الیکشن2013 :ہر ایک کیلئے سبق موجود ہیں

الیکشن ہوگئے، نتائج بھی سب کے سامنے آ گئے، ہر ایک کے لیے ان میں سبق موجود ہیں۔ میڈیا، سیاستدان،سول سوسائٹی، عوامی حلقے اور انٹیلی جنشیا ، ان سب کے لیے ان میںکچھ نہ کچھ موجود ہے۔ ان سب پر بات ہونی چاہیے، جو نئے ٹرینڈز سامنے آئے ہیں، ان کا گہرائی سے تجزیہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک سیاستدانوں کا تعلق ہے، ہارنے والوں کو سبق مل چکا ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کوا ندازہ ہوگیا کہ بیڈ گورننس کا کیا انجام ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو بہت بڑا دھچکا پہنچا۔ وفاقی جماعت ہونے کی دعوے دار جماعت صرف ایک صوبے تک سمٹ گئی۔پنجاب میں جہاں پچھلے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی اچھی بھلی کارکردگی تھی، لاہور سے دو سیٹیں انہوں نے جیتی تھیں، مظفر گڑھ جیسے ضلع سے کلین سویپ کیا، رحیم یار خان کی چھ میں سے پانچ سیٹیں جیتیں۔ اس بار ایسا صفایا ہوا کہ پنجاب کی 148 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے صرف ایک ملی، وہ بھی مخدوم احمد محمود کی آبائی نشست ،جو وہ پچاس سال سے جیتتے آئے تھے۔ خیبرپختون خوا میں پچھلے پانچ سال وہ مخلوط حکومت میں رہے، بلوچستان میں وزیراعلیٰ ان کا تھا، ان دونوں صوبوں سے قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہیں ملی، صوبائی میں بھی برائے نام نمائندگی مل سکی۔ ایسی بری پوزیشن پیپلز پارٹی کے حصے میں کبھی نہیں آئی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد حقیقی معنوںمیں پیپلز پارٹی کی یہ پہلی آزمائش تھی کہ پچھلا الیکشن تو بی بی کے لہور نگ آنچل کے سائے تلے لڑا گیاتھا۔ اس آزمائش میں پیپلز پارٹی کی قیادت بری طرح ناکام ہوئی۔ یہ دراصل جناب زرداری صاحب کی حکمت عملیوں اور چالوں کی شکست ہے۔ انہوں نے پانچ سال تک اس ملک کو بدترین حکومت دی، کرپشن کے ریکارڈ توڑ دئیے گئے۔ بری حکومتیں پہلے بھی آتی رہیں، مگر اس درجہ بے حسی اور سفاکی کا مظاہرہ کم ہی نظر آیا،جیسا کہ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے پیش کیا۔پنجاب کو پچھلے ڈھائی تین برسوں میں خاص طور پر خوفناک لوڈ شیڈنگ کا نشانہ بنایا گیا، لاہور، گوجرانوالہ ،فیصل آباد جیسے شہر خاص نشانہ تھے۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں کے عوام سولہ سے بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ برداشت کر تے تھے۔ شاطرانہ چالوں اور جوڑ توڑ کے ذریعے حکومت چلائی جاتی رہی۔پیپلز پارٹی کی قیادت کا خیال تھا کہ پیسے اور جوڑ توڑ کے ذریعے الیکشن جیت لیا جائے گا۔ سب چالیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ الیکشن میں بھٹو ووٹ بینک کا بھی صفایا ہوگیا۔ بعض تجزیہ کار پچھلے تیس چالیس برسوں کے اعدادوشمار پیش کرتے تھے کہ بھٹو ووٹ اتنے فیصد تھا اور اب بھی اتنا ہوگا۔ ہمارے جیسے لکھنے والے بار بار یہ لکھتے رہے کہ اب معاملات مختلف ہوچکے ہیں۔ یہ ووٹ بینک اب ویسا نہیں،ا س میں عمران خان نے دراڑ یں ڈال دی ہیں، کچھ لوگ تو فرسٹریٹ ہو کر گھر ہی بیٹھے رہیں گے کہ ان کے لیے بھی پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کا دفاع ممکن نہیں تھا۔ لاہور اور پنجاب کے بیشتر علاقوں میںالیکشن کے اگلے روز پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی افسردگی اور ڈپریشن دیدنی تھا۔ان میں سے بیشتر حلقوں میں نہ صرف پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر آئی بلکہ بہت سی جگہوں پر ووٹ اتنے کم تھے کہ بلدیاتی انتخابات میں ایک کونسلر بھی اس سے زیادہ ووٹ لے جائے۔کم وبیش یہی حال خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ہوا۔ سندھ میں اگرچہ پیپلز پارٹی جیت گئی ،مگر اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں بیشتر حلقوں میں مناسب آپشن ہی موجود نہیں۔ اس کے باوجود کئی حلقوں میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دیکھنا پڑا۔ فنکشنل لیگ کے کئی امیدواروں نے ہارنے کے باوجود اتنے زیادہ ووٹ لئے ، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی تھی۔ اگر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اس بار بہتر کام نہ کیا تو اگلی مرتبہ سندھ بھی انہیں حیران کر دے گا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور ووٹروں کو اب سوچنا اور اپنی قیادت پر دبائوڈالنا ہوگا کہ چالیں اپنی جگہ ،مگر سیاست صرف اس کا نام نہیں،یہاں کچھ ڈیلیور بھی کرنا پڑتا ہے۔ عوام کے دل چالاکیوں سے نہیں، ہمدردانہ سوچ سے جیتے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو شاندار کامیابی مبارک ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں ایک ایسی لہر چلی ،جس نے انہیں غیر معمولی فائدہ پہنچایا۔مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کا بھی شکرگزار ہونا چاہیے کہ زرداری صاحب کی وجہ سے پنجاب کے عوام میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انہیں مسلم لیگ ن کا ساتھ دینا چاہیے۔ سنٹرل پنجاب سے لے کر جنوبی پنجاب تک ایک لہر میں ووٹروں نے ایسا ہی کیا۔ یہ لہر اتنی بڑی اور زبردست تھی کہ تحریک انصاف کا جادو بھی کارگر نہ ہوسکا۔ ویسے یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ بیشتر اخبارنویسوں نے ، جن میں یہ عاجز بھی شامل ہے ،مسلم لیگ ن کی اس لہر کا درست ادراک نہیں کیا۔ ہمیں یہ اندازہ تو تھا کہ مسلم لیگ ن سو کے قریب نشستیں لے گی ،مگر یہ معلوم نہ تھا کہ وہ لاہور،گوجرانوالہ، سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژن میں صفایا ہی کر دے گی۔ اس کی ایک وجہ تحریک انصاف کے غیرمعمولی بڑے جلسے اور شہروں میں ان کے کارکنوں کا بے پناہ جوش وخروش تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبر پختون خوا میںبھی تحریک انصاف کی یہی صورتحال تھی،مگر وہاں نتائج بھی ویسے ہی آئے۔ میں ایک ماہ پہلے پشاور گیا اور واپسی پر سب دوستوں کو بتایا کہ این اے ون پشاور سے عمران خان آسانی سے جیت جائے گا، کسی کو یقین نہیں آتا تھا ۔پھر ویسے ہی ہوا۔ البتہ پنجاب میں جو منظر دکھائی دے رہا تھا، عملاً اس سے مختلف ہوا۔ ویسے تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے بھی نجی محفلوں میں جب سائنٹفک بنیادوں پر حلقہ در حلقہ تجزیہ کرتے تو تحریک انصاف کو پچیس تیس سے چالیس تک نشستیں ہی دیتے تھے۔یہ البتہ اندازہ تھا کہ اگر عمران کے حق میں لہر چل گئی تو پچاس ساٹھ تک معاملہ جا سکتا ہے۔ لاہور کے تین حلقوں میں ہمیں تحریک انصاف کے جیتنے کی توقع تھی۔ ایک تووہ جیت گئی، دوسرے دو متنازع ہی رہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ شہری حلقوں کے نتائج دس بارہ بلکہ اٹھارہ گھنٹوں کے بعد دئیے جائیں۔ آخر کیا وجہ تھی لاہور کے ڈیڑھ درجن سے زیادہ پریزائیڈنگ افسروں کی گرفتاری کا حکم دینا پڑا؟پنڈی میں حنیف عباسی والے حلقے پر تو مذاق ہی بنا، چوبیس گھنٹوں کے بعد نتیجہ ، آخر کیوں؟اس قسم کے واقعات سے گریز کیا جاتا تو انتخابی عمل پر زیادہ اعتماد پیدا ہونا تھا۔ اس حوالے سے خاصا کچھ مزید لکھا جا سکتا ہے ،مگر یہ آج کا موضوع نہیں ۔ تاہم مسلم لیگ ن کی حیران کن جیت ایک حقیقت ہے ، اسے تسلیم کرنا چاہیے،دو چار حلقوں میں کچھ گڑبڑ ہو سکتی ہے،مگرسو سے زیادہ حلقوں میں تیس چالیس ہزار کے فرق سے جیت ایسے ممکن نہیں۔ مسلم لیگ ن نے بہتر انتخابی حکمت عملی سے میدان مارا۔ تحریک انصاف کی کمزوریاں اور غلطیاں بہت سی ہیں، اب ان پر تفصیل سے بات ہونی چاہیے کہ غلطیوں کی اصلاح ہی سے وہ مستقبل میں موثر کردار ادا کر سکے گی۔ تحریک انصاف نے بہت کچھ حاصل بھی کیا، وہ اپوزیشن کی اہم ترین جماعت بن کر ابھری، اگر مسلم لیگ ن نے خیبر پختون خوا میں ان کا مینڈیٹ چرانے کی تباہ کن غلطی نہ کی تو وہاں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت بنے گی۔رائیٹ کی ان دونوں جماعتوں کے پاس اچھا موقع ہوگا کہ وہ ڈیلیور کر کے دکھائیںتاکہ مستقبل میں وہ صرف خواب دکھانے کے بجائے عملی حقیقتوں پر بات کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں