بلوچستان کی تصویر کے تمام ٹکڑے یکجا کیجیے

ہمارے ہاں چند اہم قومی ایشوز ایسے ہیں، جن کے حوالے سے مختلف حلقے ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور بعض اوقات متضاد مؤقف رکھتے ہیں۔ ایک گروپ کے خیال میں جو مسئلے کا حل ہے، دوسرے کے نزدیک مسئلے کی جڑ ہی وہی ہے ۔ ایسی صورتحال میں مشکل یہ رہتی ہے کہ تصویر کے تمام ٹکڑے اکٹھے نہیں ہوپاتے۔ہر فریق مسئلے کی مکمل اورجامع تصویر دکھانے کے بجائے اپنی پسند کا ایک ٹکڑا اٹھاتا اور اسے لہرا کر دوسروں کو یقین دلاتا ہے کہ یہی اصل تصویر ہے۔ اس رویے کے اور نقصانات اپنی جگہ، سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ کنفیوژن دور نہیں ہوپاتا۔ بدقسمتی سے بلوچستان بھی ایسا ہی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے کئی فریق ہیں، ہر ایک کا اپنا موقف اور اپنا سچ ہے، جسے وہ دوسروں پر تھوپنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ ایک فریق کے نزدیک جو پارٹ آف پرابلم ہے ، دوسرے کے نزدیک وہ پارٹ آف سالوشن ہے۔ ہمارے خیال میں تجزیہ کاروں کافرض ہے کہ جس حدتک ممکن ہوسکے، غیر جانبدار رہتے ہوئے، توازن اور معروضیت کو بنیاد بناتے ہوئے تصویر کے تمام ٹکڑے یکجا کر کے پیش کریں تاکہ مسئلے کو سمجھا جا سکے۔بلوچستان میں چارپانچ فریق اہم ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، بلوچ سردار،بلوچ قوم پرست، پشتون آبادی اور ان کی قیادت،شدت پسند مسلح تنظیمیں۔ فرقہ وارانہ قتل وغارت البتہ الگ ایشو ہے، اسے ان سے ہٹاکر دیکھنا ہوگا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس مسئلے کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے۔ ٭ اسٹیبلشمنٹ: بلوچستان کے حوالے سے جس قدر بیانات سامنے آتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالی جاتی ہے۔دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ بلوچستان کے بحران میں سب سے نمایاں حصہ اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ آج کے بگڑے ہوئے حالات کئی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ جو فصل انہوں نے بوئی، وہ آج پورے پاکستان کو کاٹنی پڑ رہی ہے۔ دراصل ہمارے ہاں جب ڈکٹیٹر شپ آجائے، تب اسٹیبلشمنٹ کا کردار منفی نوعیت کا ہوجاتا ہے ، تب یہ صرف آمر کی خواہشات اور اس کی پسند ناپسند کے مطابق ہی کام کرتی ہے۔اگر ڈکٹیٹر پرامن حل نکالنا چاہتا ہے تو جنرل ضیاء کے دور کی طرح بلوچ قوم پرستوں اور شدت پسندوںسے نرمی سے معاملات طے کئے جاتے ہیں،انہیں کچھ سپیس دی جاتی ہے اور یوں صوبے میں امن قائم رہتا ہے۔ اگر ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی طرح سختی اور رعونت سے معاملات چلانا چاہے تو نواب اکبر بگٹی جیسے خوددار اور اناپسند سردار کو ائیر پورٹ پر بلاکر گھنٹوں انتظارکرایا اور پھر تحقیر کے ساتھ واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ جب بوڑھا نواب ناراض ہوکر باغی ہوگیا ، پہاڑوں پر چلا گیا تو پھر اس کے خلاف انتہائی عاقبت نا اندیشانہ آپریشن کرا کر نہ صرف اسے ختم کیا گیا، بلکہ عجیب بچگانہ انداز میں معاملات ہینڈل کرتے ہوئے آخری رسومات بھی باوقار انداز میں نہ ہونے دی گئیں۔ اس وقت بلوچستان میں کہیں مسخ لاش پھینکی جائے، سیاسی کارکن اغوا یا قتل ہوجائے ، کہیں پر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوجائے…ایک لمحہ سوچے بغیر اس کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر عائد کی جائے گی اور اسے ہر کوئی مان لے گا۔ قومی ادارے اگر اس قدر ڈس کریڈٹ ہوجائیں تو یہ ان کی سب سے بڑی ناکامی ہوئی ہے۔ اس کی وجوہات ان اداروں کو اپنے اندر ہی تلاش کرنی ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان میں غلطیاں تو بہت کیں،مگر ان میں دو تین نمایاں ہیں۔ ایک تو بلوچ عوام کے دلوں میں یہ گھر نہیں کرسکے، ان کا باہمی اعتماد کا رشتہ کبھی مضبوط نہیں ہوسکا، ہمیشہ عدم اعتماد اور شک ہی رہا۔ اس کی وجوہات بھی تھیں،نواب نوروز خان کو دھوکا دے کر گرفتارکرنا، ان کے ساتھیوں کی پھانسی سے یہ کام شروع ہوا اور 73ء کا آئین منظورہونے کے چند ہی دنوں بعد بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کرنا، میر غوث بخش بزنجو کو گورنری سے ہٹانا اور فوجی آپریشن ان سارے معاملات نے اس شک کو مستحکم کیا۔ یہ کام اگرچہ بھٹو صاحب نے کرایا، مگر بلوچ اسے بھی اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالتے رہے ہیں۔ جنرل مشرف نے اس بداعتمادی کو عروج پر پہنچادیا۔ دراصل اسٹیبلشمنٹ نے کبھی بلوچ رہنمائوں، ان کی حقیقی سیاسی قیادت اور پڑھے لکھے نوجوانوں سے رابطہ نہیں رکھا۔ بلوچ سیاست پر لیفٹ کا غلبہ رہا، بی ایس او ہمیشہ لیفٹ کے نظریات سے متاثررہی۔ اس لیفٹ اور سنٹر آف دی لیفٹ مڈل کلاس یا سرداروں کی نوجوان نسل کو اسٹیبلشمنٹ سمجھنے میں ناکام رہی، انہیں ہمیشہ حریف بنایا۔ جو ساتھی انہوں نے منتخب بھی کئے ، ان سے بھی دوستی یا پارٹنر شپ کا تعلق نہیں رکھا، انہیں استعمال کیا اور پھر چھوڑ دیا۔ جو بلوچ سردار ہماری مقتدر قوتوں نے سلیکٹ کئے، خواہ وہ نصیر آباد کے جمالی ہوں، لسبیلہ کے جام ہوں، مگسی ہوں یا رئیسانی … یہ سب نااہل ثابت ہوئے۔ ان میں سے کوئی اپنے صوبے کے لئے ڈیلیور نہ کرسکا۔ ان کی ناکامی کا بوجھ بھی اسلام آباد کو اٹھانا پڑا کہ یہ انہی کاانتخاب تھا۔ مسنگ پرسنز والے معاملے نے تو بلوچستان میں آگ لگا دی۔ یہ بھی بدترین مس ہینڈلنگ تھی۔ ماورائے عدالت قتل کبھی ، کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتے۔ قانون کے مطابق چلا جاتا، اگر اس میں سقم تھا تو خصوصی قوانین بنوائے جاتے ، ایسی صورت میں اداروں کی اتنی بدنامی نہ ہوپاتی۔اعتماد سازی کے لئے اب بہت کچھ کرنا ہوگا، اس میں طویل عرصہ لگ جائے گا۔ ٭ پشتون آبادی اور ان کی قیادت: بلوچستان کی جب بات کی جاتی ہے ،تو عام طور پر پشتونوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔بلوچستان میں جاری بلوچ عسکریت پسندی اور مسلح جدوجہد سے پشتون آبادی مکمل طور پر لاتعلق رہی ہے۔پچھلے چند برسوں میں جہاں بلوچ علاقوں میں آگ جلتی اور لاشیں گرتی رہیں، پشتون اکثریتی آبادی والے علاقوں میں مکمل سکون رہا ۔ حال ہی میں زیارت ریذیڈنسی پر حملہ البتہ ایک اسستثنائی معاملہ ہے،یہ اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے۔ پنجاب اور کے پی کے وغیرہ میں عام لوگ میڈیا پر آنے والی خبروں کے تحت یہ سمجھتے رہے کہ بلوچستان کے کسی سکول میں قومی ترانہ نہیں گایا جا سکتا ، جھنڈا نہیں لہرا سکتا۔یہ بات بلوچ علاقوں کے حوالے سے بھی مکمل طور پر درست نہیں کہ بہت سے علاقوں میں عسکریت پسندوں کی گرفت اتنی مضبوط نہیں ، مگر پشتون بیلٹ کے علاقوں میں تو یہ بات سو فیصد غلط ہے۔ وہاں معمول کے مطابق معاملات چلتے رہے ہیں۔عام پشتون کی زندگی بھی کٹھنائیوں سے گھری رہی ،مگر اس کی وجہ عسکریت پسند نہیںبلکہ نااہل حکومت، تباہ حال انتظامیہ اور کرپٹ ،موقعہ پرست ارکان اسمبلی رہے۔ پشتونوں کی البتہ یہ غلطی رہی کہ انہوں نے صوبے میں آباد سیٹلرز کے حوالے سے جرأت مندانہ اخلاقی موقف نہیں اپنایا۔ پانچ برسوںمیں ڈیڑھ ہزار بے گناہ نہتے، غریب پنجابی، سرائیکی اور اردو سپیکنگ مار دئیے گئے ، ان کی لاشوں کا لہو پشتون لیڈروں کو نظر نہیں آیا۔ یہ جرأت نہیں ہوئی کہ پوری قوت کے ساتھ حق کی بات کہہ سکیں۔ پشتون سیاسی قوت دو گروپوں میں منقسم ہے۔ جے یوآئی کے مولوی صاحبان اور پشتون قوم پرستوں پر مشتمل پختون خوا ملی عوامی پارٹی۔ مولوی صاحبان نے تو ہمیشہ اپنے چھوٹے چھوٹے سطحی مفادات سامنے رکھے، ان کی دلچسپی وزارتوں ہی میں رہی۔ اچکزئی صاحب بائیکاٹ کر کے پچھلے پانچ برس آئوٹ رہے۔ اس بار ان سے لوگوں کو بہت توقعات تھیں۔ پہلے تو انہوں نے اپنے بھائی کو گورنر بنا کر اپنے مداحین کو مایوس کیا۔ نظریات، جمہوریت ، سیاسی کلچر کی باتیں کرنا آسان ہے، وقت آنے پر موروثیت سے ہٹ کر پارٹی کو اہمیت دینا ہی اصل ٹیسٹ کیس ہوتا ہے ،محمود اچکزئی صاحب اس امتحان میں ناکام ہوئے۔ اسمبلی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کی تقریرشاندار تھی، اس پر بہت واہ واہ بھی ہوئی، مگر کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ بلوچستان میں قتل وغارت ایک طرف سے نہیں ہورہا،مسنگ پرسنز مظلوم تو ہیں، مگر ظلم تو سیٹلرز پر بھی کم نہیں ہورہا، ان کی لاشیں بھی ان کے پیاروں کو مسلسل اٹھانی پڑ رہی ہیں۔ ان کی بات کون کرے گا؟ اس سوال کا جواب جناب اچکزئی اور پشتون قیادت پر قرض ہے۔ بلوچ قوم پرستوں، عسکریت پسندوں اور سرداروں کے کردار پرانشاء اللہ اگلی نشست میں بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں