کہانی ختم ہوئی؟

انتخابات میںفتح اور شکست سیاسی جماعتوں کے لئے نئی بات نہیں۔کبھی ایک الیکشن میں شکست خوردہ جماعت اگلی بار فتح یاب ہوجاتی ہے تو ایسا بھی ہوا کہ بھاری اکثریت سے جیتی کسی جماعت کا اگلی مرتبہ صفایا ہوگیا۔ جماعت اسلامی اس الیکشن کی شکست خوردہ جماعت ہے،اگرچہ اس کی شکست کا حقیقی اندازہ ان کی حاصل کردہ نشستوں سے نہیںلگایا جا سکتا۔کہنے کو تو انہیں قومی اسمبلی میں تین نشستیں ملیں ، ایک مخصوص نشست کے ساتھ یہ چار ہوگئیں۔ بظاہر یہ کئی جماعتوں سے بہتر کارکردگی ہے۔ اے این پی جیسی جماعت کے حصے میں صرف ایک سیٹ آئی ، مسلم لیگ ق جس کے پاس پچھلی بار چالیس سے زائد نشستیں تھیں، اب ان کے توشہ خانے میں صرف دوہی سیٹیںہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی چھ اور پختون خواملی عوامی پارٹی کی چار،جبکہ نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کے حصے میں صرف ایک ایک نشست آ سکی۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ سب علاقائی پارٹیاں ہیں، جبکہ جماعت اسلامی ایک قومی جماعت سمجھی جاتی رہی، جس کا دو تین صوبوںمیں اثرورسوخ بھی تھا ۔ اس الیکشن نے جہاں پیپلزپارٹی جیسی قومی جماعت کو سندھ کی علاقائی پارٹی بنا دیا، وہاں جماعت اسلامی کو بھی ایک بھونچال کی سی کیفیت سے دوچار کیا۔ جماعت کے ووٹ بینک کا نہ صرف صفایا ہوگیابلکہ ان کے بہت سے امیدواروں کی ضمانت بھی ضبط ہوئی۔پنجاب میں عرصے بعد جماعت اسلامی غیر متعلق (Irrelevent) ہوئی ہے۔ لاہور میں جماعت کے اہم لیڈروں کا جو حال ہوا ، اس کا اندازہ انتخابی نتائج پر نظر ڈالنے سے کیا جا سکتا ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے121سے فرید احمد پراچہ نے تین ہزار سے کم ووٹ لئے، این اے 120سے حافظ سلمان بٹ نے 953ووٹ حاصل کئے، این اے 126سے ،جہاں جماعت کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ انتخاب لڑ رہے تھے، انہیں 3226ووٹ ملے ،یعنی سوا تین ہزار سے بھی کم ۔اس سے دگنے تگنے ووٹ تو بلدیاتی انتخابات میں عام کونسلر لے جاتا ہے۔ وا ضح رہے جماعت اسلامی ،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ مذاکرات میں انہی سیٹوں کی خواہشمند تھی، خاص کر لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ والی سیٹ کے بارے میں ان کا یہی تصور تھا کہ یہاں وہ مضبوط پوزیشن میں ہیں۔صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا دانستہ حوالہ نہیں دیا کہ وہاں اس سے بھی ابتر حالات ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور کی شہری نشستوں پر خاصے برے نتائج آئے ؛البتہ قدرے دیہی نشستوں پر پوزیشن قدرے بہتر رہی۔ ظہور وٹو نے این اے 128سے ساڑھے نو ہزار کے قریب اور چودھری منظور حسین نے این اے 130سے ساڑھے آٹھ ہزار کے لگ بھگ ووٹ لئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ان امیدواروں کا ذاتی یا برادری کا اثرورسوخ کارفرما تھا۔ گوجرانوالہ کی دو نوں شہری نشستوں پربہت بری پوزیشن رہی۔ ایک پر تین ہزار سے کم اور دوسری پر ساڑھے تین ہزار ووٹ ملے۔ کم وبیش یہی حال فیصل آباد کی شہری نشستو ں پر ہوا۔ پنجاب سے جماعت اسلامی کو ایک صوبائی نشست ملی ،وہ بھی بہاولپور کی شہری نشست سے ،یہ مسلم لیگ ن کے ایم این اے بلیغ الرحمن سے سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا نتیجہ تھی۔ بلیغ الرحمن سے تعاون کے نتیجے میں امیر صوبہ ڈاکٹر وسیم اختر ایم پی اے بن گئے ۔ کراچی سے جماعت اسلامی نے کم وبیش وہی ووٹ لئے ،جو پچھلے انتخابات میں وہ لیتی رہی، اگرچہ دوپہر کو اس نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا، معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ووٹروں نے اپنا ارادہ تبدیل نہیں کیا۔ کراچی میں کئی نشستوں پر جماعت کے امیدواردس جماعتی اتحاد کی حمایت سے لڑ رہے تھے، جن میں جے یوپی نورانی اور مسلم لیگ بھی شامل تھی۔ کراچی اور لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر شہروں میں جماعت اسلامی کے بیشتر ووٹ بینک کو تحریک انصاف لے اڑی۔ کراچی میںتحریک انصاف دوسری اہم جماعت بن کر ابھری ،جس نے ایک سیٹ جیتی ، دوسری تین چار ہزار ووٹوں سے ہاری اور بعض نشستوں پر ساٹھ ستر ہزار کے قریب ووٹ لے کر ہر ایک کو حیران کر دیا۔ یہی صورتحال پشاور میں پیش آئی، وہاںپی ٹی آئی نے سوئیپ کیا جبکہ جماعت اسلامی زیادہ تر چوتھے نمبر پر رہی۔ جماعت کو ضلع دیراور بونیر سے کامیابیاں ملیں۔ دیر ان کا مضبوط مستقر بنا اور اسی نے جماعت کا بھرم رکھ لیا۔ یوں لگ رہا ہے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصے کی تاریخ رکھنے والی جماعت کے پی کے کے ایک دو اضلاع تک محدود ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی کی کہانی ختم ہوئی؟ کیا وہ بتدریج تحلیل ہو رہی ہے،خاکسارتحریک اور مجلس احرار کی طرح اس کا صرف نام رہ جائے گا؟ ہمارے خیال میں اصل سوال دوسرا ہے۔ چند دن پہلے ایک گوریلا لیڈر کی جدوجہد کی کہانی پڑ ھی ۔ ایک وقت آیا ،جب وہ بری طرح گھر چکا تھا، ایسے میں ایک ساتھی نے پوچھا کہ اب کیا ہوگا؟مضبوط لہجے میں کمانڈر نے جواب دیا، ہمارے پاس تین دن کا ایمونیشن اور راشن موجود ہے،فکر کی بات نہیں۔ ساتھی نے پوچھا ، اس کے بعد کیا ہوگا؟ کمانڈر کا جوا ب تھا،’’جنگ میں یہ سوال نہیں پوچھا جاتا کہ انجام کیا ہوگا؟، اصل بات یہ ہے کہ اس وقت کیا کیا جا سکتا ہے؟‘‘ہمارے خیال میں جماعت اسلامی کا مستقبل کیا ہوگا، یہ کس انجام کی جانب بڑھ رہی ہے،… اس طرح کے سوالات سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کیا کیا جا سکتا ہے؟ جماعت اسلامی اس آزمائش پر کیا ردعمل دیتی اور اس دھچکے سے کیا سبق سیکھتی ہے، یہ زیادہ اہم ہے۔ ایک حلقے کی رائے ہے کہ جماعت اسلامی کو انتخابی سیاست ترک کر کے صرف اصلاح معاشرے کا کام کرنا چاہیے۔ ہماری رائے میں یہ بات غیر متعلق ہے۔ ’’کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں‘‘ کی بحث کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ جماعت اسلامی کا ایک خاص ڈھانچہ ہے، ایک خاص نہج میں اس کے ارکان کی تربیت ہوچکی،نصف صدی کا ورثہ اس کی پشت پر ہے، یہ ممکن نہیں کہ موجودہ جماعت اسلامی یکا یک غیر سیاسی بن جائے ۔ جماعت اسلامی کا سیاست میں اہم کردار رہا ہے، انتخابی نتائج اور ووٹ بینک سے قطع نظر اس نے ملک میںپاکستانی نیشنلسٹ ایجنڈے کو پھیلایا اور مغرب سے آتی یلغارکو روکنے کی بھرپور سعی کی ہے۔ کسی بھی اور سیاسی جماعت سے بہت آگے بڑھ کر جماعت نے ہماری اسلامی مشرقی تہذیب کو خطرات اور فحاشی و کنزیومر ازم کی تباہ کاری کے خلاف آواز اٹھائی۔دینی حلقوں میں یہ واحد جماعت ہے ،جو غیر فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم ہے، جہاں موروثیت نام کو نہیں اور انتخابی کلچراپنی مضبوط ترین شکل میں موجود ہے۔ جماعت اسلامی نے معاشرے میں بہت مواقع پر طاقتور لہریں پیدا کیں، ان کے نتائج اگرچہ اس طرح برآمد نہیں ہوسکے ،مگر اس لحاظ سے اس کا دم غنیمت ہے۔ یہ درست ہے کہ حالیہ انتخابات جماعت اسلامی کے لئے ایک سنگین وارننگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی خوش نصیبی ہے کہ جس جماعت نے اس کے لئے چیلنج پیدا کیا، خیبر پختون خوا میں وہی ان کے تعاون کے لئے مجبور ہوئی۔ جماعت اسلامی وہاں حکومت میں شامل ہے، اچھی کارکردگی دکھا کر کم از کم اس صوبے کے عوام کی رائے وہ اپنے بارے میں تبدیل کر سکتی ہے۔ جماعت کے لئے اصل چیلنج نوجوان نسل میںسرایت کرنا ہے۔ یوتھ ووٹ میں جماعت عرصے سے بتدریج کمزور ہو رہی تھی،اب یہ فیکٹر واضح ہوگیا۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ امیر جماعت سید منور حسن کا استعفا منظور نہیںکیا گیا۔ سید صاحب کی جماعت کو ابھی ضرورت ہے۔وہ جماعت اسلامی میںدعوت وتربیت کے عمل کو بہتر اور وسیع کر سکتے ہیں۔ جماعت کو بڑے پیمانے پر برین سٹارمنگ سیشنز کرانے چاہئیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جب عالم عر ب میں اخوان اور جماعت کی طرز کی سیاسی جماعتیں کامیاب ہو رہی ہیں اور پاکستان میں اسے شکست مل رہی ہے۔ ان سب باتوں پر غور ہونا چاہیے۔دانش مندی اور حکمت سے اسے انٹیلی جنشیا ، میڈیا، سول سوسائٹی، فعال طبقات، نوجوان اور لیبر کلاس میں دوبارہ نفوذ کرنا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں، مگر جماعت اسلامی کے پاس اس کے سوا ابھرنے کااور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں