نئے انتخابی رنگ

انتخابات میں صرف ایک ہفتہ رہ جانے سے انتخابی مہم میں تیزی آگئی ہے۔ میرے دفتر سے گھر کے راستے میں دو تین مقامات ایسے ہیںجہاں انتخابی جلسے کرنے کی اجازت ہے۔ وہاں انتخابی گہماگہمی دیدنی ہے، مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنے پارٹی کے جھنڈے اٹھائے ،سٹکر لگائے، امیدواروں کے نام کی پٹیاں سر پر باندھے مصروف کار نظر آتے ہیں۔بعض اوقات آزاد امیدواروں کا جلسہ یا چھوٹی موٹی ریلی بھی دکھائی دیتی ہے۔ بظاہر ان کی جیت کا چانس نہیں ،مگر وہ امیدوار اور ان کے کارکن بھی اتنے ہی پرجوش اور پرامید نظر آتے ہیں جیسے یہ الیکشن ان کی جھولی میں آپڑا ہے۔ان میں سے بعض کے نشانات بھی دلچسپ ہیں۔ لگتا ہے ریٹرننگ آفیسر نے ان امیدواروںکی شخصیت کو بھی مدنظر رکھا ۔ ایک خاصی لمبی گردن والے دبلے پتلے صاحب کانشان زرافہ جبکہ ایک اور حلقے میں نہایت لحیم شحیم بڑی بڑی مونچھوں والے امیدوار کو مگرمچھ کا نشان الاٹ کیا گیا ہے۔ معلوم نہیں ان لوگوں نے اتنی خوش دلی سے یہ نشانات کیسے قبول کر لئے؟ الیکشن تو ان بے چاروں نے کیا جیتنا ہے، یہ نشانات ان کے نام کے ساتھ ہمیشہ کے لئے چسپاں ہوجائیں گے۔ میرے بچپن میںبلدیاتی انتخابات میں ہمارے محلے کے امیدوار کو چراغ کا نشان الاٹ ہوا۔ یہ اچھا بھلا نشان تھا جس کی اپنی صوفیانہ روایت ہے، مگر ان صاحب کے نام کے ساتھ چراغ کا سرائیکی متبادل ’’ڈیوا‘‘ نتھی ہوگیا۔ وہ بے چارے پھر ہمیشہ ’’رمضان ڈیوا‘‘ ہی کہلائے۔ اسی طرح ایک گھوڑا صاحب تھے جنہوں نے پہلے بغیر سوچے سمجھے گھوڑے کا نشان قبول کر لیا،پھر بعد میں پچھتاتے پھرے۔ اس دفعہ کی انتخابی مہم ماضی سے خاصی مختلف ہے۔ مجھے نئے رجحانات دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔تین چار پہلو ایسے ہیںجو ہمارے ہاں ماضی میں کم نظر آئے۔ ایک تو عرصے کے بعد ہمارے انتخابات میں ماضی کی سیاسی عصبیت اور گروہ بندی پر فوکس نہیں کیا گیا۔ستر کی دہائی کی سیاسی پولرائزیشن کے اثرات کافی دیر رہے۔ نوے کے عشرے میں بار بار اس کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ جنرل مشرف دور میں البتہ یہ ہوا کہ دونوںپارٹیوں کے لیڈر مظلوم بن کر اکٹھے ہوگئے اور میثاق جمہوریت بھی تحریر کر لیا۔ اس کے بعد سے پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو ووٹ کی تقسیم ختم ہوگئی۔ پچھلے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے ایک لفظ بھی بھٹو فیکٹر کے خلاف نہیں کہا۔ اس بار بھی مسلم لیگ بھٹو ووٹ کے خلاف کوئی مہم نہیں چلا رہی۔دراصل وہ نہیں چاہتے کہ زرداری صاحب سے نالاں بھٹو کا جیالا ووٹر دوبارہ سے متحرک ہوجائے۔ انہیں لگتا ہے کہ اس پرانے ووٹر کو زرداری صاحب سے کوئی دلچسپی نہیں ،لیکن اگر بھٹو فیکٹر کے خلاف بات کی گئی تو وہ پھر سے پیپلز پارٹی کے دفاع میں فعال ہو جائے گا۔مسلم لیگ ن کے رہنما صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ حکومت کو ضرور نشانہ بنا کر لوگوں کو باور کرا رہے ہیںکہ اگر ہمیں ووٹ نہ دیا تو پچھلا دور پھر آ جائے گا۔ ن لیگ کے حامی قلم کار مسلسل لکھ رہے ہیں کہ عمران خان کی وجہ سے دائیں بازو کا ووٹ تقسیم ہوجائے گا اور پیپلز پارٹی آ سکتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی مہم موثر ثابت نہیں ہوئی۔ دراصل لوگ دیکھ رہے ہیں کہ لاہور ، پنڈی ،گوجرانوالہ اور پنجاب کے کئی دوسرے شہروں میں پیپلز پارٹی عملاً منظر سے غائب ہے، ان کی انتخابی مہم جاری ہے نہ کارکنوں میںکوئی جوش وخروش۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ان علاقوں میںیہ تیسرے یعنی آخری نمبر پر رہے گی۔ اس لئے تحریک انصاف کی وجہ سے ان شہروں میں کم از کم پیپلز پارٹی کی جیت کا کوئی امکان نہیں۔ ہماری سیاست کا ’پرو بھٹو، اینٹی بھٹو‘ کے سائے سے باہر آنا خوش آئند ہے۔ اس طرح ایک اور دل خوش کن بات ان انتخابات میں مقامی ایشوزپر گفتگو ہونا ہے۔ ماضی میں ہمارے کئی انتخابات خارجہ ایشو پر لڑے گئے۔ کبھی بھارت دشمنی اور کبھی امریکہ مخالفت میں ووٹ لئے گئے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے جذباتی نعرے لگا کر ووٹروں کو استعمال کیا اور اپنی پوزیشن مضبوط بنائی؛ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حکومت کی اپنی مجبوریاں اور ریاست کے اپنی تقاضے ہوتے ہیں۔ اس بار یہ گھسے پٹے نعرے کامیاب نہیں ہو رہے۔ فاٹا یا پختون خوا کے اکا دکا علاقوں کے سوا یہ ایشو کہیں اثر انداز نہیں ہورہا۔حالیہ انتخابات میں انرجی بحران پر بات ہورہی ہے، معیشت سنوارنے کے عہد کئے جا رہے ہیں،جماعتیں دعوے اور اعلانات کر رہی ہیں جن کے حوالے سے بعد میں ان کا محاسبہ ہو سکتا ہے۔مسلم لیگ ن نے اپنی پرفارمنس کی بنیاد پر مہم چلائی ہے جو خوش آئند ہے۔ انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ ووٹر اسے کس حد تک پزیرائی دیں گے، وہ الگ بات ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار کسی نے نئے صوبے بنانے کی بات ہی نہیں کی۔ پیپلز پارٹی نے بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کا ایشو کھڑا کرنے کی کوشش کی، مگر انتخابات میں وہ اس پر بات نہیں کر رہے۔ ہاں مختلف جماعتوں نے دو نئے صوبے بنانے کی بات اپنے منشور کا حصہ بنائی جس کا مطلب ہے کہ وہ ووٹروں سے اس نقطے پر ووٹ لینا چاہتے ہیں،مگر اسے جذباتی رنگ نہیں دینا چاہتے۔ اس بار نوجوانوں پر جس طرح فوکس کیا گیا وہ خوشگوار علامت ہے۔ ماضی میں کبھی یوتھ ووٹ بینک پر اتنا انحصار نہیں کیا گیا، انہیں متحرک کرنے کی سعی نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں پڑھے لکھے طبقات جس طرح الیکشن اور سیاسی عمل سے بیزار ہوکر لاتعلق ہوگئے تھے، وہ تشویش ناک تھا۔ اس بار تحریک انصاف کی پرجوش مہم نے ان سب کو پھر سے متحرک کر دیا۔ عمران خان کے شخصی سحر نے ان لوگوں کو جلسوں میں آنے پر مجبور کر دیا۔ جن لوگوں کے بارے میںخیال ظاہر کیا جا تا تھا کہ وہ چھٹی کا آدھا دن سو کر گزارتے ہیں اور ٹی وی پر بھی سیاسی سرگرمی دیکھنا پسند نہیں کرتے ،وہ لوگ اپنے بچوں سمیت جلسوں میں شامل ہوتے اور گھنٹوں لیڈر کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔ انہی لوگوں اور نوجوانوں کی بنیاد پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس بار مجموعی طور پر ٹرن آئوٹ پچاس فیصد سے زیادہ رہے گا۔ لاہور ،پنڈی جیسے شہروں میں تو شاید ساٹھ فیصد سے بھی بڑھ جائے۔ لاہور اور دیگر بڑے شہروںکے ہر حلقے میں اوسطاً ستر اسی ہزار سے ایک لاکھ تک نیا ووٹ درج ہوا ہے۔ یہی ووٹ مسلم لیگ ن کو خوفزدہ کئے ہوئے ہے۔ الیکشن والے دن یہ لوگ اگر عمران خان کی اپیل پر باہر نکل آئے تو نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ ان انتخابات میں پرانے تمام تجزیے غیر متعلق ہوچکے ہیں۔ برادریوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے مگر نئے ووٹ کے تیور کچھ اور ہیں۔ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم سے انہیں متحرک کر دیا ہے۔ خان نے پچھلے دس دنوں میں حیران کن طور پرکم بیک کیا ہے۔ ایک ایک دن میں پانچ چھ اور کبھی سات سات جلسے کر کے انہوں نے اپنے مخالفوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر حیرت ہوئی کہ عمران خان نے جنوبی پنجاب میں بھی بڑے بڑے جلسے کئے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا سرائیکی بیلٹ میں بڑا اثر تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہاں عمران نے بی بی سے بھی بڑے جلسے کئے ہیں۔ اگر تحریک انصاف ان لوگوں کو پولنگ اسٹیشن تک لے آئی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے، تب ان کی نشستیںکسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ ہار جیت کسی کی بھی ہو، اس بار انتخابات میں جو نئے رنگ جھلکے ہیں، وہ ہمارے سیاسی اور جمہوری کلچر کے لئے خوش آئند ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں