پاکستانی طالبان سے مذاکرات، رکاوٹ کیا ہے؟

بعض موضوعات اس قدر وسیع اور پھیلے ہوئے ہیں کہ انہیں ایک کالم میں سمیٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ طالبان بھی ایسا ہی ایک موضوع ہے۔ پاکستانی طالبان اور ان سے مذاکرات کے حوالے سے جاری سیریز کا یہ تیسرا کالم ہے۔ جمعرات (27جون)اور ہفتہ(29جون)کے کالموں میں ہم نے جائزہ لیا کہ پاکستانی طالبان کاسٹرکچر کیا ہے، اگر مذاکرات کرنے پڑیں تو کس سے کئے جائیں اور مذاکرات کا جواز کیا ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ مذاکرات کے راستے میں رکاوٹ کیا ہے؟ اس کے لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر پاکستانی طالبان اور حکومت یا اسٹیبلشمنٹ میں مذاکرات ہوں تو امکانی ایجنڈا کیا ہوسکتا ہے؟جہاں تک حکومت یا فورسز کا تعلق ہے ، ان کی فطری طور پر یہی خواہش ہو گی کہ خودکش حملے ختم ہوں، قبائلی ایجنسیوں میں امن وامان قائم ہو اور غیرملکی جنگجوئوں سے مقامی لوگ یعنی پاکستانی طالبان فاصلہ کر لیں۔ ٭جہاں تک پاکستانی طالبان کا تعلق ہے، ان کا معاملہ قدرے ٹیڑھا ہے۔دنیا بھر میں عسکریت پسند تنظیموں کی مزاحمتی تحریک کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی ایشو ہوتاہے ۔ قوم پرست تحریک، آزادی کی کوشش، علاقہ کی محرومی کے مسائل ، معاشی بدحالی وغیرہ وغیرہ۔ آئرش ری پبلک آرمی کا ایجنڈا واضح تھا، اسے جب برطانوی حکومت نے سیاسی طریقے سے حل کیا تو معاملات پرسکون ہوگئے۔ تامل ٹائیگرز علیحدہ تامل وطن کی جنگ لڑ رہے تھے،انہیں مقامی تامل آبادی سے پزیرائی بھی ملی ۔یہ اور بات کہ اپنی غلطیوں کے باعث وہ رفتہ رفتہ کمزور پڑگئے اور ریاست غالب آگئی۔ چیچنیا ، بوسنیا، فلسطین ، فلپائن ،مقبوضہ کشمیر… ہرجگہ آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ اس کی واضح وجوہات اور سیاسی پس منظر ہے۔بھارت کے دو سو کے قریب اضلاع میں نکسل باغیوں کا کنٹرول ہے ، وہ بھی غریب آدمی کی جنگ لڑرہے ہیں، جنہیں بھارتی ریاستی سسٹم نے کچھ نہیں دیا۔ افغان طالبان کے مطالبات ہر ایک کومعلوم ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ وہ غیر ملکی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ وہاں مسئلہ صرف یہ ہے کہ طالبان غیر پشتون گروپوں ازبک، تاجک، ہزارہ وغیرہ کے ساتھ مل کر سیاسی انداز میں ملک چلانے تیار ہوجائیں۔ اس کے لئے مذاکرات کئے جائیں گے، ضمانتیں طلب کی جائیں گے ،وغیرہ وغیرہ۔ پاکستانی طالبان کا ایشو سب سے مختلف ہے۔ ان سے کس بات پر مذاکرات کئے جائیں؟مصیبت یہ ہے کہ ان کے مطالبات کا تعین کرناآسان نہیں، وہ جانچے نہیں جاسکتے،tangibleنہیں ہیں۔ ٭ وہ سب سے پہلے دو تین مطالبے کرتے ہیں۔ فوج قبائلی ایجنسیوں سے آپریشن ختم کر کے وہاں سے نکل جائے، یعنی چار پانچ برسوں میںفورسز نے جنوبی وزیرستان ، باجوڑاور سوات وغیرہ میں جو حاصل کیا گیا، وہ صفر ہوجائے۔ دوسرا حکومتی قید میں موجود طالبان مغویوں کو رہا کیا جائے۔ یہ بھی حکومت کے لئے ماننا آسان نہیں کہ وہ سب تجربہ کار اور خطرناک کمانڈر ہیں،چھوڑنے سے جنگجوئوں کی قوت بڑھ جائے ۔تیسرا اور اہم ترین مطالبہ یہ ہوگا کہ پاکستانی فوج امریکہ کی جنگ لڑنا بند کر دے ۔ یہ ایسی بات ہے ،جس کی ہر ایک اپنے انداز میں تعبیر وتشریح کر سکتے ہیں۔مزے کی بات ہے کہ پورا امریکہ میڈیا چیخ رہا ہے کہ پاکستانی فوج نے امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کی، امریکہ کے ہزاروں فوجی افغانستان میں مارے گئے ، ڈیڑھ ہزارارب ڈالر خرچ ہوئے ،بدنامی الگ اور شکست کی رسوائی سب سے بڑھ کر، امریکہ میڈیا اور ان کے جرنیل اس سب کا ذمہ دار پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو قرار دیتے ہیں ۔ امریکیوں کے خیال میں پاکستانی فورسز نے افغان طالبان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی، حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کو چھیڑا تک نہیں، ایک بھی طالبان کمانڈر امریکہ کے حوالے نہیں کیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف پاکستانی طالبان یا ہمارے روایتی مذہبی حلقوں کے خیال میں پاکستانی فوج دراصل امریکی فوج کی ایجنٹ ہے، ان کی جنگ لڑ رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ دونوں باتیں کس طرح درست ہوسکتی ہیں؟اس بداعتمادی کو کون اور کیسے دور کر سکتا ہے ، یہ سوال سب سے اہم ہے؟ ٭اسی طرح وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کو نہیں مانتے ،یہ سیکولر سسٹم ہے جو دراصل کفر ہے۔یہ باتیں بھی ریاست کو براہ راست چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے میڈیا فوراً طوفان اٹھا دیتا ہے۔ پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں تو اس قسم کی باتیں سننا پڑیں گی۔ ایک اور ایشو بڑا ٹیڑھا ہے ۔ پاکستانی طالبان القاعدہ کے بہت قریب ہیں۔ ٹی ٹی پی کے بعض گروپ عملاً القاعدہ کے عرب جنگجوئوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی ایک شرط یہ ہے کہ یہاں موجود ازبک، چیچن اور عرب جنگجوئوں کو ہاتھ نہ لگایا جائے ۔ یہ وہ بات ہے جسے عالمی برادری کے دبائو کے تحت ماننا ممکن نہیں۔ اسی نقطے پر مذاکرات ماضی میں بھی ناکام ہوتے رہے، آئندہ بھی خطرہ ہے۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس جنگ نے قبائلی علاقوں میں ان گروپوں کو جو طاقت ، مالی وسائل اور اختیارات دئیے ہیں، اس سے یہ دستبردار ہونے کو تیار ہوجائیں گے۔ فاٹا کے کئی علاقوں میں عملاً ان گروپوں کی حکومت چل رہی ہے۔ طاقت کے ذائقے سے جو آشنا ہوجائے ، اسے ہٹانا آسان نہیں رہتا۔ ٭یہ بات بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ اس عسکریت پسندی کے پیچھے ہماری روایتی مذہبی فکر میں پائے تضادات اور فکری مغالطے کارفرما ہیں۔ جب تک اس سب باتوں پر کھل کر تفصیلی بات نہیں ہوگی، اس وقت تک کوئی ٹھوس اور دیرپا حل نہیں نکلے گا۔ ہمارے مذہبی حلقوں اور مدارس میں اس پوری جنگ اور طالبانائزیشن کے حوالے سے بہت سے غلط مفروضے اور فکری مغالطے موجود ہیں۔ ان کے سامنے صورتحال واضح نہیں۔ وہ اسے اسلام اور کفر کی جنگ سمجھتے ہیں، جس میں وہ فطری طور پر اسلام اور مجاہدین کا ساتھ دیں گے۔ درحقیقت صورتحال یکسر مختلف ہے۔ یہاں ان ’’مجاہدین‘‘کی وجہ سے سب سے اہم اسلامی ملک کی سالمیت خطرے میں ہے، دنیا کے واحد اسلامی ایٹمی ملک کے حساس ترین اثاثے شدید رسک پر ہیں۔یہ بات ،مگر دینی حلقوں پر کون واضح کرے؟ ٭ بامقصد مذاکرات سے پہلے ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا، بعض حلقوں کے خیال میں جامعہ حقانیہ، جامعہ بنوریہ ٹائون اور جامعہ رشیدیہ جیسے بڑے مدرسوں کے شیوخ اور ممتاز علما دین پر مبنی کمیٹی کو بھی امن پراسیس میں شامل کیا جائے ،تاکہ ان کا اخلاقی دبائو جنگجوئوں پر قائم ہوسکے۔ویسے ان مذاکرات کے لئے ٹی ٹی پی کے اندر سے بھی دبائو ہے۔ تنظیم کی اصل قوت محسود قبیلے میں بھی اب امن کی خواہش پائی جا رہی ہے۔ محسود دوسرے قبیلوں سے بہت پیچھے چلے گئے ہیں، ملک میں ہر جگہ محسود نام ہی کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پہلے وزیر قبائل کو محسود قبائل کے علاقے سے گزر کر جانا پڑتا تھا، اس لئے محسود کی وزیریوں پر برتری تھی، اب ایک نئی سڑک بنا کر وزیر قبائل کا مسئلہ حل کر دیا گیا ، محسود کو اس سے تجارتی نقصان بھی ہوا ہے۔ادھر افغانستان کے کنٹراور نورستانی علاقے سے افغان طالبان کے بعض گروپ ان پر حملے کر رہے ہیں، مہمند ایجنسی کا سابق شاہ خالد گروپ متحرک ہو چکا ہے۔حرف آخر یہ کہ محاورے کے مطابق اگر مگر (ifs\" and \"buts) بہت ہیں ،دیکھنا یہ ہے کہ قبائلی ایجنسیوں کے لہولہو علاقے میں امن کے پھول کھل اٹھتے ہیں یا ابھی آزمائش کی گھڑیاں باقی ہیں…؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں