بارہ مئی بڑے اَپ سیٹ دکھا سکتا ہے؟

اس وقت ملین ڈالر کا سوال یہی ہے کہ بارہ مئی کی صبح جب انتخابی نتائج مکمل طور پر آ چکے ہوں گے‘ کیا منظرنامہ سامنے آتا ہے؟ انتخابات کی شام سے لے کر رات گئے تک نتائج سننے اور دیکھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ مجھے نہیں معلوم 70ء کے انتخابات کی کوریج کیسے ہوئی تھی، 77ء کے انتخابات بھی میرے بچپن کی نذر ہو گئے۔ 85ء کے انتخابات البتہ یاد ہیں‘ مگر غیر جماعتی ہونے کی وجہ سے ان میں وہ جوش و خروش نہیں تھا۔ 88ء کے انتخابات میری عمر کے نوجوان کے لیے پہلا تجربہ ثابت ہوئے۔ پی ٹی وی نے خوب رنگ جمایا تھا۔ پہلی بار سرکاری چینل پر آزادانہ رائے رکھنے والوں کو تجزیہ کرتے سنا۔ان دنوں قومی اور صوبائی کے انتخابات دو تین دنوں کے وقفوں سے ہوئے تھے۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے میدان مارا مگر حیران کن طور پر تین دنوں بعد صوبائی انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد نے اکثریت حاصل کر لی۔ یوں پنجاب پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے پھسل کر نکل گیا۔ ایسا کہ دوبارہ ہاتھ نہ آیا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا‘ بات انتخابات کی ہو رہی تھی۔ 88ء، 90ء اور 93ء کے انتخابات کی۔ تمام رات ہم جاگ کر گزارتے۔ گھر میں خوب اہتمام کیا جاتا۔ سرِشام ہی نمکو‘ ڈرائی فروٹ وغیرہ منگوا کر رکھ لیا جاتا۔ تھرماسوں میں تیز پتی والی چائے بھر کر رکھی جاتی۔ اخبارات انتخابی نتائج کے لیے فہرست شائع کیا کرتے ہیں‘ ہم لوگ جوش وخروش سے ہر خانے میں اندراج کرتے۔ساری رات جاگتے گزر جاتی۔ دراصل دلچسپی ہی اس قدر زیادہ ہو چکی تھی‘ صرف ہمارا نہیں بلکہ دیگر جاننے والوں کا بھی یہی حال تھا۔97ء کے انتخابات صحافی کی حیثیت سے بھگتائے، اس کے بعد بتدریج دلچسپی کم ہوتی گئی۔ صرف میری نہیں‘ میرے جیسے اور بہت سے لوگوں کی بھی۔2013ء کے انتخابات میں عرصے بعد پہلے جیسی سنسنی اور جوش و خروش محسوس ہو رہا ہے۔ جس کسی سے بات ہو‘ ایک سی کیفیت نظر آتی ہے۔ اس انتخابات میں ایک نیا ولولہ اور جوش بھر دینے کا کریڈٹ تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ عمران خان نے انتخابی محاذ حقیقی معنوں میں گرما دیا ہے۔ بغیر کسی تنظیم اور سٹرکچر کے اتنے بڑے بڑے جلسے کرنا ایک محال بات نظر آتی تھی۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے بڑے جلسے ہونا کوئی بڑی خبر نہیں ہے۔اس وقت بھی یہ صوبے کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ حیران عمران خان نے کیا،جس کے پاس کوئی قابل ذکر مقامی گروپ یا شخصیت بھی نہیں‘ امیدوار بھی نئے ہیں۔ ایسے میں ہزاروں لاکھوں لوگ اکٹھے کر لینا کسی معجزے سے کم نہیں۔ جنوبی پنجاب میں عمران نے کمال کر دکھایا۔ سرائیکیوں کو عمران سے پہلے صرف بھٹو صاحب نے متحرک کیا تھا۔ ادھر سنٹرل پنجاب میں نارووال‘ گوجرانوالہ ،شیخوپورہ ،فیصل آباد اور دیگر شہروں میں بھی اس کے جلسے بہت بڑے تھے۔ خیبرپختونخوا سے تو ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ شاید اس بار پی ٹی آئی وہاںسب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے۔ اس جماعت نے پچھلے دو ہفتوں میں یک لخت خود کو منظم کر کے حیران کن پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیے لکھنے والوں سے غیرجانبداری کا مطالبہ تو فضول ہے کہ ان کے رزق کا معاملہ ہے‘ البتہ آزاد تجزیہ کاروں کو عمران خان نے سرپرائز دیا ہے۔ کئی سینئر لوگوں سے میری بات ہوئی ہے۔ سب کا کہنا ہے کہ اب انتخابی نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔ صرف پندرہ دن پہلے تک کوئی بھی سنجیدہ تجزیہ نگار تحریک انصاف کو بیس پچیس سے زیادہ نشستیں دینے کو تیار نہیں تھا۔ آج وہی لوگ بلاتکلف پچاس‘ ساٹھ اور ستر نشستوں کی بات کر رہے ہیں‘ بعض کے خیال میں اگر یوتھ ووٹ بینک پوری طرح استعمال ہو گیا تو تعداد سو سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ لاہور میں خود مسلم لیگ ن کے اندرونی حلقے تین نشستوں این اے 122 (عمران خان کا حلقہ)‘ 121 اور 127 پر خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ اب 126 کے حوالے سے بھی وہ پریشان ہو گئے ہیں۔ کسی اور حلقے سے بھی اپ سیٹ ممکن ہے ۔ نتائج معلوم نہیں کیا آئیں‘ مگر یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف نے ن لیگ کو اس کے قلعے میں گھس کر للکارا ہے اور گیارہ مئی کو گھمسان کا رن پڑے گا۔ عرصے بعد میاں نوازشریف کو اپنے حلقے میں چیلنج درپیش ہوا ہے۔ لاہور میںپہلی بار ن لیگ کو گھر گھر جا کر ووٹ مانگنا پڑا ہے۔ یہ تحریک انصاف کی نفسیاتی جیت ہی ہے۔ ن لیگ کی جانب سے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مابین گٹھ جوڑ کے الزام کو سن کر ہنسی آتی ہے۔ تحریک انصاف نے تو پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کا کباڑا کر دیا ہے۔ جن خاندانوں نے چالیس برسوں سے صرف پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا‘ آج ان کے بیٹے‘ بیٹیاں کھلم کھلا تحریک ا نصاف کے ساتھ ہیں۔ اگر عمران خان میدان میں نہ اترتا اور انتخابی محاذ کو نہ گرماتا تو مسلم لیگ ن کو کھلا میدان (واک اوور) مل جاتا۔ اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ایک اور عجیب و غریب طعنہ یہ دیا جاتا ہے کہ عمران کے ساتھ شاہ محمود قریشی‘ جہانگیر ترین اور دو چار پرانے سیاستدان موجود ہیں‘ اس لیے یہ کیا تبدیلی لائے گا؟ یہ بھی دلچسپ الزام ہے کہ آپ کی پارٹی میں دو چار پرانے روایتی سیاستدان ہیں اس لیے ووٹروں کو آپ کے بجائے اس پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے جہاں 80ء، 90ء ایسے پرانے‘ روایتی سیاستدان ہیں۔ جب مقابلہ روایتی سیاسی جماعتوں ہی میں ہو رہا ہے تو فطری طور پر ووٹر ایسی جماعت کی طرف کھنچ رہا ہے جس کا لیڈر غیر روایتی اور جس کے پاس اکثریتی امیدوار نئے اور پڑھے لکھے ہیں۔ میرے خیال میں مسلم لیگ ن نے ایک بڑی سیاسی غلطی کی ہے۔ عمران خان نے روایتی سیاست کے بازار میں تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے‘ سٹیٹس کو‘ جمود توڑ کر سسٹم کو بدلنے کا خواب دکھایا ہے۔ مسلم لیگ ن کو اس جانب توجہ دینی چاہیے تھی۔ وہ موٹروے بنانے‘ ایٹمی دھماکہ کرنے اور ایئر پورٹ بنانے کے گھسے پٹے دعوئوں کو دہرانے کے بجائے کوئی نیا ایجنڈا دیتی۔ مسلم لیگ ن کے تھنک ٹینکس نے 90ء کے عشرے کے خواب 2013ء میں بیچنے کی کوشش کی ہے‘ ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ البتہ الیکٹ ایبل کو ساتھ ملانا ان کی بڑی کامیابی تھی۔ میاں صاحب نے الیکشن جیتنے کے لیے ہر ایک کو ساتھ ملایا‘ خواہ وہ مشرف لیگ کا کوئی لوٹا ہو‘ شدت پسند تنظیم کا کارکن یا سپریم کورٹ پر حملے کا کوئی ملزم۔ انہوں نے اپنے سابق تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے روایتی سیاستدانوں پر تکیہ کیا ہے۔ ماضی میں یہ نسخہ کامیاب رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی کرشماتی شخصیت اور دھواں دار انتخابی مہم ایک نئی تاریخ رقم کر سکتی ہے یا نہیں۔ محسوس تو یہ ہو رہا ہے کہ 12 مئی کا سورج کئی حیرت انگیز اَپ سیٹ لے کر طلوع ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں