نئے انتخابی ٹرینڈز

جمعرات کی شام ایک کھانے پر چند دوست اکٹھے تھے۔ عام رواج کے مطابق گپ شپ شروع ہوئی تو موضوع سخن سیاسی صورتحال بن گیا۔ ہر ایک نے اپنے اپنے زاویہ نظر کے مطابق تبصرے کئے۔ ایک دوست نے دلچسپ نکتہ اٹھایا۔ کہنے لگے: ’’صدر زرداری کو ایک کریڈٹ تو دینا چاہیے کہ اس بار انتخابات میں کسی قسم کے سیاسی اتحاد نہیں بن سکے، ہر جگہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو رہی ہے۔ دوسرا کریڈٹ جماعت اسلامی کو جاتا ہے کہ اس نے اس بار رائٹ لیفٹ کا روایتی ایشو نہیں بنایا اور رائٹسٹ بنیاد پر اتحاد نہیں بنایا۔ ‘‘اس پر کچھ دیر بات ہوتی رہی ،پھر جیسا ہوتا ہے ، موضوع کسی اور جانب گھوم گیا۔ میں اس نقطے پر غور کرتا رہا۔ واقعی آئندہ انتخابات کے حوالے سے بعض دلچسپ نئے ٹرینڈز سامنے آئے ہیں۔ یہ حقیقت تو سب کے سامنے ہے کہ اس بار کوئی بڑا سیاسی اتحاد نہیں بن سکا، اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ مگر کوئی ایک شخصیت نہیں لے سکتی، اس میں تمام سیاسی جماعتوں کا حصّہ ہے۔ اس بار اتحاد نہیں بنے تو اس کے اسباب کئی ہیں۔ سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے پچھلے پانچ برسوں میں عوام کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ ان کی کارکردگی اس قدر خوفناک رہی کہ ہر ایک ناکامی کا بوجھ کسی دوسرے پر ڈالنا چاہتا ہے۔ پیپلزپارٹی اور ان کی اتحادی جماعتوں کو فطری طور پر اکٹھے الیکشن لڑنا چاہیے تھا کہ پانچ سال وہ اکٹھے حکومت کرتے رہے ۔ پیپلز پارٹی ، ایم کیوایم اور اے این پی کو مل کر الیکشن لڑنا اور اپنی پرفارمنس کی بنیاد پر ووٹ مانگنے چاہئیں۔ ایسا وہ نہیں کر رہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ووٹر ان تینوں کو یکجا دیکھ کر باقاعدہ مشتعل ہوجائیں گے۔ ایم کیوایم نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیپلز پارٹی کے ساتھ فاصلہ پیدا کیا، عجیب وغریب بچگانہ سا جھگڑا کرنے کے بعد علیحدہ ہوئے ،مگراس لڑائی کے باوجود اپنے گورنر کو الگ نہیں کیا۔ اس قسم کی لڑائیاں فلموں میں تو ممکن ہیں، عملی زندگی میں انہیں کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔ ادھر پیپلز پارٹی نے پہلے سے طے شدہ بلدیاتی آرڈی ننس کو واپس لیا اور اندرون سندھ اور کراچی حیدرآباد کے لئے پرانا بلدیاتی نظام نافذ کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی مجبوری یہ تھی کہ اندرون سندھ اپوزیشن نے اسے اہم سیاسی ایشو بنا دیا تھا ۔ صدر زرداری نے اس طرح دیہی سندھ میں اپنی پوزیشن بہتر کر لی۔ انتخاب اگر وہ جیت گئے تو پھر سے کراچی حیدرآباد کے لئے الگ اور اندرون سندھ کے لئے الگ بلدیاتی نظام بنا دیں تو عجب نہیں ہوگا، اس طرح کے یوٹرن ان کی سیاسی پہچان بن چکے ہیں۔ اے این پی نے بھی پختون خوا میں باقاعدہ اتحاد بنانے کے بجائے اپنے نشان پر الیکشن لڑنے کو ترجیح دی۔ ان کے پاس بیچنے کو کوئی اور سودا نہیں، طالبان کے خلاف تقریریں کر کے گزارا کر رہے ہیں۔ اس بار نوے کی دہائی کی طرح کوئی رائٹسٹ الائنس نہیں بن پایا۔ ایک زمانے میں مسلم لیگ کی کوشش ہوتی تھی کہ اینٹی بھٹو ووٹ کو اکٹھا کیا جائے اور پیپلزپارٹی کو لبرل سیکولر جماعت قرار دے کر مذہبی اور رائٹ آف دی سنٹر ووٹروں کو اپنی طرف کھینچا جائے ۔ اس بار مسلم لیگ ن اور ان کے میڈیا ونگ کے لکھاریوں نے اخباری کالموں میں یہ شور تو مچایا کہ تحریک انصاف کی وجہ سے کہیں اینٹی بھٹو ووٹ تقسیم نہ ہوجائے اور پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں نہ آجائے؛ تاہم رائٹ کے روایتی موقف کو اپناتے ہوئے کوئی بڑا اتحاد بنانے سے ن لیگ گریزاں رہی۔ اس کی دو تین وجوہات ہیں۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری سیاست سے نظریہ تقریباً ختم ہو گیا ہے ۔ نظریاتی بنیاد پر سیاست اب نہیں ہورہی ، کہیں کہیں اس کا تاثر دینے کی کوشش کی بھی جائے تو اس کا مصنوعی پن فوراً پہچانا جاتا ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتوں میں نظریاتی اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ دونوں ہی کیپٹیل ازم کی پرچارک اور کنزیومرازم کی حامی ہیں۔ اکانومی ہویا خارجہ پالیسی ،دونوں کی کم وبیش تمام پالیسیاں یکساں ہیں۔ ایک زمانے میں پیپلز پارٹی بھارت سے تعلقات کی زبردست حامی اور مسلم لیگ ن مخالف تھی۔ اب ن لیگ پیپلز پارٹی سے بڑھ کر بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کے حق میں ہے۔ ہمارے ہاں پچھلے چار پانچ انتخابات پرو پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی کی بنیاد پر لڑے گئے۔ اس بار ایسا نہیں ہو رہا۔بڑی وجہ پیپلز پارٹی سے بھٹو خاندان کا نکلنا بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے روایتی ووٹ بینک کا کچھ یا زیادہ حصہ ممکن ہے اپنی روایت کے مطابق پی پی پی کو ووٹ ڈال دے ،مگر اس کے مخالف اب اینٹی زرداری بنیاد پر ووٹ مانگیں گے۔ ووٹروں کو یہ کہہ کر ڈرایا جائے گا کہ اگر ہمیں نہ جتوایا گیا تو پھر زرداری حکومت کے پانچ سال بھگتنے پڑیں گے۔ تحریک انصاف اس کے برعکس ووٹروں کو زرداری اور شریف خاندان دونوں سے ڈرا کر ووٹ لینے کی کوشش کرے گی۔ اس بار سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا ٹرینڈ ہے۔ ہر پارٹی کسی نہ کسی دوسری پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے۔ اس کے تین بڑے نقصانات ہیں۔ ایک تو بڑے سیاسی اتحاد کی صورت میں قومی سطح کی پالیسی بنائی اور اس پر لوگوں سے ووٹ لئے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے ووٹروں سے کچھ وعدے کئے ہیں جو پورے نہ کرنے پرعوامی جواب دہی ہوگی ۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں قومی سیاسی ایجنڈا رہتا ہی نہیں۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے والی جماعتوں پر یہ پابندی نہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں جا کر ایک دوسرے کا ساتھ دیں گی۔ یوں یہ خالصتاً مفاد اور منافقت پر مبنی سیاست بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر پختون خوا میں مولوی فضل الرحمن صاحب اور ن لیگ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی توجن جن حلقوں سے جے یوآئی کے امیدوار مسلم لیگی ووٹ بینک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کامیاب ہوں گے، پارلیمنٹ میں جا کر وہ اس مسلم لیگی ووٹ کے پابند نہیں رہیں گے۔ وہاں جا کر ممکن ہے وہ سیاسی مفادات کی بنا پر پیپلز پارٹی یا اے این پی سے مل جائیں‘ ایسی جماعتوں سے جنہیں مسلم لیگی ووٹر سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ارکان اسمبلی اپنے مسلم لیگی ووٹروں کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوں گے۔ یہی صورتحال مسلم لیگی امیدواروں کے ساتھ بھی پیش آ سکتی ہے۔ سیاسی اتحاد کی صورت میں ان سب پر قانونی پابندی عائد ہوجاتی اور وہ فلور کراسنگ نہیں کرسکتے۔ اس بار بعض جماعتوں نے یہ بھی کوشش کی کہ ایک صوبے میں ایک پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی جائے اور دوسرے صوبے میں کسی اور پارٹی سے۔ اس سے زیادہ منافقت ممکن ہی نہیں۔سیاسی اتحاد بنانا بہتر آپشن تھی مگراس کا وقت گزر گیا۔ اب کم ازکم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے والی جماعتوں کے قائدین مل کر ایک مشترکہ منشور کا اعلان تو کریں۔ اپنے ووٹروں سے اہم قومی ایشوز پر کمٹمنٹ ضرور کریں کہ پارلیمنٹ میں جانے کے بعد بھی ان معاملات میں ہم اکٹھے ہی رہیں گے ،علیحدگی اختیار نہیں کریں گے۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے حکمت عملی بنانا سیاسی جماعتوں کا حق ہے، مگر چند نشستوں کی خاطر اخلاقیات دائو پر نہیں لگانی چاہیے۔ بدقسمتی سے یہ وہ نقطہ ہے جو نئے انتخابی ٹرینڈز میں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں