زمانہ بدل گیا

چند ماہ پہلے ایک معروف ماہر تعمیرات کا انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں اور بھی کئی کارآمد باتیں تھیں، مگر ایک نقطہ خاص طور پراہم تھا۔ ان کا کہنا تھا،’’ کسی بھی شہر کواپنی تہذیب کا عکاس ہونا چاہیے۔ کوئی اجنبی سیاح اس شہر میں آئے تو اسے وہاں کی عمارتوں، گھر، لوگوں کے لباس اورکھانے پینے کی اشیاء سے اس علاقے کی تہذیب کا اندازہ ہوسکے۔ اس کی جڑوں، ماضی سے تعلق کو جاننا اس غیر ملکی کے لئے ممکن ہوسکے۔ اس کے برعکس آج کل ہر جدید شہر ایک خاص سانچے میں ڈھلے نظر آتے ہیں۔ مخصوص انداز کی عمارتیں، ویسا ہی رہن سہن اور کلچر ، حتیٰ کہ کھانے پینا تک ایک سا ہے۔ کسی بھی چیز سے اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ شہر کس خطے کا ہے۔‘‘ ماہرین تو خیر تکنیکی انداز میںچیزوں کودیکھتے ہیں، ان علمی بحثوں سے قطع نظر یہ تو خیر حقیقت ہے کہ جن شہروں اور قصبات میںآج کل ہم رہتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے ان میں ایسی تبدیلیاں آ گئی ہیںجن کا چند سال پہلے تصور بھی محال ہے۔ ہمارا لائف سٹائل ہی یکسر بدل گیا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے گرم میدانی علاقوں میں سال کے کئی ماہ تکلیف دہ گزرتے ہیں،مئی ،جون (جیٹھ، ہاڑ)میں آگ برستی اور جھلسادینے والی لُو چلتی ہے، ساون، بھادوں (جولائی، اگست) کے مہینوںمیں جان لیوا قسم کی حبس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرائیکی بیلٹ کے کئی شہر چولستان اور تھل کے صحرائوں کے ساتھ واقع ہیں، وہاںریتلی لُو چلتی ہے، جو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً جلد چھلنی کر دیتی ہے، اگر چہرہ رومال یا کسی کپڑے سے ڈھانپ کر نہ نکلا جائے تو چہرے کی جلد تڑخ جائے۔ پگڑی کا رواج اسی لئے دنیا کے ہر ریتلے علاقے میں ہے، اس کی موٹی تہہ سر کو دھوپ کی براہ راست تمازت سے بچاتی اور اس کے پلو سے بوقت ضرورت چہرہ ، گردن اور گدی کا حصہ ڈھانپا جا سکتا ہے۔ ہماری نسل نے پگڑی کو خیر باد کہا، مگر ہم سے چند سال چھوٹی نسل نے تو سب کچھ ہی بدل ڈالا۔ سر پر کپڑا لینے کے بجائے امریکی ساخت کی بیس بال کیپ مزے سے لی ہوتی ہے۔ کبھی سمجھ نہیں آئی کہ گرم موسم میں یہ ٹوپی کیا کام دے سکتی ہے؟ ہمارے ہاں گرم لو اور تیز دھوپ میں سن سٹروک کا خطرہ رہتا ہے، یہ ٹوپی آنکھوں میں آنے والی دھوپ تو روکتی ہے، مگر کھوپڑی کا پچھلا حصہ اور گدی ویسے ہی دھوپ کا نشانہ بنی رہتی ہے۔ چند دن پہلے ایک دوست نے کسی انگریز مصنف کا دلچسپ فقرہ ٹیکسٹ کیا۔ گورارائٹر لکھتا ہے ’’انگریزوں نے ہندوستان میں دو چیزیں متعارف کرائیں، بوٹ اور ہیٹ۔ بوٹ یہاں کے لئے نامناسب ہے، اس لئے کہ اس کے تسمے بار بار کھولنے اور باندھنے پڑتے ہیں، نماز پڑھنے والے زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ ہیٹ یہاں کی دھوپ کے لئے زیادہ موزوں اور سازگار تھا۔ سولر ہیٹ خاص طور پر ہندوستان کی دھوپ سے بچا سکتا ہے ۔ آپ لوگوںکو داد دینی پڑتی ہے کہ ہیٹ کو خیربادکہہ ڈالا، بوٹ کو اپنا لیا۔‘‘ بات صرف سر کے پہناوے کی نہیں، لباس اور وضع قطع بھی ہمارے موسم اور زمینی حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کرتہ شلوار ہمارے خطے کا روایتی لباس پسپائی اختیار کر چکا ہے۔ ہر جگہ نوجوانوں میں جینز، شرٹ یا ڈریس پینٹ شرٹ نظر آتی ہے۔ ان سطور کے راقم کو بھی استثنائی کیس کا دعویٰ نہیں۔ مقصد اس جانب توجہ دلانا ہے کہ کس طرح غیر محسوس انداز میں ہمارے اندر تبدیلی لائی جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تبدیلی شعوری ہے، مگر ایسا ہوتا نہیں۔ میڈیا کے پرکشش جگمگاتے اشتہارات کے ذریعے سوچنے کا انداز بدلا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ والدمرحوم سینئر ایڈووکیٹ تھے، وہ عدالت سے گھر واپس آکر ململ کا کرتہ اور چار خانے والی روایتی لنگی یا چادر زیب تن کرتے۔ وہی نہیں ،ہمارے آس پاس کے سب گھروں میں ان کے ایج گروپ کا یہی لباس تھا۔گرم موسم میں چادر، تہہ بند یا لنگی کی افادیت کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ میری اور میرے بعد کے نوجوانوں کی بہت بڑی اکثریت نے’’ اتفاق رائے‘‘ سے اس لباس کو مسترد کر دیا۔ آج کل کسی گائوں میں یہ لباس استعمال ہوتا ہوگا، مگر شہر اور قصبات اس سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ ہمیں لنگی آئوٹ آف ڈیٹ لگتی اور اسے پہن کر پینڈو پن محسوس ہوتا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ہر ٹی وی ڈرامے میں یہ لباس صرف پینڈئوں اورنسبتاً پسماندہ لوگوں کے لئے استعمال ہوتا۔ میں نے کسی ڈرامے میں پڑھے لکھے شخص ، اعلیٰ پروفیشنل یا علاقے کے معزز شخص کو لنگی کرتہ پہنے نہیں دیکھا۔ یہ ثقافتی احساس کمتری صرف پنجاب کے لکھاریوں میں تھا، سندھی ، بلوچ اور پشتو ڈراموں میں وہاں کاروایتی لباس اور کلچربڑی خوبصورتی سے دکھایا جاتا۔ تبدیلی کی اس لہر نے ہمارے طرزرہائش کو بری طرح متاثر کیا۔ پرانے مکانات میں اونچی اونچی چھتیں، کھلے کھلے دالان اور کشادہ صحن لازمی تھے۔ ہر کمرے میں روشن دان ہوتے اور ہوا کے آمد ورفت کی مناسب جگہ رکھی جاتی۔ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی پھلدار درخت لازمی ہوتا،جس کی چھائوں میں چارپائیاں ڈال کر خاصا وقت گزارا جاتا۔ آج تنگ فلیٹ، بغیر صحن کے ڈبہ نما کمروں پر مشتمل گھروں کا رواج عام ہوگیا۔ یہ درست کہ بڑے شہروں میں زمین کا قیمتی ہونا اور جگہ کی کمی بھی ایک وجہ ہے، مگر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں جدید طرز کے مکان بنائے بغیر وہ ماڈرن اور باعزت نہیں کہلا سکتے۔ اس لہر نے کھانے پینے کی عادتوں کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ ہمارے روایتی مشروبات بھی شکست کھا کر پیچھے رہ گئے۔لسی کا رواج اب دیہات میں بھی کم ہورہا ہے، وہاں بھی چائے نے قبضہ جمالیا۔ لاہور میں دودھ دہی کی میٹھی مزے دار لسی کی دکانیں تو بہت ہیںمگر روایتی نمکین لسی(چھاچھ) نایاب ہے۔ اکا دکا کہیں ریڑھی نظر بھی آجائے تو اس کے برتنوں اور مٹکے کی صفائی کی حالت ایسی نہیںہوتی کہ پی جا سکے۔پہلے گھروں میں رواج تھا کہ لو کے دنوں میں فالسے یا کیری کا شربت بنایا جائے۔ یہ شربت ذائقہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت مفید ہوتے ہیں۔ آج کل کی دلہنیں ایسے کاموں میں ہاتھ ہی نہیں ڈالتیں، یہ کام والدہ اور نانی دادی کی نسلوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے۔ مجھے یاد ہے کہ گرمیوں کی شاموں میں ہم بھائی پہلے صحن میں پانی کا چھڑکائو کرتے، پھر چارپائیاں باہر نکال کر بچھائی جاتیں، اس کے بعد بڑے سے کونڈے میں ،سرائیکی میں اسے دوری کہتے ہیں، اس سے بادام کوٹ کر سردائی بنائی جاتی۔خشخاش وغیرہ بھی ڈالے جاتے، اسی طرح لیموں والی نمکین سکنجبین روز کا معمول تھی۔ اب تو یہ سب باتیں ہوا ہوئیں۔ آج کل تو ہر طرف کولا بوتلیں ہی نظر آتی ہیں، ان میں شوگر کے ساتھ انرجی تو ہوتی ہے ،مگر جلد ہی اس کا اثر زائل ہوجاتا ہے ، جبکہ نمکین شربت کی بدولت نمک جسم میں رہتا ہے ،جو پانی کا اخراج زیادہ نہیں ہونے دیتا۔ یوں ڈی ہائیڈریشن نہیں ہوپاتی۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے زمانے کی بہت سی چیزیں ہمارے بچوں تک پہنچ ہی نہیں پائیں۔ جو ثقافتی ورثہ اور اپنی جڑوں سے ہم آہنگ طرز زندگی ہم تک پہنچا، وہ ہم نے آگے منتقل ہی نہیں کیا۔ درست کہ زمانہ بدل گیا، خاصا کچھ متروک ہوگیا، مگر بہت کچھ ایسا بھی تھا جو نئے زمانے میں بھی اتنا ہی متعلق اور اہم ہے۔ ویسے تو ان باتوں کا کیا رونا کہ اب ہمارا زیادہ اہم ورثہ … ہماری اخلاقی قدریں بھی ایک ایک کر کے ختم کی جا رہی ہیں۔ اس پر مگر پھر کبھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں