تحریکِ انصاف کو اب پرفارم کرنا ہوگا

پی ٹی آئی نے انتخابات میں جو ہلچل مچائی، ملکی نظام کو جس طرح جھنجھوڑا اور جمود توڑنے کی کوشش کی، اس پر بہت تفصیل سے بات ہوسکتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ اصل سوال مگر یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف اس ٹیمپو کو برقرار رکھ سکے گی؟ جو سپورٹ بیس اسے حاصل ہوئی، ایک خاص حوالے سے جو کامیابی اس نے سمیٹی ، اگلے انتخابات میں اسے دہرایا جا سکے گا؟ لوئر مڈل کلاس، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے پڑھے لکھے لوگ، پروفیشنلز باہر نکلے اور اپنے ملک کا نظام بدلنے کے لئے بذریعہ بیلٹ اپنا حصہ ڈالا۔ کیا یہ سب لوگ آنے والے برسوں میں تحریک انصاف کے ساتھ اسی طرح جڑے رہیں گے؟یہ وہ سوال ہیں ،جو تحریک انصاف کے حامیوں ، ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں اور ان کو سیاسی کلچر کے لئے مفید سمجھنے والوں کے ساتھ مخالفوں کے ذہنوں میں بھی گردش کر رہے ہیں۔ دو دن پہلے دانشوروں کی ایک محفل میں الیکشن اور اس کے نتائج پر تفصیلی ڈسکشن ہوئی۔ بعد میں غیر رسمی گفتگو کے دوران تین چار سنجیدہ تجزیہ کار اس پرزور دیتے رہے کہ موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کو خیبر پختون خوا میں حکومت نہیں بنانی چاہیے۔ ان کو بھرپور اکثریت حاصل نہیں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت چلانا مشکل ہوگا۔ ان لوگوں کے خیال میں پی ٹی آئی کو وہاں اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے تاکہ اگلی بار وہ بہتر کردار ادا کر سکیں۔ یہ رائے اور بھی کئی جگہ سنی ،مجھے اندازہ ہوا کہ ایک اچھا خاصا حلقہ اس رائے کا حامی ہے ۔ انہیں اندازہ ہے کہ خیبر پی کے میں چیلنجز کس نوعیت کے ہیں اور خدشہ ہے کہ تحریک انصاف ان کو حل نہیں کر سکے گی اور یوں بری طرح ناکام ہوجائے گی۔ میں اس پر سوچتا رہا، سچی بات تو یہ ہے کہ اسے یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت چلانا کبھی آسان نہیں رہا، خاص کر جب آزاد ارکان اسمبلی بھی موجود ہوں۔ پھر تحریک انصاف کے بیشتر ارکان بالکل نئے ہیں، ان کا حکومت کا کوئی تجربہ نہیں ہے‘ ایسے میں ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ سب زمینی حقائق ہیں۔ بات مگر یہ ہے کہ کوئی فرد ہویا جماعت اگر وہ چیلنجز سے گھبرا کر پیچھے ہٹ جائے تو اسے آگے بڑھنے اور لیڈکرنے کا کوئی حق نہیں۔ تحریک انصاف کے پاس پیچھے ہٹنے کی کوئی جگہ نہیں۔ خیبر پی کے میں عوام نے جس خوش دلی اور جوش وخروش کے ساتھ انہیں ووٹ دیا،صوبے کے چاروں سیاسی حصوں (پشاور ویلی، جنوبی اضلاع، مالا کنڈ اور ہزارہ) ہر جگہ سے انہیں نشستیں ملیں۔ صوبے کے سیاسی مرکز پشاور سے تو تحریک انصاف نے صفایا کر ڈالا۔ نتائج یہ بتاتے ہیں کہ صوبے کے عوام کی اکثریت تحریک انصاف کو حکومت کا حق سونپنا چاہتی ہے۔ اس کا وہی ریسپانس بنتا تھا ،جو عمران خان نے دیا ۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور شیر پائو صاحب کی قومی وطن پارٹی کااتحاد کوئی بے جوڑ اتحاد نہیں۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں تو خاصی باتیں مشترک ہیں، شیرپائو گروپ بھی بدنام نہیں۔ بعض حلقوں نے جناب پرویز خٹک کے وزیراعلیٰ بننے پر اعتراض کیا ہے۔ ان کے خیال میں اسد قیصر کو وزیراعلیٰ بنناچاہیے تھا کہ وہ نسبتاً زیادہ نیک نام اور طویل عرصے سے تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ خٹک صاحب روایتی سیاستدان ہونے کا تاثر رکھتے ہیں، دو تین جماعتیں وہ بدل چکے ہیں اور کچھ عرصہ قبل ہی تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ میں ان دونوں صاحبان سے ناواقف ہوں، کوئی رسمی ملاقات بھی نہیں ہوئی، تاہم مجھے بھی بظاہراسد قیصر زیادہ موزوں امیدوار دکھائی دیتے تھے۔ اگلے روز مجیب الرحمن شامی صاحب نے ایک ایسا واقعہ سنایا جس نے پرویز خٹک کے بارے میں رائے تبدیل کر دی۔شامی صاحب کہنے لگے،’’ پرویز خٹک ایم پی اے تھے، انہی دنوں خیبر پی کے اسمبلی نے سینٹ کے ارکان منتخب کرنے تھے۔ ایک صاحب نے ہر ایم پی اے کے ووٹ کے عوض پانچ پانچ کروڑ کی بولی لگا رکھی تھی۔ انہوں نے کسی سے پرویز خٹک کو ووٹ دینے کے لئے کہلوایا۔ خٹک صاحب کا جواب تھا کہ موصوف ایک ووٹ کے بدلے پانچ کروڑ دے رہے ہیں، اگر میں نے انہیں ووٹ دیا تو ہر کوئی یہی سمجھے گا کہ میں بھی بک گیا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ تمام عمر اس الزام کی صفائی پیش کرتا رہوں، مجھے پانچ کروڑ کی ضرورت نہیں ، اپنی نیک نامی عزیز ہے۔ ‘‘خٹک صاحب کے بارے میں بیان کیا گیا یہ واقعہ اگر درست ہے توپھر پی ٹی آئی نے کوئی براانتخاب نہیں کیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ خٹک صاحب خاصے تجربہ کار ہیں، وزیر بھی رہ چکے ہیں، پھر اتحادیوں کے ساتھ چلنے کے لئے دھیمے مزاج کا پختہ کار شخص ہی سوٹ کرتا ہے۔ تاہم ان کے بارے میں اصل رائے ابھی نہیں، کچھ عرصے کے بعد دی جا سکتی ہے، بلکہ ان کی کارکردگی ہی ان کے بارے میںحقیقی رائے بنائے گی۔ خیبر پختون خوا کو رول ماڈل بنانا تحریک انصاف کی ضرورت ہی نہیں مجبوری بھی ہے۔ عمران خان نے عوام سے جو وعدے کئے، ان کی ایک جھلک اس صوبے کی حکمرانی میں بھی نظر آنی چاہیے تھی۔ ہمارے خیال میں عمران خان کو این اے ون پشاور کی نشست اپنے پاس رکھنی چاہیے تھی۔اخباری اطلاعات کے مطابق تو وہ پنڈی اپنے پاس رکھ کر پشاور اور میانوالی کی نشستیں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک غلطی ہوگی۔ عمران خان کا تعلق پنجاب سے ہے، مگر چھوٹے صوبے نے انہیں عزت بخشی اور ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ عمران خان کو پشاور کی نشست رکھ کر پشاور کو اپنا بیس کیمپ بنانا چاہیے۔ وہ چھوٹے صوبے میں رہ کر فیڈریشن کی سیاست کر نے کے ساتھ ساتھ اپنی صوبائی حکومت پر چیک رکھ سکتے ہیں۔ کرپشن وہاں کا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ اس پر کسی صورت کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔ عمران خان کو وہاں صوبائی کابینہ کی تشکیل میں خود دلچسپی لینا چاہیے، صاف ستھرے بے داغ لوگ لئے جائیں۔ حکومت بننے کے ابتدائی دنوںمیں تحریک انصاف کے ایجنڈے کی روشنی میں اعلانات ہونے چاہئیں۔یہ سب کچھ عمران خان کی منظوری سے ہونا چاہیے۔ ان اصطلاحات کی نگرانی وہ خود کریں۔ اس کے لئے کوئی میکنزم وضع کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے ذرائع سے دو تین خبریں چل رہی ہیں۔ پہلے تین مہینوں میں بلدیاتی انتخابات کرانا اور ڈاکٹر عطاالرحمن کو صوبے میں تعلیم کے حوالے سے مشیر بنانا۔ یہ دونوں باتیں اگر درست ہیں تو خوش آئند ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے بارے میں عمران خان کا ایک خاص وژن ہے، اب اس کے بروئے کار لانے کا وقت آ گیا ہے۔تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے حوالے سے صوبائی حکومت کو انقلابی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اغوا برائے تاوان ، لااینڈ آرڈراور صوبے کے بہت سے علاقوں میںانفراسٹرکچر کا نہ ہونا بھی اہم مسائل ہیں۔ تحریک انصاف کے لئے مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ بدترین صوبائی حکومت کے بعد آئی ہے ۔ کرپشن کم ہونے اور کارکردگی تھوڑی سی بہتر ہونے سے لوگوں کو خاصا فرق محسوس ہوگا۔ عمران خان کو یاد رکھنا ہوگاکہ خیبر پختون خواکی حکومت کسی قومی جماعت کی صوبائی تنظیم کی حکومت نہیں بلکہ یہ تحریک انصاف کے نظریے ، سوچ اور فکر کا امتحان ہے۔ اس کی کامیابی اور ناکامی دونوں کے اثرات عمران خان پر براہ راست پڑیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں