فقیر نگری

سترہ اٹھارہ برس پہلے کی بات ہے،جب یہ اخبارنویس قلم کا تیشہ کاندھے پر رکھے شہر لاہور میں وارد ہوا۔ اسے خوش قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ آتے ہی ایک جریدے میں ملازمت مل گئی، بلکہ ملازمت کاعندیہ لاہور آنے سے پہلے ہی دیا جا چکا تھا۔ ایک سٹوڈنٹ ہاسٹل میں دوست کے ساتھ رہائش کا معاملہ بھی طے پا گیا۔ایک دو مہینوں میں جب روٹین سیٹ ہوگئی تو جی میںآئی کہ صوفیوں کے شہر میں ہیں، کسی بابے کی تلاش میں نکلنا چاہیے۔ انہی دنوں ممتاز مفتی کی کتاب الکھ نگری پڑھی ،جس کا انتساب لاہور کے ایک صوفی سرفراز شاہ کے نام تھا۔ انہی دنوں اشفاق احمد سے ملنے گئے۔ اشفاق صاحب کی اللہ مغفرت کرے، کمال آدمی تھے۔ ان سے ایک دو بار لمبی گپ شپ رہی۔ایک دن ہم نے پوچھا کہ کسی بابے کا ہمیں بھی بتائیں۔ اشفاق صاحب نے اپنی آنکھیں گول گول گھمائیں، مسکرائے اور بولے ،’’ تم لوگوں نے بی اے، ایم اے کرنے کے لیے چودہ، سولہ سال محنت کی ہے، بابا ڈھونڈنے کے لیے ایک ماہ تو محنت کرو۔ یہ کام ڈھونڈنے سے ہوتا ہے، کسی کے بتانے سے نہیں‘‘ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا، میں نے اشفاق صاحب سے سرفراز شاہ صاحب کے بارے میں پوچھا کہ ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اشفاق احمد چند لمحوں کے لیے خاموش ہوئے اور پھر اعتراف کیا کہ میں خود سرفراز شاہ کا مداح ہوں، وہ واقعی صاحبِ روحانیت ہیں۔‘‘ یہ سن کر ہماری باچھیں کِھل گئیں، اگلے جمعہ کو ہم اقبال ٹائون، جہانزیب بلاک میں ان کے گھر (212 c) جا پہنچے۔کچھ دیر انتظار کے بعد میری باری آ گئی۔ شاہ صاحب ایک ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے، ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ قریب سے دیکھا تو مایوسی ہوئی۔ بغیر کلف کی سفید شلوار قمیص میں ملبوس، سرکے کچھ بال اڑے ہوئے، کلین شیو چہرے سے متانت اور سنجیدگی مترشح۔ روایتی پیروں والا کوئی حلیہ نہیں۔ لباس سے وضع قطع اور زبان سے گفتگو تک سب شائستہ اور متین۔ خیر میں نے ان سے کسی مسئلے پر دعا کے لیے کہا، اب یاد نہیں ،مگر یقینی طور پر کوئی دنیاوی معاملہ ہی ہوگا۔ انہوں نے مختصراً کہا کہ اللہ خیر کرے گا،اس کے بعد قریب پڑی ایک ٹافی اٹھا کر دے دی، ہم نے ٹافی فوراً منہ میں ڈالی اور حیران ہو کر واپس لوٹ آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا یہی طریقہ ہے۔ کسی سے لیتے ویتے کچھ نہیں، جو آتا ہے، اس کے لیے دعا کردیتے ہیں۔ تعویز دیتے ہیں نہ ہی کوئی وظیفہ پڑھنے کو بتاتے ہیں۔ بعد میں بھی وہاں جاتے رہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاہ صاحب کو پیر بننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بیعت لیتے نہ مرید بناتے ہیں، الٹا لوگوں کو پیروں سے ’’گمراہ‘‘ کرتے رہتے ہیں۔جو آتا ، اسے سمجھانے لگ جاتے کہ بھائی اللہ پر یقین رکھو، اپنی ماں پر تمہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ناراض بھی ہو تو بھوکا نہیں رکھے گی، کچن میں روٹی موجود ہوگی، اللہ جس کی شفقت ماں سے کئی سو گنا زیادہ ہے، اس کی رحمت اور محبت پر یقین نہیں کرتے۔ یہ سوچو کہ جو بھی ہوگا ،وہ میری بہتری میں ہوگا۔ اللہ کی مرضی میں راضی رہنا سیکھ لو۔کبھی تو تلخ ہو کر کہہ اٹھتے کہ اسلام میں جدوجہد کی اولین حیثیت ہے، دعا ثانوی چیز ہے، پہلے اپنی پوری قوت کے ساتھ محنت، پھر رب تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ ایک دن کہنے لگے، ’’کسی بھی دنیاوی مسئلے کے لیے کسی پیر کے پاس جانا قطعی مناسب نہیں، اللہ پر یقین رکھو، وہ ہر ایک کی سنتا ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسے پکارا جائے اور وہ جواب نہ دے۔ اس کے ساتھ رابطہ مضبوط رکھو اور اپنے تمام معاملات اللہ کے حوالے کر دو، پھر اللہ جانے اور آپ کے معاملات، آپ مزے سے سیٹیاں بجائو۔ ‘‘دوسروں کاتو علم نہیں ،البتہ میں یہ ’’سازش‘‘بھانپ گیا۔ ہم ہر ملاقات میںدعا کی کوئی نہ کوئی فرمائش جڑ دیتے۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں ہمیشہ ان سے کہتا کہ دعا کریں کہ میں اس جریدے سے نکل کر کسی بڑے روزنامے میں چلا جائوں۔ مجھے لگتا کہ اس ماہنامے میں گزرا میرا ہر دن ضائع ہو رہا ہے۔شاہ صاحب مسکرا کر ہر بار کہتے ،آپ کچھ عرصہ مزید یہاں رہ جائیے ، آپ کا اپنا مفاد ہے۔‘‘ اس وقت تو میری سمجھ میں نہیں آیا، پھر برسوں بعد اندازہ ہوا، جب اس جریدے میں گزرے دنوں کی بنیاد پر میں ایک بڑے قومی اخبار کا میگزین انچارج بنا۔ مجھے اپنے کیرئر میں جو تھوڑی بہت کامیابیاں حاصل ہوئیں، وہ انہی دنوں کی مرہون منت تھیں۔ بات شاہ صاحب کی محفلوں کی ہو رہی تھی۔ انہوں نے بعد میں ہفتہ وار لیکچر کا سلسلہ شروع کیا۔ ان میں سے کچھ لیکچر میں نے بھی اٹینڈ کیے اور ہر بار ان کی قوت بیان اور علم پر متحیر ہو کر واپس آیا۔ پچھلے ڈیڑھ دو برسوں سے روحانیت اور علم لدنی کی مختلف اصطلاحات پر دئیے گئے وہ لیکچر کتابی صورت میں شائع ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب ’’ کہے فقیر ‘‘تھی، اس کتاب کو حیران کن پزیرائی ملی ہے، دو برسوں میں اس کے اٹھارہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ دوسری کتاب’’ فقیر رنگ ‘‘کے سات آٹھ ماہ میں نو ایڈیشن نکل گئے ہیں۔ چند دن پہلے ان کی تیسری کتاب ’’فقیر نگری‘‘ شائع ہوئی ہے۔ پہلی دونوں کتابیں بھی میں نے پڑھیں اور ان پر لکھا بھی۔ تیسری کتاب کو پچھلے ہفتے سے پڑھ رہا تھا۔ شاہ صاحب کی یہ کتاب بھی غیرمعمولی ابلاغ کا نمونہ ہے۔ تصوف پر ایسی آسان اور دلچسپ تحریر میں نے کبھی نہیں پڑھیں۔ روحانیت ہمارا میدان نہیں، البتہ مطالعے کے شغف کے باعث تصوف کی مشہور کتابیں پڑھنے کا موقعہ ملا۔ پرانی کتابوں میں شائد دانستہ انداز تحریر مشکل اور ادق رکھا جاتا تھا۔ جدید کتابوں میں بھی اسی اصول کو روا رکھا گیا، غالباً مقصد یہ ہوگا کہ صرف گہری دلچسپی رکھنے والے تک ہی علم پہنچے۔ ایک قباحت البتہ یہ ہوئی کہ اس الجھے اور مبہم اندازِ تحریر کے باعث تصوف کے بارے میں بہت سے غلط تصورات پھیل گئے، ایک غبار ہے جو اس علم کے بارے میں چھا چکا ہے۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ تصوف کی داخلی دنیا سے کوئی شخص اٹھے اور اپنی پوری قوت سے ان مغالطوں اور مبالغوں کو چاک کرے اور تصوف کی حقیقی تصویر راہ سلوک کے مسافروں کے سامنے پیش کرے۔ سرفراز شاہ صاحب نے یہی کام کیا ہے۔ تصوف جسے صرف حیران کن کرامات، وظیفوں ، مجاہدوں اور مراقبوںکاعلم ہی تصور کیا جا تا ہے، اس کے حقیقی پہلو، اس میں پوشیدہ عزم وایثار کے سبق، باطنی صفائی ، تذکیہ نفس، اپنی زندگی، پسند، ناپسند، خواہشات اور آرزئوں کو صرف اللہ کے تابع کرنا، رب تعالیٰ کی خوشی کے لیے زندگی گزارنا، خلق خد ا کی خدمت، اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کرنا اوردوسروں پر عائد اپنے حقوق سے ازخود ستبردار ہوجانا… یہ وہ باتیں تھیں ،جو تصوف کی اصل روح تھیں، مگر کشف وکرامات اور روحانیت کی جگمگاہٹ کے نیچے اسے دبا دیا گیا تھا۔ سرفراز شاہ صاحب کا یہ کارنامہ ہے کہ وہ تصوف کی رنگین اور گلیمرائزڈ دنیا میں سے اس کی روکھی پھیکی، خشک، مگر رب تعالیٰ کی محبت سے سرشاردنیا کو سامنے لے آئے ہیں۔ تصوف سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ تینوں کتابیں افادیت کی حامل ہوں گی ،تازہ کتاب فقیر نگری کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ کوئی مضائقہ نہیں کہ تصوف کے ناقدین بھی ان پر نظر ڈال لیں کہ علم سے استفادہ ہر متلاشی حق کے لیے ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں