عمران خان سے ملاقات

عرصہ پہلے ایک ریٹائر ٹینس کھلاڑی کا انٹرویوپڑھا، انہوں نے اپنے شاندار کیرئر میں کئی گرینڈ سلام ٹورنامنٹ جیتے تھے۔ ان سے سوال پوچھا گیا کہ ایک چیمپئن کھلاڑی کی پہچان کیا ہے۔ کہنہ مشق کھلاڑی نے جو بڑے کٹھن مراحل سے گزر چکا تھا، چند لمحے سوچنے کے بعد جواب دیا،’’وہ کبھی دفاعی انداز میںنہیں سوچتا، اس کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہار گیا تو کیا ہوگا، وہ ایک ہی تصور ذہن میں جماتا ہے کہ میں جیت گیا تو کیا ہوگا ؟اس کے اندر ایک نیچرل جارحیت ہوتی ہے اور وہ موقع ملتے ہی بازی پلٹ دیتا ہے۔جس انداز سے کوئی کھلاڑی گیند کو ہٹ کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے ، اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ چیمپئن ہے یا ایک اوسط درجے کا کھلاڑی۔‘‘ منگل کی بارش کی خبر دیتی حبس آلود دوپہر کو زمان پارک میں عمران خان کی باتیں سنتے ہوئے مجھے برسوں پہلے پڑھا ہوا وہی انٹرویو یاد آرہا تھا۔ عمران خان چیمپئن ہیں یا نہیں ،اس کا حتمی فیصلہ توابھی آنا باقی ہے، سیاست میں کوئی وقتی شکست یا فتح نہیں ہوتی، یہاں رائونڈز ہوتے ہیں۔ ہر رائونڈ کی کارکردگی جانچی جاتی ہے، پھر ہر بار مختلف انداز میں میدان سجتا اور کھلاڑی برسرپیکار ہوتے ہیں۔حتمی فیصلہ دیر سے آتا ہے، کبھی تویہ فرض مورخ کو ادا کرنا پڑتا ہے ۔انتخابی مہم اور انتخابات کے بعد عمران خان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ تحریک انصاف لاہور کے مستعد رہنما حافظ فرحت نے بتایاکہ خان صاحب دو دو تین تین کالم نگاروں سے مل رہے ہیں تاکہ تبادلہ خیال ہو سکے۔ ہم تین چار لوگ تھے۔عمران ٹرائوزر شرٹ میں ملبوس اسٹریچر نما بستر پر نیم دراز تھے،ایک دو دن کا شیو بڑھا ہوا، سائیڈ ٹیبل پر موبائل فون ،جس پر ہر سکینڈ کے بعد کسی نہ کسی کی کال بلنک کر رہی تھی، ساتھ ہی پیالے میںٹھونگنے کے لئے ڈرائی فروٹ پڑے تھے۔ عمران خان روایتی رف اینڈ ٹف سٹائل میں دکھائی دیتے تھے۔ مورال البتہ ان کا بہت ہائی تھا، کشادہ مسکراہٹ اور مضبوط ہاتھ کے مصافحے کے ساتھ استقبال کیا۔ بغیر کسی تمہید کے گفتگو شروع ہوگئی۔ ایک خاص عاجزانہ انداز میں اپنی کامیابیوں کا ذکر کیا۔ اعتراف کیا کہ مجھ میں کوئی خاص ٹیلنٹ نہیں تھا، مجھ سے بہتر کھلاڑی بھی موجود تھے، اللہ نے کرم کیا کہ مجھے نمایاں کر دیا۔ اسی طرح شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کاذکر کرتے ہوئے کہنے لگے،’’ مجھے کچھ نہیں پتا تھا ،اتنے بڑے پراجیکٹ کے بارے میں ۔ یہ ناممکن کام لگتا تھا، اللہ نے ممکن بنادیا، میرے والد سول انجینئر تھے، چالیس سال کا تجربہ تھا، مگر وہ بھی مانتے تھے کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں اتنے بڑے کسی پراجیکٹ کو مکمل ہوتے نہیں دیکھا۔ ہم نے غلطیاں کیں ، مگر رب تعالیٰ نے وہ درست کر دیں۔‘‘ عمران خان نے انعام اللہ نیازی کو میانوالی سے ٹکٹ نہ دینے کی وضاحت کی۔ ان کا کہنا تھا ،’’ میں نے خود ایک سسٹم بنایا کہ ضلعی تنظیم جسے ریفر کرے، اسے ہی ٹکٹ دیا جائے۔ میانوالی ضلع کی تنظیم نے انعام اللہ نیاز ی کے بجائے ڈاکٹر شیر افگن کے بیٹے امجد خان کو ٹکٹ دینے کی سفارش کی۔ میں اب انہیں کیا کہتا کہ تم انعام اللہ کو ٹکٹ دو کیونکہ وہ میرا کزن ہے۔ ایک طرف تو میں موروثی سیاست کے خلاف بات کرتا ہوں، اس طرح تو وہی موروثی سیاست میں خود پارٹی پرمسلط کر دیتا، امجد خان میرے سب سے بڑے مخالف ڈاکٹر شیر افگن کا بیٹاہے، ڈاکٹر شیر افگن نے ہمیشہ مجھ پر سخت حملے کئے ۔ اس لحاظ سے بھی یہ میرے لئے ٹیسٹ کیس تھا۔ میں نے میرٹ پر فیصلہ ہونے دیا ، خواہ اس سے کوئی بھی ناراض ہو۔ یہ فیصلہ درست ثابت ہوا، امجد خان نے سوا لاکھ ووٹ لئے ۔ اگر میں ضلعی تنظیم کی رائے نظر انداز کر کے، تمام کارکنوں کے فیصلے کو مسترد کر کے اپنا فیصلہ ان پر مسلط کر دیتا تو اس کے ردعمل میں وہاں سے سب ہار جاتے۔ایک دلچسپ وضاحت عمران خان نے جاوید ہاشمی کے حوالے سے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ہاشمی صاحب کو اپنا بیان واپس لینے کے لئے قطعی طور پر کچھ بھی نہیں کہا۔ یہ کارکنوں کے دبائو پر انہوں نے ازخود کیا ہے۔ انہوں نے کارکنوں کے جذبات کا احترام کیا۔ خیبر پی کے میں حکومت سازی کے فیصلے کا عمران خان نے پرجوش دفاع کیا، ان کا کہنا تھا کہ یہی ایک بڑے کھلاڑی کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ کبھی خوفزدہ یا دفاعی حالت میں نہیں کھیلتا۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ ہار ہوگئی تو کیا ہوگا، اس کے ذہن میں اپنی فتح کا راسخ جذبہ ہوتا ہے۔ عمران کے خیال میںقدرت نے ہمیں بڑا سنہری موقع دیا ہے۔ایک صوبے میں ہمیں حکومت مل گئی، مرکز اور پنجاب میں ہم حقیقی اپوزیشن بن کر دکھائیں گے۔ ایسی اپوزیشن جو ہر بات کی مخالفت نہیں کرتی، صرف غلط پالیسیوں پرتنقید کرتی اور تمام اعداد وشمار سے لیس ہو کر دلیل کے ساتھ بات کرتی ہے۔ خیبر پی کے حکومت کے حوالے سے ان کا ویژن واضح اور غیر مبہم تھا۔ ان کے مطابق،’’ تحریک انصاف وہاں کرپشن فری حکومت بنائے گی، ہم نے طے کر لیا ہے کہ جس وزیر کی کرپشن پکڑی گئی، وہ اسی لمحے فارغ۔ ہم وہاں نیب کی طرز کا ادارہ بنائیں گے، مگر یہ نیب تو ناکام ہوگئی، ہم احتساب کے لئے بڑا تگڑا اور مضبوط ادارہ بنائیں گے، ایسا ادارہ جو حقیقی معنوں میں احتساب کرے اور طاقتور سے طاقتور کرپٹ شخص کو نہ چھوڑے۔ وزیراعلیٰ چیف ایگزیکٹو ہوگا، اس کے کام میں مداخلت نہیں ہوگی، اسے فری ہینڈ دیں گے، چیف سیکرٹری کے لئے ہم نے صوبے کا بہترین شخص چنا ہے، وہ اپنی بہترین ٹیم بنائے گا۔کابینہ اور سیکرٹریز کی ٹیم ڈیلیور کرے گی۔ ہم نے اپنے طور پر ہر وزارت کی مانیٹرنگ کے لئے بہترین پروفیشنلز پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے،جو دیکھے گی کہ کہیں گڑ بڑ تو نہیں ہو رہی۔ وہ مجھے رپورٹ دے گی، جس پر میں خود چیف منسٹرکے نوٹس میں لائوں گا کہ فلاں محکمے میں یہ ہو رہا ہے، اسے ٹھیک کریں۔ ‘‘عمران خان کے بقول ہم اگلے تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرا رہے ہیں ،جس میں ہم ثابت کریں گے کہ کس طرح دھاندلی کے بغیر انتخاب ہوسکتا ہے، پرچی کا ہم خاتمہ کر دیں گے۔ ہمار ا پورا ایجنڈا ہے، تعلیم ،صحت اور دیگر شعبوں کے لئے اصلاحات لانے کا، اس پر خیبر پختون خوا میں عمل کر کے دکھائیں گے۔ ای گورنمنٹ کا تصور عملی شکل میں نظر آئے گا۔ ہم نے جس سسٹم پر شوکت خانم ہسپتال بنایا، وہی سافٹ وئیر، وہی سسٹم وہاں کے ہر ہسپتال میں لاگو کریں گے۔اس سسٹم کے تحت کرپشن ہو سکتی ہی نہیں، ہسپتالوں میں ہر چیز کمپیوٹرائزڈ ہوگی، کوئی پرچی سسٹم نہیں چلے گا۔ ‘‘ عمران خان مستقبل کے حوالے سے دل خوش کن تصورات کے ساتھ انتخابات کے تلخ تجربے کو دل کے ساتھ لگائے ہوئے ہیں۔ ان کو یقین مصمم ہے کہ انہیں دھاندلی سے ہرایا گیا۔ وہ اپنی تیز چبھتی آنکھیں سکیڑ سکیڑ کر پرجوش انداز میں ہاتھ ہلا ہلا کر بار بار دہراتے کہ آخر مسلم لیگ ن کے ووٹ اتنے کیسے بڑھ گئے؟ اتنی بری کارکردگی کے بعد ان کے ووٹ کم ہونے چاہیے تھے نہ کہ دگنے۔عمران کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس دھاندلی کے حوالے سے ٹھوس ثبوت موجود ہیں،مگر پھر بھی انہیں ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ انہیں الیکشن کمیشن، اس کے سربراہ کے حوالے سے شدید قسم کے تحفظات ہیں، قومی اسمبلی میں ان کی پہلی تقریر اس کی عکاس ہوگی۔ عمران خان اپنے مستقبل کے تصورات اور خوابوں کو کس حد تک پورا کر پاتے ہیں، اس کے لئے تو ہم سب کو انتظار کرنا ہوگا، یہ البتہ نظر آ رہا تھا کہ وہ ایک جاندار اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنا کردا ادا کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں