تحریک انصاف کو نیا پلان بنانا ہوگا

سیاسی بساط پر تیزی سے چالیں چلی جا رہی ہیں۔ واقعات کی رفتار اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ایک دو دنوں میں ہی لکھنے کے موضوعات بدل جاتے ہیں۔ارادہ تھا کہ افغانستان کے سفر کے حوالے سے کچھ اور لکھا جائے ،مگر قومی سیاست کی گرمی نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ تحریک انصاف کے تیئس مارچ کے جلسے کے حوالے سے بہت لکھا جا چکا اور اس پر بات ہوتی رہے گی کیونکہ پاکستانی سیاست پر اس نے نمایاں اثر مرتب کیا ہے۔سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے نوجوان متحرک ہیں۔ انہوں نے مینار پاکستان کے جلسہ کی کامیابی پر مسرور ہو کر فوٹیج اورکمنٹس دل کھول کر شئیر کیے۔ یہ بات انہیں بھولنی نہیں چاہیے کہ ان کی جماعت نے ایک معرکہ ضرور سر کیا مگر دوڑ مختصر نہیں۔ ابھی کئی رکاوٹیں انہیں عبور کرنا ہوں گی، بیرئر سے ٹکرائے اور رفتار کم کیے بغیر۔ عمران خان کے جلسے کے حوالے سے بعض تجزیہ کاروں نے دلچسپ تبصرے کیے ۔ ایک بات بڑے زور شور سے کہی گئی کہ کامیاب جلسہ کرنا کوئی اہم بات نہیں۔ ایک صاحب نے بڑی محنت سے اعداد وشمار جمع کیے جن میں لاہور کے کل ووٹروں کی تعداد اور جمع تفریق کرنے کے بعد یہ اطلاع پہنچائی کہ اگر جلسے میں ڈیڑھ دو لاکھ افراد بھی جمع ہو جائیں تو یہ کوئی خاص کامیابی نہیں ہوگی۔ (غالباً اپنا )دل بہلانے کے لیے یہ بھی فرمایا گیا کہ مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی بھی لاہور میں تحریک انصاف سے بڑے جلسے کر چکی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کا تیئس مارچ کا جلسہ ان کے تیس اکتوبر 2011ء کے جلسے سے کم از کم دوگنا بڑا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کو اگرچہ اپنے مسلکی مدارس کی سپورٹ حاصل ہے مگر وہ لاہور میں بیس پچیس ہزار سے زیادہ کا جلسہ کبھی نہیں کرسکے۔ جماعت اسلامی لاہور میں زیادہ منظم ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جماعت بھی مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا چیلنج قبول نہیں کر سکتی۔ پچھلی بار انہوں نے فیروز پور روڈ پر ریلی نکالنے کو ترجیح دی تھی۔ اگرچہ وہ بھی بڑی ریلی تھی مگر ریلی کسی طور جلسے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پیپلز پارٹی بے چاری تو دو چار ہزار بھی ابھی تک جمع نہیں کر سکی۔ پارٹی کا اپنا مخصوص ووٹ بینک ضرور ہے مگر ہر انتخاب میں یہ سکڑتا جا رہا ہے۔مسلم لیگ ن ابھی تک لاہور کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے ۔ دو تین عشروں سے لاہور اس کا گڑھ چلا آ رہا ہے۔ مسلم لیگی کارکنوں کا مضبوط نیٹ ورک بھی موجود ہے، جسے اچھی طرح اندازہ ہے کہ انتخاب کس طرح جیتا جاسکتاہے۔ اس کے باوجود مینار پاکستان پر جلسے کا چیلنج وہ ابھی تک قبول نہیں کر سکی۔یہ حقیقت اب سب کو مان لینی چاہیے کہ تحریک انصاف پنجاب کے شہری علاقوں خصوصاً لاہور کی اہم سیاسی قوت بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنا ہوگاکہ کسی شہر میں بڑا جلسہ کرنا ایک بات ہے اوروہاں سے نشستیں جتینا ایک الگ ایشو ہے۔ کسی بھی جماعت کا بڑا جلسہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ ایک قوت ہے،اسے سنجیدگی سے لیا جائے ۔ سیٹ جیتنے کے لیے اور بھی بہت سے عوامل اہم ہیں۔ ہر حلقے کے معروضی حالات، برادریوں کا تناسب، مقامی سطح پر کارکنوں کا نیٹ ورک،منظم انتخابی مہم ،کمٹیڈ پولنگ ایجنٹ، ووٹروں کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک پہنچانا، مخالف امیدوار کے حربوں کو ناکام بنانا، دھاندلی کے امکان کو کم سے کم رکھنا او ر پھر کہیں جا کر اسمبلی میں نمائندگی ممکن ہوسکتی ہے۔ روایتی طرز کے انتخاب میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو تحریک انصاف کے پرجوش مگر اناڑی نوجوان شکست نہیں دے سکتے۔ الیکشن جیتنے کے لیے انہیں عام ڈگر سے ہٹ کر بہت کچھ کرنا ہوگا۔ عمران خان نے دو بڑی غلطیاں کیں جن کا خمیازہ اس وقت ان کی جماعت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ تیس اکتوبر کے جلسے کے بعد ان کی جماعت پر انتخاب جیتنے کے قابل سیاستدانوں نے یلغار کر دی۔ روایتی سیاست کرنے والے ان لوگوں پر وہ الزامات تھے جو ہماری سیاست کا عام شعار ہے۔ یہ لوگ مختلف جماعتیں بدلتے رہے، کچھ جنرل مشرف کے ساتھی رہے، بعض پر مالی اور اخلاقی بدعنوانی کے الزامات تھے۔ تحریک انصاف کے قیادت کو ان قابل انتخاب امیدواروں کی اہمیت کا اندازہ تھا، اس لیے وہ انہیں انکار نہیں کر سکی مگر پارٹی کے نوجوان کارکنوں اور ووٹروں کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا۔ مسلم لیگ ن کی میڈیا میں حامی لابی نے اس موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ عمران پر اس قدر تابڑتوڑ حملے ہوئے کہ وہ بوکھلا گیا۔ طاقتور امیدواروں کو وہ کھل کر اپنا سکا نہ ان سے دور رہ سکا، سب سے بڑھ کر وہ میڈیا میں موثر طریقے سے دفاع کرنے میںبھی ناکام رہا۔ اس نے پارٹی میں انتخابات کرانے کی ٹھانی کہ اس کی دانست میں اس طرح پارٹی میں گروہ بندی ختم ہوجائے گی اور خودبخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کون سا گروپ کس شہر میںتحریک انصاف کی قیادت کرے۔ عمران خان کو سیاسی حرکیات کا ادراک رکھنے والے ہر شخص نے سمجھایا کہ یہ وقت ایڈونچر کا نہیں لیکن وہ اُنہیں قائل کرنے میں ناکام رہے۔ یوں 2012ء کا پورا سال جو تحریک انصاف کو گراس روٹ لیول تک متحرک کرنے، چھوٹے چھوٹے جلسوں کے ذریعے ہر اہم حلقے میں اثرورسوخ بڑھانے اور سیاسی گروپنگ میں صرف ہونا چاہیے تھا، وہ تحریک انصاف کے اندرونی جھگڑوں اور تنازعات میں بیت گیا۔ اب اگرچہ تحریک انصاف کی تنظیمی شکل و صورت بن گئی ہے مگر انتخابات بھی سر پر آچکے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے پاس الیکشن میں اچھا پرفارم کرنے کا ایک ہی طریقہ بچا ہے۔ انہیں اپنے رضاکاروں کی تنظیم کو تیزی سے متحرک کرنا ہوگا۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے۔ انہیں مختلف حلقوں میں ذمہ داریاں تفویض کرنا ہوں گی۔ سادہ سا اصول طے کیا جائے کہ ایک نوجوان پانچ افراد کو ووٹ کے لیے قائل کرے جو آگے مزید پانچ کو قائل کریں۔ان کی جیت زیادہ ٹرن آئوٹ کی صورت ہی میں یقینی ہوسکے گی۔ روایتی طور پر جو لوگ الیکشن ڈے پر باہرنکلتے ہیں، ان میں تحریک انصاف کا ایک مخصوص ووٹ بینک ہی ہوسکتا ہے۔ ان کی اصل قوت وہ پڑھے لکھے نوجوان ، خواتین اور دیگر لوگ ہیں جو سیاست سے بیزار ہو کر ووٹ ڈالنے جاتے ہی نہیں۔ پندرہ بیس فیصد کے قریب لوگ پچھلے دس پندرہ برسوں میں سیاسی عمل سے باہر ہوچکے ہیں۔ انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے قائل کرنا اور الیکشن ڈے کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچانا ہی اصل کام ہے۔ اس کے بغیر تحریک انصاف بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتی، دو چار حلقوں میں اس کے نسبتاً مضبوط امیدوار البتہ پرفارم کریں گے ،مگر ان سے بات نہیں بنے گی۔ عمران خان کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اس کا اصل ووٹ بینک جن لوگوں پر مشتمل ہے وہ خاصے حساس بھی ہیں۔ میڈیا میں اگر تحریک انصاف کے خلاف منفی تاثر بنا تو ان کے ووٹر گھروں میں بیٹھ جائیں گے۔ عمران خان کے تھنک ٹینک کو(اگراس نام کی کسی چیز کا ان کے پاس موجود ہے) موثر میڈیا پالیسی بنانی ہوگی،اپنے مخالفین خصوصاً ن لیگ کے حملوں کا بروقت تدارک کرنا پڑے گا۔ انتخابات جیتنا کسی تاریخ ساز جلسے کے انعقاد سے کئی گنا زیادہ مشکل کام ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس نقطے کا ادراک کر لیا تو شا ئد گیارہ مئی کو نئی تاریخ رقم ہوجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں