جسٹس صمدانی بھی چلے گئے

جسٹس کے ایم صمدانی سے پہلا تعارف کونسل آف نیشنل افئیرز کے فورم میں ہوا۔ وہ ہمارے اس تھنکرز فورم کے ممبر بن گئے تھے، یوں ہر ہفتے ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا۔ صمدانی صاحب کے بارے میں خاصا کچھ پڑھ سن رکھا تھا۔ متوسط قد کے دھان پان سے آدمی تھے مگر کمال کی جرات اور دلیری ان کے وجود ناتواں میں پوشیدہ تھی۔ میں نے ان سے تفصیلی انٹرویو کی درخواست کی، پہلے سوچتے رہے، پھر کہنے لگے: میں انٹرویو دیتا نہیں ہوتا، ایسا کون سا کام کیا ہے، جس کی تشہیر کی جائے، خیر آپ نے کہا ہے تو اتوار کے دن آ جائیے گا۔ اس دن لاہور میں دھواں دھار بارش ہوئی، صمدانی صاحب نہر کنارے ایک سوسائٹی میں مقیم تھے۔ چھٹی کا دن، اوپر سے گرمیوں کی موسلادھار بارش، میرا گھر نہر کے بالکل دوسرے کنارے پر تھا، پہلے سوچا جانے دیں، بعد میں معذرت کر لیں گے، پھر خیال آیا کہ پرانی وضع کے بزرگ ہیں، آئندہ وقت نہیں دیں گے۔ میں نے موسم کی پروا نہ کی اور عین وقت پر پہنچ گیا۔ ان سے طویل نشست رہی۔ بعد میں بھی کئی نشستیں ہوئیں۔ پھر ان کی طبعیت ناساز رہنے لگی، سی این اے کی میٹنگ میں آنا چھوڑ دیا۔ ان دنوں الطاف حسن قریشی صاحب کے ادارے پائنا کے اجلاسوں میں آ جاتے کہ ان کا دفتر صمدانی صاحب کے گھر کے قریب ہی تھا۔ پھر وہاںآنا بھی چھوڑ دیا۔ فون پر کبھی کبھار بات ہو جاتی۔ جمعرات کی شام گھر پہنچا تو ایک دوست کا فون آیا، وہ بی بی سی میں کام کرتے ہیں، انہوں نے خبر سنائی کہ جسٹس کے ایم صمدانی کا انتقال ہو گیا ہے۔ صمدانی صاحب کا پیکر استقامت، ان کا مسکراتا چہرہ اور گونج دار آواز ذہن میں گھوم گئی۔ کمال کے آدمی تھے، افسوس کہ ہمارے معاشرے سے ایک ایک کر کے جوہر نایاب رخصت ہو رہے ہیں۔ صمدانی صاحب حیدر آباد دکن میں پلے بڑھے، سکول اور کالج کی تعلیم وہاں سے حاصل کی، 1950ء میں پاکستان آئے اور گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجوایشن کی، خواجہ مسعود کے شاگردوں میں تھے اور اپنے استاد کے بڑے معترف تھے۔ سی ایس پی کر کے مجسٹریٹ بنے اور پھر بعد میں عدلیہ کی جانب آ گئے، سیشن جج رہے اور پھر بطور جج ہائیکورٹ بیس سال تک کام کرتے رہے، حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کا سیاہ پی سی او آیا، ججوں کو خلاف آئین حلف لینے پر مجبور کیا گیا، چند ایک دوسرے ججوںکے ساتھ صمدانی صاحب نے بھی حلف لینے سے انکار کر دیا، یوں انہیں اپنی مدت ملازمت سے گیارہ بارہ برس پہلے ہی ریٹائر ہونا پڑا۔ دوسری صورت میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے عہدے تک جا سکتے تھے۔ بطور جج انہوں نے اپنی جرات کی کئی ایسی مثالیں قائم کیں جن کو سنہرے لفظوں میں لکھنا چاہیے۔ وہ ہزارہ میں سیشن جج تھے، ایک کیس کی سماعت کے دوران ایک خاتون آئی، اس نے ایک بند لفافہ صمدانی صاحب کی طرف بڑھایا اور کہا کہ یہ صدر ایوب خان کی والدہ کا خط ہے، جو انہوں نے آپ کے نام بھیجا ہے۔ صمدانی صاحب نے وہ لفافہ لیا، اسے کھولے بغیر ٹکڑے ٹکڑے کیا اور پیچھے پڑے آتش دان میں پھینک دیا۔ عدالت میں موجود سب لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ انہیں ساتھی ججوں نے سمجھایا کہ آپ نے ایسی حماقت کیوں کی؟ اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ نوجوان سیشن جج نے جرات سے جواب دیا: ’’ایک دیانت دار جج کو جو کرنا چاہیے وہ میں نے کر دیا، نتیجہ جو بھی نکلے، اسے برداشت کروں گا‘‘ خوش قسمتی سے کچھ بھی نہ ہوا۔ بعد میں وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد جب بھٹو صاحب گرفتار تھے اور ان پر احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ قائم ہوا تو لاہور ہائیکورٹ میں یہ کیس گیا۔ جسٹس صمدانی اس وقت قائم مقام چیف جسٹس تھے۔ وہ چاہتے تو یہ کیس کسی کو بھی ریفر کر سکتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ کسی اور کو پھنسانے کے بجائے یہ اہم کیس مجھے خود ہی سننا چاہیے۔ انہوں نے خود سنا اور بھٹو صاحب کی ضمانت لے لی۔ اس واقعے نے ملک بھر میں تہلکہ مچا دیا۔ صمدانی صاحب کے دوستوں نے انہیں سمجھایا کہ آپ کیوں اپنے کیریئر کے پیچھے پڑے ہیں، مگر بااصول جج نے وہی فیصلہ کیا جو اس کی نظر میں درست تھا۔ صمدانی صاحب نے انٹرویو کے دوران مجھے بتایا: ’’ایک بار مولوی مشتاق میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ بھٹو صاحب کو کچھ زیادہ فیور دے رہے ہیں‘‘۔ دراصل صمدانی صاحب نے بھٹو صاحب کو جیل میں کاغذ قلم اور بعض دیگر چھوٹی موٹی سہولتیں دینے کا حکم دیا تھا، جو مولوی مشتاق کو ناگوار گزرا۔ جسٹس صمدانی نے ترنت جواب دیا: ’’مولوی صاحب! بطور جسٹس میں آپ کا ماتحت نہیں، مجھے بہتر علم ہے کہ اپنی عدالت میں میں نے کیا کرنا ہے‘‘۔ وہ لا سیکرٹری کے طور پر کام کر رہے تھے کہ ایک روز حیران کن واقعہ پیش آیا۔ جنرل ضیاء کابینہ میٹنگ میں سیکرٹریوں پر برس پڑے۔ کہنے لگے کہ بعض سیکرٹری ایسے کرپٹ ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے ان کی پتلون اتار کر انہیں الٹا لٹکا دوں۔ یہ فقرہ سن کر ہر کوئی سناٹے میں آ گیا۔ جسٹس صمدانی نے برسوں بعد اس دن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا: ’’پہلے تو میں خاموش رہا کہ میں تو بنیادی طور پر سیکرٹری تھا ہی نہیں، میں جج تھا، آج کل سیکرٹری لا کے فرائض انجام دے رہا تھا، میں انتظار کرتا رہا کہ شاید کوئی سینئر اعتراض کرے مگر سب خاموش رہے۔ تب میں کھڑا ہوا اور کہا: جنرل صاحب، میرا بھی جی چاہتا ہے کہ کرپٹ جرنیلوں کی پتلون اتار کر انہیں الٹا لٹکا دوں‘‘۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ چیف آف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر پر یہ جملہ سن کر کیا گزری ہو گی۔ میٹنگ میں وقفہ ہوا تو جنرل ضیا نے انہیں بلایا اور کہا کہ آپ معذرت کریں۔ جسٹس صمدانی نے صاف جواب دیا: ’’میٹنگ دوبارہ شروع ہو تو پہلے آپ اپنے الفاظ واپس لے کر معذرت کریں پھر میں اپنے الفاظ واپس لے کر معذرت کر لوں گا‘‘۔ جنرل ضیاء نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں، جسٹس صمدانی کا جواب تھا: پھر میری یکطرفہ معذرت بھی ممکن نہیں۔ لاہور کی اس بھیگی شام کو میں نے بیس پچیس سال پرانے اس واقعے کی تفصیل سننے کے بعد صمدانی صاحب سے پوچھا کہ آپ کو ڈر نہیں لگا کہ جنرل ضیا آپ کو نقصان پہنچا دے گا؟ صمدانی صاحب نے اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور بولے: ’’کیسا ڈر؟ ہم خود ہی طے کرتے ہیں کہ کسی سے کتنا ڈرنا ہے۔ کوئی طاقتور شخص زیادہ سے زیادہ کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نوکری سے نکلوا دے گا مگر رازق تو اوپر والا ہے، اسی نے رزق دینا ہے، وہ کوئی اور وسیلہ بنا دے گا۔ جنرل ضیاء کوڑے مروا دیتا، زیادہ سے زیادہ جان لے لیتا تو اگر یہ طے ہے کہ مجھے کوڑے لگنے اور میں نے یوں مرنا ہے تو پھر ایسا ہو کر ہی رہنا ہے، اس لیے ڈر کس بات کا‘‘۔ ان کی یہی استقامت اور استغنا انہیں دوسروں سے مختلف بناتا تھا۔ ویسے وہ روحانیت کی دنیا کے مسافر تھے۔ اپنے ماموں سے چشتیہ سلسلے میں بیعت تھے۔ فلسفہ وحدت الوجود پر یقین رکھتے اور شیخ ابن العربی کے ہم خیال تھے۔ فکری اعتبار سے وہ جبریہ سے متاثر تھے، جن کا یقین ہے کہ جو کام ہونا ہے، وہ ہو کر رہے گا اور آدمی مجبور ہے۔ روحانیت سے انہوں نے اپنی اندرونی شخصیت کو مضبوط بنایا اور دنیاوی خوف اور خدشوں سے بے نیاز ہو گئے۔ ہماری عدالتی تاریخ کے چند گنے چنے اجلے اور شفاف افراد میں سے ایک چلا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں