رنگ بدلتے کابل میں چند روز

دو سال پہلے کابل جانے کا اتفاق ہوا تو چند روز کے قیام کے دوران مجھے یوں لگا جیسے یہ شہر کئی روپ رکھتا ہے۔ پہلے دن کابل کو دیکھ کر مایوسی ہوئی، گرد اڑاتی سڑکیں، بے ہنگم ٹریفک۔ ایئرپورٹ سے نکلے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ راستے میں دائیں بائیں کچے مکانوں والی آبادیاں سی موجود ہیں۔ ہمارے ہاں ایئرپورٹ عموماً پوش علاقوں میں ہیں، جہاں سے نکلتے ہی شاندار وسیع و عریض سڑکوں اور دلکش پھولوں سے مرصع گرین بیلٹس نظر آتی ہیں۔ کابل اس کے برعکس لگا۔ بعد میں جب شہر گھومنے کا موقع ملا تو تاثر قدرے بہتر ہوا۔ باغِِ بابر جا کر البتہ مایوسی ہوئی کہ اس کا خاصا شہرہ سنا تھا۔ یہ ایک کشادہ باغ ہے، سنا ہے بہار میں یہاں اگنے والے پھول دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ایسا ہوتا ہو گا مگر خزاں کا زمانہ تھا اور اس کی بدصورتی بھی دیدنی تھی۔ بابر کی قبر اس کی وصیت کے مطابق اس کے مرنے کے کافی عرصے بعد میں یہاں منتقل کی گئی۔ مرحوم کی روح کو یقیناً اس فیصلے پر شدید پچھتاوا ہو رہا ہو گا۔ چُھٹی کا دن ہونے کے باوجود ایک بھی بندہ وہاں فاتحہ خوانی کے لیے موجود نہ تھا۔ بابر اگر ہندوستان میں دفن ہوتے تو ممکن ہے دو چار فاتحہ خواں روزانہ مل ہی جاتے۔ دو تین گھنٹے ہم وہاں رہے، میرے علاوہ کسی نے فاتحہ پڑھنے کی زحمت نہ کی۔ دو چار ہمارے جیسے غیرملکی آئے بھی تو انہوں نے بیزاری سے قبر کی ایک آدھ تصویر کھینچی اور چلتے بنے۔ خیر اگلے روز بارش ہوئی تو کابل شہرکا حسن قدرے نمایاں ہوا۔ دھلی دھلی سڑکیں اچھی لگیں۔ وہاں قیام کے آخری روز صبح سو کر اٹھا اورکھڑکی کا پردہ ہٹایا تو مبہوت ہو کر رہ گیا۔ رات کے آخری پہر برف پڑنا شروع ہوئی اور اب ہر طرف دلکش سفید چادر سی بچھی تھی۔ کھڑکی کے سامنے ایک ٹُنڈمنڈ درخت تھا، اب اس کی شاخوں پر برف کے گالے سجے تھے۔ کابل کا وہ منظر ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا۔ اس دن اندازہ ہوا کہ کابل کے دامن میں ایسے سحرانگیز لمحے موجود ہیں جو بندے کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں اور وہ بار بار وہ منظر دیکھنے کا خواہاں رہتا ہے۔ دو سال کے وقفے سے پچھلے ہفتے ایک بار پھر کابل جانا ہوا۔ اس بار بھی ایجنڈا پاک افغان میڈیا کانفرنس ہی تھا۔ اسلام آباد میں قائم ریسرچ کا ایک ادارہ ہے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (PIPS)۔ اسے سینئر صحافی عامر رانا چلاتے ہیں۔ اس ادارے کے اور افغان میڈیا گروپ ’’کلید‘‘ کے تعاون سے پاک افغان جرنلسٹوں کے باہمی رابطے کے لیے یہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ اپنے چار پانچ روز کے قیام کے دوران میں نے محسوس کیا کہ کابل شہر اپنی ظاہری صورت کی طرح سیاسی اور حکومتی سطح پر بھی کئی چہروں کا مالک ہے۔ کابل کے کئی سٹیک ہولڈر اور فریق ہیں، ہر ایک کے پاس مستقبل کے کابل کا دوسروں سے مختلف چہرہ اور منظرنامہ ہے۔ جہاں جائو، ایک نئی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کابل کی اصل شکل و صورت ان مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر ہی بن پائے گی، مگراس پر اگلی نشست میں تفصیل سے بات کروں گا۔ اس بار شہر گھومنے کا زیادہ موقع تو نہ مل سکا کہ ہمارا شیڈول خوفناک حد تک سخت تھا، مگر فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے اہم لوگوں سے ملنے کا موقع مل گیا۔ افغان صحافیوں کے علاوہ نیٹو کے سویلین ترجمان کی تفصیلی بریفنگ سنی، جس میں سوال جواب کا بڑا تیکھا سیشن بھی شامل تھا۔ آخری روز صبح ڈاکٹر اشرف غنی سے ملے جو آج کل افغان ٹرانزیشن کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اشرف سابق وزیر خزانہ اور سابق صدارتی امیدوار بھی رہے ہیں۔ تیز چبھتی آنکھوں والے گرم سرد چشیدہ اشرف غنی سے گفتگو دلچسپ رہی۔ موصوف نے ہمارے آنے سے پہلے انٹرنیٹ سے پاکستان کے تازہ ترین معاشی اعدادوشمار اور کراچی میں امن وامان کی صورتحال پر رپورٹس کے پرنٹ لے رکھے تھے۔ ان اعدادوشمار کو انہوں نے طنزیہ جملوں سے مرصع کر کے اپنی گفتگو میں جا بجا استعمال کیا۔ ہائی پیس جرگہ یا کونسل ایک اہم پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے افغان حکومت اور طالبان گروپوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہائی پیس کونسل کے سیکرٹری معصوم ستانک زئی سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ستانک زئی سابق کمیونی کیشن وزیر ہیں۔ وہ استاد بُرہان الدین ربانی کے دست راست تھے۔ جس خود کش حملے میں ربانی صاحب ہلاک ہوئے، اس میں ستانک زئی بھی زخمی ہوئے۔ افغانستان میں اپوزیشن کے دو اہم سیاسی اتحاد بن چکے ہیں۔ ایک کے سربراہ سابق وزیر خارجہ اور صدر کرزئی کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے والے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہیں۔ انہوں نے اپنی مصروفیت کے باوجود ہمیں خاصا وقت دیا۔ ڈاکٹر عبداللہ کے بارے میں ہمارے ہاں عام تاثر ہے کہ وہ پاکستان کے شدید مخالف ہیں مگر ان سے ملاقات ایک دلچسپ تجربہ رہی۔ ان کے بارے میں ہمارا تاثر خاصا تبدیل ہوا۔ اس پر بعد میں بات کریں گے۔ افغان اپوزیشن کا سب سے بڑا اور اہم گروپ افغان نیشنل فرنٹ ہے، جس کے سربراہ اساطیری گوریلا لیڈر احمد شاہ مسعودکے بھائی احمد ضیا مسعود ہیں۔ احمد ضیا مسعود سے ملاقات بظاہر بہت مشکل نظر آ رہی تھی مگر پاکستانی سفارت خانے کی کوششوں سے ہمیں وقت مل گیا اور گھنٹہ ڈیڑھ تک ان سے گفتگو رہی۔ افغانستان میں ہر محفل میں ہمیں مولانا طاہر اشرفی کا ذکر ضرور سننے کو ملا۔ دراصل چند روز قبل ایک مشہور افغان چینل طلوع (TOLO) پر طاہر اشرفی کا ایک بیان چلا کہ افغانستان میں خود کش حملے جائز ہیں۔ اشرفی صاحب نے اپنے ٹوئیٹر اکائونٹ کے ذریعے اس کی فوری تردید کی، بعد میں باضابطہ طور پر بھی تردید کرتے رہے کہ میں نے اس قسم کا کوئی بیان نہیں دیا۔ اس وضاحت کے باوجود افغانستان میں یہ بیان ایک بم دھماکے کی طرح پھیلا۔ اس پر صدر کرزئی سمیت افغان دفتر خارجہ اور متعدد اہم شخصیات نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ عوامی مظاہرے بھی ہوئے۔ ہمیں ہر ایک نے کہا کہ آپ کے علما کونسل کے سربراہ اشرفی صاحب نے خودکش حملوں کی حمایت میں بیان دیا ہے … وغیرہ وغیرہ۔ انہیں بتایا گیا کہ اول تو وہ تمام پاکستانی علماء کے نمائندے نہیں، دوسرا وہ مسلسل اس بیان کی تردید کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہماری اس وضاحت کو طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ سنا گیا، جیسے افغان کہہ رہے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے اصل حقیقت…۔ اسی طرح جنرل (ر) درانی اور جنرل (ر) حمید گل کے مختلف بیانات کے طنزیہ حوالے ہمیں جگہ جگہ سننے کو ملے۔ اپنے قیام کی آخری رات ایک افغان صحافی کے گھر مدعو تھے، انہوں نے پندرہ سولہ نوجوان افغان پروفیشنلز بلا رکھے تھے۔ مختلف شعبوں میں سرگرم بلکہ اہم عہدوں پر فائز ان نوجوانوں سے گفتگو ایک منفرد تجربہ رہا۔ پچیس سے تیس بتیس سال تک کی عمر کے یہ نوجوان پچھلے دس بارہ برسوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ابھرے اور تیزی سے افغان قومی منظرنامے پر جگہ بنائی۔ ایک افغان نیوز چینل کے ڈائریکٹر نے برملا اعتراف کیا: ’’ ہمارے ہاں ہر وقت، ہر روز پاکستان کے حوالے سے گفتگو اور بحث و تمحیص ہوتی رہتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم لوگ پاکستان گئے ہیں نہ ہی پاکستانی صحافی اور دانشور یہاں آ سکے کہ ان کا موقف براہ راست سنا جا سکے، ان سے مکالمہ ہو سکے۔‘‘ پاکستان کے بارے میں مخصوص یکطرفہ تصورات سے لبریز یہ نوجوان اپنے ذہنوں میں بے پناہ سوالات لئے ہوئے تھے، کچھ کے جواب ہم دے پائے، بعض تشنہ رہ گئے مگر یہ احساس ضرور ہوا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں جانب ایک دوسرے کے لیے بہت سے غلط اور بے بنیاد تصورات موجود ہیں۔ گفتگو کا ایک بھرپور سیشن ہی جنہیں چکنا چور کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں