آرٹیکل62,63: بحث یکطرفہ نہیں ہونی چاہیے

موضوع کی جانب بڑھنے سے پہلے دو ای میلز کا ذکر کرنا چاہوں گا جن میںآئین کے آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ پر ملک میں جاری بحث کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر کا اظہار کیا گیا۔ان میں سے ایک تجزیہ نگار اور سکالر ڈاکٹر عاصم نے بھیجی ۔ ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں:’’ کسی بھی ایشو پر مباحثہ خوش آئند ہوتا ہے ،مگرہمارے میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلزنے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پرجس یک طرفہ انداز سے بحث کی ہے، اسے دیکھ کر افسوس ہوا۔ میڈیا نے غیر جانبداری اور معروضیت کی دھجیاں اڑا دیں۔ریٹرننگ آفیسرز کے سوالات کے حوالے سے ایک طوفان اٹھایا گیا، حالانکہ چوبیس ہزار سے زیادہ کاغذات نامزدگی منظور ہوئے ہیں، ان میں زیادہ سے زیادہ چند سو افراد سے دعائے قنوت اور چوتھا یا پانچواں کلمہ پوچھا گیا، مگر میڈیا میں تاثر یوں ملا کہ جیسے ہر امیدوار سے یہی سوالات کئے جا رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں یہ امپریشن بھی دینے کی کوشش کی گئی جیسے کئی امیدواروں کو چوتھا یا پانچواں کلمہ نہ سنانے پر نااہل قرار دیا گیا۔ یہ بات بالکل غلط ہے، ایک بھی امیدوار کو اس بنیاد پر نااہل نہیں کیا گیا۔ ویسے بھی اسلام میں کلمہ ایک ہی ہے۔ جو لوگ نااہل ہوئے ،ان میں تقریباً تمام بینک ڈیفالٹر ہونے ، یوٹیلٹی بلز نہ دینے یا ٹیکس معاملات میں گڑبڑ کی بنیاد پر پکڑے گئے۔ ایک معروف سیاستدان کو جو کالم بھی لکھتے ہیں، انہیں ریٹرننگ افیسر نے نااہل قرار دیا ،مگر اس کا سبب بھی نظریہ پاکستان کے خلاف لکھے ان کے کالم نہیں تھے، جیسا کہ موصوف نے ٹی وی چینلز پر دعویٰ کیا، درحقیقت انہیں ان کالموں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا،جن میں انہوں نے ترنگ میں آکر’’دخت رز‘‘سے اپنی محبت کا اعتراف کیا اورشعرانہ استعارے کے بجائے خاصا کھل کر اظہار خیال کیا۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ نجی محفل میں گفتگو اور بات ہے اور اخبار میں ہزاروں لاکھوں قارئین کے لئے لکھی جانے والی تحریر میں بہت سی نزاکتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں طبقہ اشرافیہ خصوصاً اور دوسرے طبقات میں بھی بہت سے لوگ وہ کام کرتے ہیں، جو قانوناً منع ہیں، مگر اس کا یوں اعتراف کوئی نہیں کرتا۔اصولاً تو میڈیا میں بحث کرتے ہوئے ان کالموں کے اقتباسات بھی پیش کئے جاتے تاکہ قارئین یا ناظرین کو خود فیصلہ کرنے کا موقعہ ملتا،مگر ایسا نہیں ہوا۔یکطرفہ بحث کا یہ عالم رہا کہ کئی ٹاک شوز میں چار مہمان بلائے گئے تو تین ایک ہی خاص قسم کی الٹرا سیکولر لابی کی نمائندگی کر رہے تھے، میزبان بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور یوں چار کا مقابلہ روایتی دائیں بازو کے ایک فرد کوکرنا پڑا، نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں دائیں بازو یا رائیٹ ونگ کے لوگ شکست کھا کر پسپا ہوچکے ہیں اور اب ان کی آواز نہیں سنی جا رہی۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت فکری طور پر اسی رائیٹ ونگ سے تعلق رکھتی ہے، جب اس کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ ہوگا تو عوامی ردعمل ہونا فطری ہے۔ ہر طرف سے مسائل اور الجھنوں میں گھرا پاکستان اس وقت کسی نئے فکری گرداب کا متحمل نہیں ہوسکتا، بہتر یہی ہوگا کہ میڈیا میں رائیٹ ونگ کی آواز کو بلڈوز کرنے کے بجائے اسے اس کا مناسب شئیر دیا جائے۔‘‘ کراچی سے ایک نوجوان نے ای میل بھیجی ، وہ لکھتے ہیں،’’ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ا ن کا خالق جنرل ضیاء الحق ہے، یہ بات درست نہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم میں اہم کردار ادا کرنے والے پروفیسر خورشید احمد یہ بات کھل کر لکھ چکے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم نے آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ اور تریسٹھ اے کو یکسر تبدیل کر دیا،اس کی موجودہ شکل کا تعلق جنرل ضیاء الحق سے قطعی نہیں ،جو یہ کہتے ہیں وہ غلط ہے۔ باسٹھ ایف میں امیدوار کے لئے لفظ امین کا اضافہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے کیا گیا۔اسلام کی معقول معلومات کے حوالے سے شق پر بڑا شور مچایا گیا۔ حالانکہ معقول معلومات ایک قانونی اصطلاح ہے ،جو دنیا بھر میں استعمال ہوتی ہے۔ ایک بات جو لوگ نظر انداز کر رہے ہیں، وہ یہ کہ اگر امیدواروں سے روٹین کی اسلامی معلومات کے بارے میں پوچھا گیا تو اس میں کیا برائی ہے، آخر یہ لوگ قانون سازی کرنے پارلیمنٹ میں جا رہے ہیں اور پاکستان میں قانون سازی اسلام کے مطابق ہی ہوسکتی ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ لوگ اسلامی قانون سازی کرنے کے لئے ممبر بن رہے ہیں، اس لئے انہیں اسلام کے بارے میں ابتدائی قسم کا علم تو ہونا ہی چاہیے۔ اگر کسی کو ارکان اسلام تک کا علم نہیں ، جن کے بارے میں پہلی دوسری جماعت کی کتابوں میں مواد موجود ہے ،تو ان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘ یہ دو ای میلز اس لئے شامل کیں تاکہ ان کا نقطہ نظر قارئین کے سامنے آ جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ میڈیا پر باسٹھ تریسٹھ کے حوالے سے بحث بڑی حد تک یکطرفہ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا روایتی مذہبی حلقہ یا معروف معنوں میں رائیٹ ونگ‘ کارنر ہوچکا ہے، اس کا اثر ورسوخ اچھا خاصا کم ہوا اور تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں خصوصاً اس فکر اور سوچ سے بیزار نوجوانوں کا غلبہ ہوچکا۔ اس کی وجوہات کئی ہیں، جن پر تفصیلی بات ہونی چاہیے۔ رائیٹ ونگ کی شکست (یامفروضہ شکست) میں خود اس کا بہت زیادہ حصہ ہے۔نئے دور میں جدید اسلوب اختیار کئے بغیر بات نہیں بن سکتی، روایتی بیانئے کی اب گنجائش نہیں رہی، نیا Narrative دینا ہوگا۔ روایتی لیفٹ بھی اس حوالے سے ناکام ہوا، یہی حال روایتی رائیٹ کا ہو رہا ہے۔ سنٹر آف دی رائیٹ کا حلقہ بھی خاصا بدل چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کی سیاست اور سوچ کو دیکھ کر اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جماعت ہمارے ہاں پچھلے پچیس برسوں سے رائیٹ آف سنٹر ووٹ بینک کی وارث رہی ۔جہاں تک باسٹھ تریسٹھ کا تعلق ہے، مجھے ذاتی طور پر یوں محسوس ہوتارہا ،جیسے ہمارے بعض ریٹرننگ آفیسر ایک منظم منصوبے کے تحت ایسے سطحی نوعیت کے سوالات کر کے ایک خاص قسم کی فضا تیار کر رہے ہیں۔ ان سوالات کی چنداں ضرورت نہیں تھی، باسٹھ تریسٹھ کا آئین میں موجود ہونا ایک اہم فلٹریشن سکرین ہے، اس کے ذریعے اخلاقی اور مالی کرپشن کرنے والے اور بدنام زمانہ مگر اپنے روایتی حلقوں میں طاقتور حیثیت رکھنے والے افراد سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اس بار جو شور اٹھا ، اس سے تو رائے عامہ میں ان آئینی دفعات کا مذاق ہی بن گیا۔ ممکن ہے آئندہ انہیں استعمال ہی نہ کیا جا سکے یا انہیں آئین سے نکالنے کی مہم چلائی جائے۔ مجھے تشویش اس بات پر بھی ہے کہ جب دعائے قنوت اور چوتھا پانچواں کلمہ سنانے کی خبریں آئیں، ان پر ہماری مذہبی جماعتوں نے اپنا ردعمل کیوں نہیں دیا؟ انہیں اندازہ نہیں ہوا کہ اس سب کا مقصد کیا ہے اور آخر کار بات کہاں تک پہنچے گی؟ لگتا یوں ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرات ہی نہیں کہ وہ ان امور پردیانت داری سے اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ انہیں خدشہ رہتا ہے کہ کہیں روایتی دینی حلقے انہیں ہی مسترد نہ کر دیں ۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہماری دینی جماعتوں اور علماء کی تنظیموں نے کبھی اسلام کے حقیقی تصورات کو بیان کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، ہمیشہ لوگوں کو فروعی اور سطحی معاملات میں الجھائے رکھا۔ اس کے فطری نتائج آج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں