ووٹرکا مذاق مت اڑائیں

برطانوی فیلڈ مارشل منٹگمری نے کہا تھا،’’جنگ دو کنفیوز فریقوں کے درمیان لڑائی کا نام ہے ، جو کم کنفیوز ہوتا ہے ، وہ جیت جاتا ہے۔ ‘‘یہی بات انتخابات کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے۔ انتخابی اور سیاسی عمل کے تین مرحلے ہیں۔ پری الیکشن، الیکشن ڈے اور پوسٹ الیکشن انالیسز۔ الیکشن کی شام فتح وشکست کا فیصلہ ہونے کے باوجودسیاسی جماعتوں کاسفر مگر جاری رہتا ہے ۔جنگ کی طرح سیاست کا ہنڈولا کبھی اوپر کبھی نیچے ہوتا رہتا ہے۔سنبھلنے، واپس لوٹنے اور غلطیاں سدھارنے کے مواقع ہر ایک کے پاس ہیں۔ما سوائے ان جماعتوں کے جواپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کو الزام دیں۔اے این پی، پی پی پی کا واویلا بلاجواز ہے، اپنے کئے کی سزا انہوں نے پائی۔ مولانا صاحب اپنے حصے سے زیادہ لے چکے ہیں۔سیاسی چالبازی نہیں، حرص وطمع سے گریز حقیقی دانشمندی ہے۔ تحریک انصاف کے حوالے سے آئندہ کسی نشست میں انشاء اللہ تفصیل سے لکھوں گا۔ سردست اتنا کہ انہیں بھی اپنی غلطیوں کا ادراک کرنا چاہیے۔مجھے خدشہ ہے کہ دھاندلی کے الزامات کی بوچھاڑ میں ان کا خودااحتسابی کا عمل ادھورا رہ جائے گا۔انہیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پنجاب کا محاذ فتح کرنے کے لئے جس قدر قوت اور توانائی چاہیے تھی، اس کا مظاہر ہ نہیں ہوسکا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ پری الیکشن مرحلے میںعمران خان نے پہاڑ سی غلطیاں کیں۔ انتخابی عمل میں بڑی دیر سے داخل ہوئے، پندرہ روز پہلے تک امیدواروں کو یہ علم نہیں تھا کہ انہیں الیکشن لڑنا ہے یا نہیں؟پھر بہت سی جگہوں پر امیدوار چنتے ہوئے کئی اہم چیزیں نظر انداز کیں ۔چھوٹی موٹی نہیں بلکہ فاش غلطیاں ۔ کئی نشستوں پر نہایت کمزور امیدوار چنے گئے ،پارلیمانی بورڈ نے دانستہ یانادانستہ اچھے امیدوار نظر انداز کئے۔گوجرانوالہ اور سنٹرل پنجاب کی کئی ٹکٹوں کے حوالے سے پارٹی کے بعض صوبائی لیڈروں پر پیسے لینے کے الزامات لگائے گئے، فاروق عالم انصاری نے تو اس پر پورامضمون لکھ ڈالا۔اب اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ لاہور کی انتخابی سیاست کو جاننے والا ہر آدمی متفق تھا کہ عمران خان کو این اے126سے الیکشن لڑنا چاہیے کہ 122میں برادریوں کا خاصا زور ہے اور ایاز صادق وہاںسخت حریف ثابت ہوں گے۔اس کے برعکس کیوں ہوا؟ شیخوپورہ، فیصل آباد اور سرگودھاوغیرہ میں بہتر امیدوار مل سکتے تھے۔بہاولپور ڈویژن میں عجیب وغریب حکمت عملی اپنائی گئی۔کوئی بتا سکتا ہے کہ نواب بہاولپور سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہوا؟ضلع رحیم یارخان میںکمزور ترین امیدوار لئے گئے ،نتائج ویسے ہی آنے تھے۔ ڈی جی خان میں ایک غیرمعروف خاتون کو اچانک ہی دریافت کر کے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا گیا۔ بیشتر حلقوں میں صرف عمران خان کے نام کے ووٹ پڑے، امیدوار کا اس میں حصہ دس فیصد سے بھی کم رہا۔ جہاں امیدوار بہترتھے، وہاں مقابلہ کلوز گیا۔ الیکشن ڈے پر بھی بہت سے امیدوار کسی معجزے کے انتظار میں رہے۔ بہت سے جگہوں پر تحریک انصاف کے پولنگ ایجنٹ ہی نہیں پہنچے۔ کسی دیہی پولنگ اسٹیشن پر اگر پولنگ ایجنٹ نہ ہو تو ڈبوں میں اس امیدوار کے ووٹ نہیں نکلتے۔ اب جبکہ دھند چھٹ چکی ہے،انتخابی مہم کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اپنی طوفانی مہم سے پارٹی کو ڈیڈ لیول سے اٹھا کر کھڑا کر دیا۔ تاہم اپنے جوش وخروش میں کہیں کہیں وہ سخت الفاظ استعمال کرتے رہے۔ بلے سے پھینٹا لگانا جیسے الفاظ غیر شائستہ اور ضرورت سے زیادہ جارحیت لئے ہوئے تھے۔سنجیدہ حلقوں نے اسے ناپسند کیا۔یہ حقیقت اب آشکار ہوچکی کہ دیہی علاقوں تک پیغام نہیں پہنچا ۔ دیہی ووٹر تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ شہروں میں بھی تاجر اور دکاندار برادری کی اکثریت مسلم لیگ ن کے ساتھ گئی۔ تحریک انصاف کی انتخابی حکمت عملی لاہور، فیصل آباد ، گوجرانوالہ اور سرگودھا کے شہری ووٹر کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے کافی نہیں تھی۔ جنوبی پنجاب میں البتہ شہری ووٹ نے کچھ حد تک تحریک کا ساتھ دیا۔ ملتان سے دونوں شہری سیٹیں تحریک انصاف نے جیت لیں۔ ڈی جی خان اور رحیم یار خان شہر میں کمزور امیدواروں کے باوجود ووٹ پڑے۔ ناکامی کی وجہ محض دھاندلی ہرگز نہیں۔یہ دو چار نشستوں پر ہوسکتی ہے، بعض حلقوں میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوئی ،مگر بیشترجگہوں پر نشستیں تیس چالیس ہزار کے فرق سے ہاری گئیں۔ اتنی بڑی دھاندلی ممکن نہیں۔ وہاں تحریک انصاف اپنی شکست کی خود ذمہ دار ہے۔ مسلم لیگ ن اور ان کے حامی لکھاریوں کو بھی فتح کے نشے میں بنیادی حقائق فراموش نہیں کرنے چاہئیں۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ مسلسل تحریک انصاف کے ووٹرز کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے ،جیسے یہ سب ممی ڈیڈی کلاس کے برگر نوجوان ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اپر کلاس کے نوجوان اور خوشحال فیملیز ووٹ ڈالنے آئیں تو یہ خوش آئندعلامت ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے اپنے طرز سیاست سے کئی طبقوں کو ناراض اور مایوس کر دیا تھا۔ تحریک انصاف نے کم از کم ان کو دوبارہ متحرک کر کے سیاسی عمل میں شامل تو کیا ہے۔ پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ان لوگوں کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں، یہ لوگ اپنے سے کم وسائل رکھنے والوں کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ برگر کلاس تحریک انصاف کے ووٹ بینک کا صرف پانچ دس فیصد ہی ہے۔ بنیادی طور پر مڈل کلاس ، لوئر مڈل کلاس اور نچلے طبقات کے نوجوانوں نے انہیں ووٹ ڈالا ہے۔ تحریک انصاف نے لاہور میں سات لاکھ ووٹ لئے ہیں۔ برگر کلاس تو کسی بھی شہر میں چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی ،ظاہر ہے باقی ووٹ لوئر مڈل اور لوئر کلاس کے ہوں گے۔عمران خان کے حلقے میں برگر کلاس موجود ہی نہیں، وہاں سے انہوں نے 85ہزار ووٹ لئے۔ اندرون لاہور میں نواز شریف کے گڑھ سے ڈاکٹر یاسمین راشد نے 52ہزار ووٹ لئے ہیں، اندرون شہر کی گلیوں میں تو برگر کلاس نہیں آسکتی۔ اس طرح اس کے ساتھ والے حلقے سے حماد اظہر نے 70ہزار کے قریب ووٹ لئے ، یہ لوگ کیا مریخ سے وارد ہوئے تھے؟ اسی طرح ملتان کے دونوں شہری حلقوں سے جاوید ہاشمی نے 83ہزار اور شاہ محمود قریشی نے92ہزار ووٹ لئے،لودھراں سے جہانگیر ترین نے پچھترہزار،وہاڑی کے ایک حلقے سے تحریک انصاف کو 80ہزار ووٹ لئے۔ خود میانوالی جیسے علاقے کی دونوں نشستوں سے پی ٹی آئی کو ایک ایک لاکھ سے اوپر ووٹ ملے۔مجھے حیرت ہے کہ کراچی کے نتائج کا کسی نے تجزیہ ہی نہیں کیا۔وہاں این اے 256سے پی ٹی آئی کو 68ہزار، حلقہ 253سے 59ہزار ،حلقہ 245سے55ہزار،جبکہ 252سے 50ہزار کے قریب ووٹ ملے، این اے 239کی نشست انہوں نے ایم کیوایم سے صرف پانچ ہزار ووٹ سے ہاری۔ تقریباً تمام حلقوں میں دوسرے نمبر پر آنے والا امیدوار تحریک انصاف کا رہا۔تحریک انصاف کے مخالفین کو ان پر تنقید کا حق حاصل ہے ،مگر یہ حقیقت انہیں تسلیم کرنی ہوگی کہ اس جماعت نے پاکستانی سیاست پر چھایا جمود توڑا ہے ۔ اگر چہ مسلم لیگ ن ان سے زیادہ لوگوں تک پہنچی، زیادہ مضبوط اور تجربہ کار امیدواروں، بہتر انتخابی حکمت عملی کا ایڈوانٹیج انہیں حاصل تھا۔میدان ن لیگ نے مارا، مگر تحریک انصاف کو جو ووٹ ملے ،و ہ بھی آج کی حقیقت ہے۔ ن لیگ کے حامی اس ووٹ بنک کو اپنی طرف کھینچنے کی تدبیر کرے، اس کی تذلیل تو نہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں