تحریک انصاف کا سیاسی خلفشار

قومی سیاسی منظرنامے پر ایک اضطراب سا طاری ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنی چالیں چلنے اور مخالف کے حربوں کا توڑ کرنے کی فکر میں ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے بیشتر امیدواروں کو ٹکٹ دے کر نچنت ہوچکی،اس بار اس کے پاس خواہش مند بھی نسبتاً کم تھے۔ سندھ میں اس بار پیپلز پارٹی کو بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا، مگر وہاں پارٹی کا ٹکٹ ابھی تک اچھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ پنجاب میں صورتحال مختلف تھی ۔ لاہور جیسے شہر میں تو دلچسپ معاملہ رہا کہ پارٹی کے اہم لیڈروں میں سے کئی انتخاب لڑنے پر آمادہ ہی نہیں ہوئے۔ لاہور شہر میں جن کو ٹکٹ دئیے گئے ،ان میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب کو اچھی طرح اپنا انجام معلوم ہے۔ پچھلے پانچ برسوں کی بدترین کارکردگی کے نتائج پانے کا وقت آ گیا ہے۔ لاہور اور پنجاب کے بڑے شہروں کو پچھلے دو برسوں میں لوڈ شیڈ نگ کے عفریت کا خاص طور پر نشانہ بنایاگیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت غالباً یہ سوچتی رہی کہ ان شہروں سے ہمیں ووٹ تو ملنے نہیں، اس لئے انہیں مشق ستم بننے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے بھلے جیالے گھرانوں کے نوجوان اس بار پیپلز پارٹی کے بجائے پی ٹی آئی کے اسیر نظر آتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ کسی جماعت نے بھٹو ووٹ بینک میں نقب لگائی ہے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں میں ٹکٹوں کے معاملے پر خلفشارنظر آیا۔ مسلم لیگ ن کو یہ خدشہ دامن گیر رہا کہ جس امیدوار کو ٹکٹ نہ ملا ، وہ تحریک انصاف کی راہ لے گا۔ خیر اب مسلم لیگی امیدواروں کی فہرست سامنے آ چکے ہے۔ امیدوار تو تحریک انصاف نے بھی فائنل کر لئے ،مگر اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ اصل میں دو تین بڑے مخمصے ایسے ہیں، جن کا عمران خان شکار رہے۔ وہ رومانویت اور عملیت پسندی کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ مزاجاً وہ سیاسی رومانویت کے حامل ہیں، تبدیلی کی شدید خواہش ان میں نظر آتی ہے، انقلاب کی بھڑکتی آگ کی لپک بھی گاہے جھلکتی ،مگر وہ اسے عملیت پسندی کے چٹان تلے دبا دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک اصولی فیصلہ کیا کہ ضلعی تنظیموں کی سفارشات کی اہمیت کلیدی ہوگی اور ٹکٹیں کسی فرد واحد کے بجائے پارلیمانی بورڈ دے گا۔ پاکستانی سیاست میں ایسا ہوتا نہیں۔ جمہوریت کے نعرے اور سیاسی کلچر کی رٹ اپنی جگہ ،حقیقت مگر یہ ہے کہ ہمارے ہاں افراد ہی پارٹیاں چلاتے ہیں۔ اتنی بڑی سیاسی ایکسرسائز کے باوجود کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف عمران خان ہی کا دوسرا نام ہے؟ آج اگر عمران اگر تحریک انصاف سے دور ہٹ جائیں تو پوری تنظیم پانی میں ڈالے نمک کے ڈلے کی طرح گھل جائے گی۔ڈیڑھ سال پہلے مسلم لیگ کے حامی لکھاریوں کی جانب سے بار بار لکھا اور کہا گیا کہ تحریک انصاف میں آنے والے ہیوی ویٹ لیڈر پارٹی ہائی جیک کر لیں گے اور عمران خان کا حال میاں اظہر جیسا ہوگا، جو مسلم لیگ ہمخیال یا ق لیگ کے صدر تھے،مگر 2002ء کے عام انتخابات کے بعد چودھری برادران نے انہیں دودھ میں پڑی مکھی کے مانند نکال باہر کیا۔ یہ بات سن کر حیرت ہوتی کہ مسلم لیگیوں کو اندازہ نہیں یا جان بوجھ کر دروغ بیانی سے کام لے رہے ہیں ،ورنہ تحریک انصاف عمران خان کے شخصی کرشمے کا ثمر ہے۔ اصل لیڈر وہی ہیں، باقی تمام معاون ایکٹر ہی بن سکتے ہیں، ہیرو بننا ان کے بس کی بات نہیں۔ بات عمران خان کے مخمصے کی ہو رہی تھی۔ عمران خان نے پارلیمانی بورڈ کو اہمیت دی۔ ٹھیک کیا، سیاسی جماعتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ کہ لیڈر کی گرفت پس پردہ ہونے کے باوجود مضبوط رہنی چاہیے۔ بہتر تھا کہ ہر حلقے کا سائنٹفک بنیادوں پر تجزیہ کرایا جاتا، ایک ضلعی تنظیم اور مقامی لیڈروں کے ذریعے اورایک پارٹی سے ہٹ کر غیر جانبدار آزادانہ تجزیہ ۔ اس طرح پارٹی لیڈر کے پاس ایک جامع تصویر موجود ہوتی، جس کی بنیاد پر متنازع کیسز کو نمٹانا آسان ہوتا۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا۔ جب ٹکٹوں کا معاملہ آیا تو فطری طور پر کئی مسائل کھڑے ہوئے۔ کئی مقامات پر ضلعی تنظیموں نے جس امیدوار کی حمایت کی، وہ شفاف، کلین اور نظریاتی تو تھا، مگر تجربہ نہیں تھا یا مقامی طاقتور برادریوں کی حمایت حاصل نہیں تھی۔کہیں پرضلعی تنظیم کی سفارشات کے بجائے پارٹی کے اہم لیڈروں کی سفارشات ماننی پڑی کہ انہیں من پسند ٹیم بنا کر دینا مجبوری بن گئی۔ یوں بعض مقامات پر تضادات پیدا ہوئے۔ ادھرچونکہ امیدوار بہت تھے ،فطری طور پر ایک کوٹکٹ ملنے سے کئی دوسرے ناراض ہوئے۔ یہ سب پاپولر جماعتوں میں ہر بار ہوتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی جیسی تجربہ کار جماعتیں ان مسائل کو نسبتاً احسن طریقے سے سلجھا لیتی ہیں، بعض محروم رہنے والے امیدواروں کو مستقبل کے سنہرے وعدے دے کر بہلا دیا جاتا ہے، کسی کو سینیٹ کی ٹکٹ کی یقین دہانی، کسی کو کوئی اور عہدہ دینے کی تسلی۔ تحریک انصاف نئی جماعت ہے، اس لئے کچھ زیادہ شور مچ گیا۔ بعض مقامات پر ممکن ہے ٹکٹیں غلط تقسیم ہوئی ہوں، تحریک انصاف کے بعض ہمدرد اخبارنویس بار بار ان کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ملتان میں رانا محبوب اختر، وہاڑی میں نور محمد بھابھا ، جہلم کے ضلعی صدر نعیم عالم، گجر خان میں عظیم چودھری اور بعض دوسرے ایسے ہیں ،جنہیں ٹکٹ نہ دینے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ان میں جہاں جہاں غلطی ہوئی ہو، اس کی اصلاح کرنی چاہیے، لاہور میں بعض افراد سے ٹکٹ واپس لئے گئے ہیں، دوسرے شہروں میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ ایک بات ،مگر ماننی چاہیے کہ عمران خان نے اچھی خاصی تعداد میں نوجوان اور پڑھے لکھے امیدواروں کو ٹکٹ دئیے ہیں۔ ان میں سے بعض ناتجربہ کار اور روایتی سیاست سے ناآشنا ہوں گے،ممکن ہے ان میں سے کچھ نتائج بھی نہ دیں سکیں،مگر پارٹی نے کم از کم رسک تو لیا۔ لاہور میں بھی کئی امیدوار ایسے ہیں، جن پر روایتی سیاست کے ماہرین تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان نشستوں پر کمزور امیدوار کھڑے کر کے تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کو واک اوور دے دیا ہے۔ حامد خان ، بیرسٹر حماد اظہر، ڈاکٹر یاسمین راشد وغیرہ کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی تجزیے اپنی جگہ ،مگر یہ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روایتی کرپٹ سیاسی دائرے سے باہر کے لوگ تو ہیں۔ اسی طرح جہاں میری رہائش ہے ،وہاں سے (علامہ اقبال کے پوتے) ولید اقبال کو ٹکٹ دیا گیا۔ اخباری رپورٹس کے مطابق اس علاقے کے بعض کارکنوں نے شکوہ کیا کہ یہ زیادہ مضبوط امیدوار نہیں،ان کی جگہ دوسرے امیدوار کو جو ارب پتی ہے اور کھل کر پیسے خرچ کرنے کی شہرت رکھتا ہے ،ٹکٹ ملنا چاہیے تھا۔ میری ولید اقبال سے کبھی ملاقات تک نہیں ہوئی، مگر بہرحال یہ تو حقیقت ہے کہ وہ نوجوان بیرسٹر اور ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان کے فرزند ہیں، جن پر کرپشن کا الزام ہے نہ ہی گیس یا بجلی چوری ان کا وطیرہ رہا۔ ہمارے سیاسی کلچر میں کسی غیر سیاسی گھرانے کے پڑھے لکھے اور ایماندار فرد کو ٹکٹ دینے کا رواج کبھی نہیں رہا۔ تحریک انصاف اپنے دوسرے دعوے پورے کر سکے یا نہیں، چھوٹے پیمانے پر سہی، مگریہ تبدیلی تو لے آئی۔ پی ٹی آئی کے لئے اصل چیلنج اپنے اندرونی سیاسی خلفشار سے نکل کر بھرپور انتخابی مہم چلانا ہے۔ عمران خان میں یہ صلاحیت اور قوت تو ہے کہ وہ ملک گیر پیمانے پر ایک پرجوش مہم چلا سکیں۔ یہ بات مگر یاد رکھنی ہوگی کہ اس بار وقت کم ہے، مزید کوئی غلطی وہ افورڈ نہیں کر سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں