اب باری عوام کی ہے

منگل، سات مئی کی شام کو بھلانا آسان نہیں۔ اس شام عمران خان کے لفٹر سے گرنے، زخمی ہونے اور ہسپتال لے جائے جانے کے مناظر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے کروڑوں لوگوںکو الیکٹرک شاک لگا ہو۔ ٹی وی سکرینوں پر تحریک انصاف کے کارکنوں کو روتے، بے قراری سے ہسپتال کی طرف بھاگتے دیکھا اور پھر رات گئے عمران خان کے بخیریت ہونے کی اطلاع پر کھلے کھلے مسکراتے چہرے … یہ سب منظر ذہن کے نہاں خانوں میں نقش ہو گئے، شاید مدتوں رہیں گے۔ رات کو ’دنیا نیوز‘ کو دیا گیا عمران خان کا خصوصی انٹرویو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ میں اس وقت اپنا کام ختم کر چکا تھا۔ کمپیوٹر بند کر کے سیٹ سے اٹھا، نیوز روم سے گزر کے لفٹ کی جانب جا رہا تھا کہ راستے میں ٹی وی سکرین کے گرد ہجوم دیکھا۔ معلوم ہوا کہ عمران خان آپریشن تھیٹر سے انٹرویو دے رہے ہیں۔ عمران خان کی حالت پریشان کن تھی، کمر پر چوٹ کے باعث گردن پیڈ میں جکڑی ہوئی، زیادہ خون بہہ جانے سے چہرے کی رنگت زرد، پیشانی پر کئی ٹانکے لگے ہوئے، ایک سائیڈ پر خون کے دھبے بدستور، کمزور آواز…مگر لہجے میں وہی استقامت اور عزم و استقلال۔ حیرت سے کھڑا میں سوچتا رہا کہ کیا آدمی ہے یہ؟ ابھی مرتے مرتے بچا ہے، اگر سر کے بل گرتا تو گردن چٹخ جاتی، موت چھو کر گزر گئی، قدرت نے محفوظ رکھا۔ اس قدر زخمی حالت میں، جب اعصاب قابو میں ہیں نہ ہی شعور پوری طرح بیدار، پھر بھی اپنی فکر کے بجائے قوم کی فکر دامن گیر ہے۔ بار بار ایک ہی بات کر رہا ہے کہ میری خاطر نہیں، اپنی خاطر اُٹھو اور گیارہ مئی کو باہر نکل کر ووٹ ڈالو، فرد کو نہیں جماعت کو دیکھو، امیدوار کو نہیں، پارٹی کو اس کے نظریے کو دیکھو اور تبدیلی کے لیے، نیا پاکستان بنانے کے لیے باہر نکل آئو۔ یوں لگ رہا تھا جیسے عمران کی باتیں اس کے دل کی گہرائیوں سے نکل رہی ہیں۔ انٹرویو ختم ہوا، میں نے دائیں بائیں دیکھا، پورا نیوز روم سکتے کی حالت میں کھڑا دیکھ رہا تھا۔ چند منٹوں بعد ایک سب ایڈیٹر نے مسکراتے ہوئے بلند آواز میں کہا، یارو! کیا گیارہ مئی کے بجائے آج رات ووٹ نہیں کاسٹ کیا جا سکتا؟ اس پر سب کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھر گئیں۔ منگل کی شام کے واقعے نے عمران خان کے حق میں جو زبردست لہر پیدا کی، اس پر بعد میں، پہلے عمران کی کرشماتی شخصیت پر بات کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو جو غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، وہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آئی۔ بہت بڑا حصہ تو اس کے کھلاڑی ہونے کا ہے۔ پاکستانی کرکٹ اس کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔ اس کوالٹی کا فاسٹ بائولر اور بہترین بلے باز اور کوئی نہیں، مگر سب سے بڑھ کر عمران کی فائٹنگ سپرٹ … اس نے اپنے جذبے اور آخری لمحے تک لڑنے کی صلاحیت سے بہت سے ہارے ہوئے میچ جیتے۔ ورلڈ کپ جیتنے کی کہانی تو سب جانتے ہیں۔ بات مگر صرف اتنی نہیں۔ عمران خان کا آخری میچ 1992ء ورلڈ کپ کا فائنل تھا۔ اس کے بعد وہ کرکٹ نہیں کھیل سکے، شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کے لیے مہم چلانے میں جت گئے اور پھر بعد میں ان کا سیاسی کیریئر شروع ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ جو لڑکا 1990ء یا 92ء یا اس سے تھوڑا پہلے پیدا ہوا، جو آج بیس بائیس یا پچیس چھبیس سال کا ہے، اس نے عمران کو کبھی کرکٹ کھیلتے دیکھا ہی نہیں۔ جو ورلڈ کپ پاکستان جیتا، اس کی جھلکیاں کبھی کبھار دکھائی جاتی رہیں مگر اس میں تو عمران سے زیادہ وسیم اکرم اور انضمام الحق وغیرہ نمایاں ہوتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ نوجوان، نوعمر حتیٰ کہ بچے تک عمران کے دیوانے ہیں؟ مجھے حیرت ہوئی جب میرے سات اور آٹھ سالہ بیٹوں نے بلے کے سٹکر اپنی شرٹ پر لگائے اور تحریک انصاف کا جھنڈا گھر پر لگانے کا اصرار کیا۔ ان کے ساتھی بچے بھی اسی طرف مائل نظر آئے، ان میں ایک آدھ شیر کا حامی بھی تھا مگر عمران خان ان سب کا ہیرو تھا۔ میں نے پوچھا کہ آخر تم لوگ شیر کے بجائے بلے کی طرف کیوں مائل ہوئے ہو؟ ’’عمان خان ہمیں اچھا لگتا ہے‘‘ میرے چھوٹے بیٹے کا سادہ جواب تھا جس کی زبان میں ہلکی سی لکنت ہے۔ آخر اس سپاٹ چہرے اور کسرتی بدن والے شخص میں کیا بات پوشیدہ ہے جس کا سحر ابھی تک قائم ہے؟ کھلاڑی تو اور بھی بہت سے ہیں مگر یہ آخر اتنا ممتاز کیوں ؟ کیا وہی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے عزت دینا چاہتا ہے لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتا ہے؟ عمران خان کے مخالف لکھاری ناراض ہو جاتے ہیں، اگر شوکت خانم ہسپتال بنانے کی بات کی جائے۔ اصل بات ہسپتال بنانا نہیں بلکہ اس تذکرے کا مقصد عمران کی قوت ارادی اور عزم کو ظاہر کرنا ہے۔ ہر ڈاکٹر جسے ناممکن امر قرار دیتا تھا، خان کے جنون نے اسے ممکن بنا دیا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران واحد سیاستدان ہے جس پر لوگ اپنے عطیات دینے کا اعتماد کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ شوکت خانم کو دیا جانے والا پیسہ ضائع نہیں جائے گا۔ ورنہ ہمارے لوگ ووٹ تو بڑی سیاسی جماعتوں کو دیتے ہیں مگر عطیہ یا امداد دینے کے لیے کبھی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، اے این پی وغیرہ پر اعتماد نہیں کرتے۔ اس کے لیے مذہبی لوگوں جماعت الدعوۃ، جماعت اسلامی کی الخدمت وغیرہ پر بھروسہ کیا جاتا ہے، شوکت خانم ایک استثنائی کیس ہے۔ اگلے روز پیپلز پارٹی کے سابق گورنر کی صاحبزادی نے عمران کی اس صفت کا اعتراف کرتے ہوئے برملا ٹوئیٹ کیا کہ ایسا شخص ہی لوگوں سے ٹیکس لے سکتا ہے جو خود ٹیکس دیتا رہا ہو اور جس پر کرپشن کا ایک بھی دھبہ نہ ہو۔ نوجوان تبدیلی کے لیے عمران خان کی طرف دیکھتے ہیں تو اس فیصلے کے پیچھے کپتان کی یہی کریڈیبلٹی ہے ورنہ دوسری جماعتوں نے یوتھ ووٹ کو کھینچنے کے لیے کم جتن نہیں کیے۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ اس بار قدرت بھی عمران خان پر مہربان ہے۔ جیسے قدرت کا ڈیزائن آف نیچر اسے مدد فراہم کر رہا ہو۔ اس نے اپنے طور پر کئی غلطیاں کیں۔ پارٹی الیکشن پر خاصا وقت صرف کیا۔ یہ وقت سیاسی حکمت عملی وضع کرنے اور عوام رابطہ مہم میں لگانا چاہیے تھا جو اندرونی اختلافات اور عہدے داروں کے انتخاب میں ضائع ہوا۔ تحریک انصاف ترازو کا نشان لینا چاہتی تھی مگر وہ جماعت اسلامی کو مل گیا اور ان کے حصے میں بلے کا نشان آیا۔ میرے خیال میں یہ بھی قدرت کی مدد تھی، بلا زیادہ موزوں نشان ہے، نوجوانوں کے لیے پُرکشش اور عمران کے مخصوص جارحانہ لہجے اور ڈکشن سے بھی مناسبت رکھتا ہوا۔ ٹکٹوں کے معاملے پر بعض غلطیاں ہوئیں، پارٹی کے کئی دیرینہ ساتھی خفا ہوئے، خود عمران کا خاندان ساتھ چھوڑ گیا۔ اس کے باوجود چند دنوں میں اس نے زیرو لیول پر پڑی پارٹی کو اٹھا دیا۔ ایسی عوام رابطہ مہم چلائی کہ مبصرین دنگ رہ گئے۔ منگل کی شام کا افسوسناک واقعہ بھی خان کے حق میں ہمدردی کی زبردست لہر لے کر آیا ہے۔ مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے تھنک ٹینکس اس کا کائونٹر کرنے کے لیے جتے ہوں گے مگر جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ عمران خان نے زخمی حالت میں گفتگو کرتے ہوئے ایک بات تو درست کہی کہ وہ سترہ برس سے لڑ رہا ہے‘ جو اس سے بن پڑا اس نے کیا، اب وہ اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کر چکا، اگلے چند دن اسے بستر پر ہی گزارنے پڑیں گے۔ اب جو کرنا ہے وہ عوام نے کرنا ہے۔ اب باری عوام کی ہے۔ پس تحریر: بعض اخبارات اور سوشل میڈیا پر زیادہ تفصیل کے ساتھ اس حادثے کی تصاویر آئی ہیں جن میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ گارڈ کی وردی پہنے ایک تنومند شخص نے اپنی پشت سے خان کو دھکا دیا۔ کیا یہ حادثہ تھا یا سٹیٹس کو توڑنے اور ملک کو امریکی شکنجے سے نکالنے کے خواہاں ایک مقبول لیڈر کے خاتمے کی سازش؟ قومی اداروں کو اس کی تحقیق ضرور کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں