میں اسلام یا پاکستان کے مسلمانوں کا کیا قصور؟ اس واقعے میں کوئی مذہبی تنظیم شامل نہیں۔ کسی دینی جماعت، حتیٰ کہ کسی کالعدم تنظیم تک نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ صاف صاف یہ پراپرٹی کا ایشو لگ رہا ہے۔ معمولی سے جھگڑے پر توہین رسالت کا الزام لگا کر دانستہ پوری کالونی جلائی گئی تاکہ مکین ڈر کے مارے واپس ہی نہ آئیں اور یوں اس زمین پر قبضہ ہو جائے۔ یہ سانحہ واضح طور پر نان گورننس کے باعث ہوا۔ اگر پولیس اور انتظامیہ مستعد ہوتی تو واقعہ رونما نہ ہوتا۔ سپریم کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لیا ہے تو یقیناً اصل بات کھل جائے گی۔ عدالت نے بجا طور پر دریافت کیا کہ واقعہ ہونے کے چھتیس گھنٹوں بعد حملہ کیوں ہوا؟ منطقی طور پر ایسے واقعات فوری اشتعال میں یعنی ابتدائی ایک دو گھنٹوں میں ہو جاتے ہیں۔ اتنی دیر بعد حملہ کرنے کے پیچھے منظم سازش کارفرما لگتی ہے۔ دراصل ایسے واقعات کے انسداد کا ایک ہی طریقہ ہے، سختی سے قانون کا نفاذ۔ اگر دو تین مہینوں کے اندر ہی ملزموں کو سزائیں مل جائیں اور ان کی میڈیا پر اچھے طریقے سے تشہیر ہو جائے تو آئندہ کسی کو ایسی جنونی حرکت کی جرأت نہ ہو گی۔ گزشتہ روز ٹوئٹر پر ایک عالم دین نے بجا طور پر یہ بات لکھی کہ اگر رمشا مسیح پر بے بنیاد الزام لگانے والوں کو سزا مل جاتی تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔ اس قسم کے واقعات چند افراد کی حماقت اور انتظامیہ کی نااہلی کے باعث رونما ہوتے ہیں۔ غفلت کرنے والوں اور مجرموں کو ان کے کیے کی سزا مل جائے تو ایسے واقعات روکے جا سکتے ہیں۔ ایسے معاملات کی سنگینی بڑھانے میں میڈیا کے غیرضروری جارحانہ رویے اور مبالغہ آمیز طریقہ کار کا بھی مرکزی کردار ہے۔ کراچی میں سانحہ عباس ٹائون ایک لرزہ خیز واردات تھی، جس نے ہر ایک کو دہلا کر رکھ دیا۔ اس واقعے کے بعض دیگر پہلو بھی سوشل میڈیا پر آئے، جنہیں میڈیا نے نظرانداز کیا۔ مثلاً یہ بات بہت جگہ پر لکھی گئی کہ وہ بم دھماکہ عباس ٹائون میں نہیں، اس سے فاصلے پر ہوا، مگر دانستہ اسے سانحہ عباس ٹائون کا نام دیا گیا تاکہ ایک خاص تاثر دیا جائے، مرنے والوں میں بائیس افراد کا تعلق اہلِ سنت سے تھا۔ کراچی کے بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ بم دھماکہ کسی فرقہ وارانہ جنگ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو نشانہ بنایا گیا، جو ایک لسانی تنظیم کے لیے بھی کام کرتا رہا۔ اسی وجہ سے بم دھماکہ کے لیے بارود نسبتاً کم مقدار استعمال کی گئی، بدقسمتی سے گیس پائپ پھٹ جانے سے لیکیج ہوئی اور نقصان زیادہ ہو گیا۔ مجھے نہیںمعلوم کہ ان باتوں میں کس قدر صداقت ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بارے میں درست معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ کسی بھی سانحے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے تمام آپشنز پر بات ہونی چاہیے تاکہ ناظرین کے سامنے پوری تصویر بن سکے، صرف ان پہلوئوں کو نمایاں کرنا‘ جن سے سنسنی پھیلے اور فرقہ وارانہ یا لسانی تفریق کا تاثر ابھرے، درست رویہ نہیں۔ ہماری انٹیلی جنشیا اور میڈیا کو مایوسی میں اضافہ کرنے کے بجائے گمبھیر مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ پریشانی میں پوری قوم کو مورد الزام ٹھہرانا، اپنے آپ کو ہر وقت مطعون کرتے رہنا بیمار ذہنیت کی علامت ہے۔ یہ درست کہ یہ وقت بڑا کٹھن ہے، مگر تدبر سے کام لینا ہو گا، یہ وقت گزر جائے گا۔ رات کے اندھیرے ہی سے سحر نمودار ہوتی ہے۔ انشااللہ وہ اچھا وقت زیادہ دور نہیں، صرف صبروتحمل اور استقامت سے مشکل لمحے گزارنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں