نیا پاکستان

ہاورڈ ڈین مشہور امریکی سیاستدان ہیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈین نے امریکی سیاست میں کئی نئے ٹرینڈز قائم کئے۔ بعض امریکی مبصرین کے مطابق صدر اوباما کی تاریخی جیت میں ہاورڈ ڈین کا اہم حصہ ہے۔ وہ امریکی سیاست میں ایسی انقلابی نوعیت کی تبدیلیاںلے آئے ،جن کے ثمرات اوباما نے سمیٹے۔ ڈین 2004ء کی امریکی صدارتی دوڑ میں شامل ہوئے۔ اگرچہ وہ اپنی پارٹی کی جانب سے امیدوار نہ بن سکے اور جان کیری سے پیچھے رہ گئے، مگر اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے بعض ایسے کام کئے، جنہوں نے سب کو حیران کر دیا۔ امریکی انتخابات میں ہر امیدوار اپنی پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں سے عطیات وصول کرتا ہے۔ ان عطیات کی ایک خاص حد مقرر کی گئی ہے، چند سو ڈالر سے زیادہ کوئی کارکن کسی امیدوار کو عطیہ یا ڈونیشن نہیں دے سکتا۔ ہاورڈ ڈین نے اپنی مہم کو بڑے وسیع پیمانے پر پھیلا دیا۔ انہوں نے ایک دو یا چند شہروں کے بجائے ملک بھرکے کارکنوں تک اپنی آواز پہنچائی اور عوامی رابطے کی ایک بھرپور مہم چلائی۔ اس کے لئے انہوں نے انٹرنیٹ کا سہارا لیا،ایک بہت بڑا ڈیٹا باکس بنایا، لوگوں کو ای میلز کر کے اپنے پروگرام، ایجنڈے اور نظریات سے آگاہ کیا، انہیں بتایا کہ وہ کیا کیا کرنے کے ارادے رکھتے ہیں۔ یوں دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے عام کارکنوں تک انہیں رسائی مل گئی۔ بعض دوسری وجوہات کی بنا پر ڈین آگے نہ بڑھ سکے ،مگر ان کی کمپین کو اتنی شہرت ملی کہ اس پر فلمیں بنائی گئیں۔ باراک اوباما نے2008ء میں اپنی مہم چلاتے ہوئے ہاورڈ ڈین کے ماڈل کو سامنے رکھا، بلکہ انہوں نے کئی اضافے بھی کئے۔ اوباما نے بھی ای میلز، ٹیکسٹ میسجز اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے عام کارکنوں تک رسائی حاصل کی۔ عام طور پر امریکہ میں پارٹی امیدوار دوچار لاکھ لوگوں تک پہنچ کر چند ملین ڈالر عطیات جمع کر لیتے ہیں۔ اوباما کی اس وقت کی انتخابی حریف ہیلری کلنٹن نے بھی ایسا ہی کیا۔ ہیلری نے تھوڑے عرصے کے دوران ریکارڈ عطیات جمع کئے ،مگر اس کا انہیں بعد میں نقصان ہوا۔ اوباما نے البتہ گراس روٹ لیول پر مہم چلائی ، انہوں نے پانچ یا سات لاکھ کے بجائے بیس پچیس لاکھ لوگوںسے رابطہ کیا۔اس کا انہیں ثمر بھی مل گیا۔ اوباما کی کامیابی کے پیچھے دو تین اہم عوامل تھے۔ اس نے ان طبقات تک رسائی حاصل کی ، جو سیاسی عمل سے بیزار ہوکر غیر فعال ہوچکے تھے۔ جنہیں لگتا تھا کہ سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آنی ، اس لئے ووٹ ڈالنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ اوباما نے متوسط اور نچلے طبقے کے کارکنوں اور ووٹر کو متحرک کیا، ان میں امید ،جوش اور ولولہ پیدا کیا۔ ان سے چھوٹے چھوٹے عطیات لئے تاکہ ان میں ملکیت(اونر شپ)کا احساس پیدا ہو،ان میں اعتماد پیدا ہو کہ ہمارے چند ڈالر بھی بڑے پیمانے پر کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اس نے تارکین وطن، لبرلز، کالے، ہسپانوی نژاد، مسلمانوں اور دیگر اہم طبقات کا اعتماد بھی حاصل کیا۔ امریکی سیاست میں بھی اتنی بڑی تعداد میں مختلف سوچ رکھنے والے طبقات کو ایک نقطے پر اکٹھا کرنا اوراجتماعی حکمت عملی بنا کر کام کرنے کی مثالیں بہت کم تھیں۔ اوباما نے خاص طور پرنوجوانوں کواپنی طرف کھینچا۔ وہ جانتا تھا کہ بڑی عمر کے لوگ عموماً اپنا ذہن تبدیل نہیں کرتے، درمیانی عمر والے نسبتاً کم رسک لیتے اور زمینی حقائق کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہیں، جن کی سوچ میں رومانویت رچی ہوتی اور جن میں بلند وبالا دیواریں گرانے، رکاوٹیں مسمار کرنے کا عزم موجود ہوتاہے۔ اوباما کی مہم نے امریکہ کی تاریخ بدل دی۔ سیاست کا یہ وہ ماڈل ہے ، جس کی ہمارے ہاں نظیر نہیں ملتی۔ ہمارے ہاں سیاست کا زیادہ انحصار ’’الیکٹ ایبلز‘‘ یا قابل انتخاب افراد پر ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں فنڈز حاصل کرنے کے لئے مخصوص سرمایہ داروں پر انحصار کرتی ہیں۔ ایسے طاقتورلوگ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں، جو انتخابی جلسوں کے اخراجات اٹھا سکیں اور پارٹی لیڈرشپ کو بڑے عطیات دیں۔ نقصان اس تمام عمل میں یہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد سیاسی جماعتیں ان طاقتور لوگوں یا مافیاز کی گرفت سے نکل نہیں سکتیں۔بہت سی ایسی پالیسیاں جو مفاد عامہ میں ہوں اور جن سے عوام کو ریلیف ملے ، صرف اس لئے ان پرعمل نہیں ہوپاتا کہ فلاں ملک صاحب یا چودھری صاحب کے مفادات پر اس سے زد پڑے گی اور چونکہ وہ صاحب حکمران جماعت کے فنانسر ہیں، اس لئے وہ منصوبے لپیٹ دئیے جاتے ہیں۔ ان طاقتور افراد کی قوت کم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ نچلی سطح پر کارکنوں سے رابطہ کیاجائے۔ گراس روٹ لیول پر مہم کے ذریعے عطیات اکٹھے ہوں ، جن سے پارٹی کے جلسے اور اچھے ،مگر مالی اعتبار سے نسبتاً کمزور امیدواروں کی مدد کی جا سکے۔ پچھلے چند دنوں سے اخبارات اور ٹی وی پر تحریک انصاف کی جانب سے ’’نیا پاکستان ‘‘مہم دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہو رہی ہے۔ عمران خان نے نجانے کس کے مشورے سے سرمایہ داروں کے بجائے مڈل کلا س اور لوئر مڈل کلاس کے پاس جانے کا فیصلہ کیا، کارکنوں اور ووٹروں سے عطیات اور فنڈز لینے کی مہم چلانی شروع کی…اس کے نتائج انہیں اس بار مل سکیں یا نہیں ، اس سے قطع نظر انہوں نے پاکستانی سیاست میں ایک بہت اہم عنصر کا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی پاکستانی سیاست کو شدید ضرورت تھی۔ ہمارے عام ووٹر کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک ووٹ ڈال کر ہم نے بڑا احسان کر دیا اور اب باقی تمام کام سیاسی جماعت کا ہے۔ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ ووٹ ڈالنا کوئی بڑی بات نہیں، اصل بات یہ ہے کہ عام آدمی سیاسی عمل کا حصہ بنے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی من پسند سیاسی جماعت میں سے سرمایہ داروں اور طاقتور افراد کی فیصلہ کن برتری ختم ہوتو اسے عملی طور پر بھی کچھ کرنا ہوگا۔ اپنی آمدنی میں سے ، خواہ وہ کس قدر کم ہے، مالی اعانت اپنی پسندیدہ جماعت کے لئے کرنی ہوگی۔ چاہے پچاس، سو روپیہ چندہ دیا جائے ، مگر اس کی رسید سنبھال کر رکھی جائے تاکہ بعد میں وہ عام کارکن ، عام ووٹر اپنی پارٹی کو ، رکن اسمبلی کو یہ کہہ سکے کہ میں نے تمہاری مالی مدد بھی کی، تمہیں جتوانے میں اپنا حصہ ڈلوایا۔ عمران خان نے پاکستانی سیاست کو زوردار طریقے سے جھنجھوڑا ہے ۔ انہوں نے دوسری جماعتوں کو کئی اہم امور کی جانب سوچنے پر مجبور کر دیا۔ایسے طبقات کو انہوں نے دوبارہ سے متحرک کیا، جو سیاست ہی سے بیزار ہوچکے تھے، جن کا اعتماد الیکشن کے عمل سے اٹھ چکا تھا۔ مسلم لیگ ن نے نوجوانوں پر توجہ تحریک انصاف کی وجہ سے دینی شروع کی، ورنہ پہلے تین برس توانہوں نے اس جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ تحریک انصاف کی اس گراس روٹ لیول پر فنڈ ریزنگ مہم کوبھی دوسری جماعتوں کو اپنانا چاہیے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے ، جہاں باقاعدہ مالی اعانت کا سسٹم قائم ہے ، جو اپنے کارکنوں کے چندوں پر چلتی ہے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، اے این پی اور دیگر جماعتوں کو البتہ اس جانب توجہ دینا ہوگی۔ اپنے ووٹروں کو وہ متحرک کریں اور انہیں صرف باتیں نہیں، عملی طور پر کچھ دینے کی عادت ڈالیں۔ ہمارے سیاسی کارکنوں کوبھی چاہیے کہ صرف پارٹیوں سے مانگنے، کشکول پھیلائے رکھنے کے بجائے ، انہیں دینے کی بھی عادت ڈالیں۔کنٹری بیوشن خواہ کس قدر معمولی ہو، اس کا اثر اور اثر پزیری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نیا پاکستان بنانا ہے تو اپنی پرانی عادتیں چھوڑنی اور نئے طریقے سیکھنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں