ڈاکٹر مرسی کیوں ناکام ہوئے؟

مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا فوجی مداخلت سے خاتمہ ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے، جس پر دنیا بھر میں تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں۔اس حوالے سے ایک سے زائد آرا سامنے ا ٓرہی ہیں۔ امریکہ اور یورپی اخبارات میں تجزیہ کار ڈاکٹر مرسی کی ناکامی کی وجہ نان گورننس کو قراردے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اخوان المسلمون کی لیڈرشپ نے ناتجربہ کاری کی وجہ سے ڈیلیور نہیں کیا ،جس پر عوامی تحریک شروع ہوئی۔ بعض سنجیدہ تجزیہ کاروں کے خیال میں اخوان نے ایک سے زائد محاذ کھول لئے ، اگر وہ نسبتاً تحمل اور احتیاط سے کام لیتے تو شاید یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ مصر ایک پیچیدہ ملک ہے جس کی اندرونی تقسیم کو سمجھنا آسان نہیں۔ اس کی کئی جہتیں ہیں۔اتنا دور بیٹھ کر تجزیہ کرنا آسان نہیں؛ تاہم مصری سیاست ، وہاں کی اندرونی تقسیم اور اخوان المسلمون کی پالیسیوں کو باقاعدگی سے مانیٹر کرنے والے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر مرسی کی حکومت کے خاتمے کی صرف ایک وجہ نہیں‘ صورتحال پیچیدہ ہے۔ اخوان کی پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے؛ تاہم اخوان کی حکومت کا خاتمہ ایک گرینڈ پلان کا نتیجہ ہے، جس کا آغاز پہلے دن سے کر دیا گیا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگرچہ سابق مصری آمر حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے لئے چلائی گئی عوامی تحریک کو عرب سپرنگ کا خوش نما نام دیا گیا، دنیا بھر میں عوامی تحریکیں اس اصطلاح کی روشنی میں دیکھی جانے لگیں، تحریر اسکوائر عوامی طاقت کی علامت بن گیا… اس سب کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس ملک میں اس طرح کی عوامی تحریک کے ذریعے حکومت تبدیل ہوتی ہے، وہاں عرصے تک حالات نارمل نہیں ہو پاتے۔ لوگ جب جمع ہوکر ہجوم کی شکل اختیار کرتے ہیں، ایک ہجوم دوسرے ہجوم کے ساتھ مل کر نسبتاً بڑے دائرے میں بدلتا اور پھر طاقتور عوامی تحریک کی شکل اختیار کرتا ہے، تب اس طاقت کو نظرانداز کرنا آسان نہیں رہتا۔ جمہوریت میں تحمل، برداشت، جیتنے والے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنااورنہ چاہتے ہوئے بھی پانچ سال اپنی باری کا انتظار کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔ عرب سپرنگ کے نتیجے میں حسنی مبارک سے تو مصریوںنے نجات پالی، جمہوریت کا سبق مگر وہ پوری طرح نہ سیکھ پائے۔ مصری سماج کو ابھی جمہوری پختگی پانے میں خاصا وقت لگے گا۔ اخوان کی ناکامی کے حوالے سے کوئی فتویٰ لگانے سے پہلے یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ مصر ایک پیچیدہ اور منقسم معاشرہ ہے۔ مصر ہزاروں برس سے فرعونوں کی سرزمین رہا ہے۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک آمر آتا رہا۔ پچھلے پچاس برس سے یہ آمروں کے زیرقبضہ رہا۔ اس عرصے میں مصر کے اندر ایک خاص مائنڈ سیٹ اور اسلامسٹوں کے لئے تعصبات رکھنے والی فوج، عدلیہ ، بیوروکریسی، میڈیا ، تاجر برادری اور سرمایہ دار تنظیمیں تشکیل پا گئیں۔ مصری معاشرہ بھی سیاسی اعتبار سے منقسم معاشرہ ہے۔ ایک طرف یہاں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی گئی۔ امام حسن البناء شہید،سید قطب، محمد قطب، محمد الغزالی جیسے سکالر اٹھے جنہوں نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ ان کے ساتھ شیخ محمد عبدہ ، مفتی رشیدرضا جیسے نامور سکالر جنہوں نے ایک عہد کو متاثر کیا، وہ بھی مصری تھے۔ دوسری طرف مصر سے عرب نیشنل ازم کی تحریک کے ابتدا ہوئی۔ کئی نامور عرب سیکولر دانشور ، سکالر اور ادیب بھی اسی مٹی سے اٹھے، مذہب کا مضحکہ اڑانے والے بھی یہاں بہت تھے۔مصر عالم عرب اور افریقہ کے سب سے بڑے صحافتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی فلم انڈسٹری بھی ہے۔سوشل میڈیا نے عرب دنیا میں سب سے زیادہ مقبولیت مصر میں حاصل کی۔ ادھر ان لبرل سیکولر حلقوں اور اعتدال پسند اسلامسٹ تحریک اخوان کے ساتھ ساتھ مصر ہی سے شدت پسند مسلح تحریکیں اٹھیں۔ القاعدہ کی مرکزی قیادت میں بہت سے مصری تھے۔ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی محمد عاطف کا اصل نام ابو حفص المصری تھا،موجودہ سربراہ ایمن الزواہری مصری ہیں۔ سخت گیر سلفی گروپوںنے پچھلے سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ستائیس فیصد ووٹ لے کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ان میں ایمن الزواہری کی سابق جماعت الجماعتہ الاسلامیہ بھی شامل تھی۔ النور کے پلیٹ فارم سے القاعدہ کے بہت سے کارکنوں اور لیڈروں نے ہتھیار ڈال کر انتخابات کی آپشن اختیار کی مگر وہ کئی حوالوں سے سخت گیر نظریات کے حامل ہیں۔ ان سلفی گروپوں پر سعودی عرب کا خاصا اثر ہے، مبینہ طور پر وہ مالی مدد بھی وہاں سے لیتے ہیں۔ سلفی پارٹیوں کو یقین ہے کہ اخوان اگلے انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی اور اس کے حصے کی سیٹیں ہمیں مل جائیں گی۔ اس سے مصر کے اندرونی تضادات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر مرسی کو کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ پہلے تو فوج نے اختیارات دینے میں بہت تاخیر کی، جب ڈاکٹر مرسی نے فوج کے سربراہ کو ریٹائر کیا ،تب جا کر وقتی طور پر صورتحال بہتر ہوئی۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا گیا کہ ڈاکٹر مرسی نے اپنی پسند کا آرمی چیف مقرر کیا تھا‘ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے وہ آرمی چیف جو 78سال کے تھے، انہیں ہٹایا، ان کے نائب کو ہٹایا اور یوں ان کے بعد والا جرنیل خود بخود سربراہ بن گیا۔ یہ روٹین کی تبدیلی تھی۔ مصری آئینی عدالت اخوان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ پہلے تو اس عدالت نے طویل انتخابی مراحل سے بننے والی پارلیمنٹ کو ایک معمولی سے قانونی نقطے کا جواز بنا کر برطرف کر دیا۔ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملے گی کہ جو پارلیمنٹ عوام کا مینڈیٹ لے کر آئے، اسے سپریم کورٹ دو مہینے بھی کام نہ کرنے دے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اخوان کی پارلیمنٹ میں اکثریت تھی۔ مصر کا اٹارنی جنرل تک ڈاکٹر مرسی نہیں بدل پائے تھے، عدلیہ ہر بار رکاوٹ ڈال دیتی۔ اسی طرح فوج، ایجنسیوں اور عدلیہ نے ہرقدم پر رکاوٹ ڈالی، معاشی پالیسیوں پر عمل نہ ہونے دیا، کئی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ روکنے پڑے ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ کہیں ترکی کی طرح مصر کے اسلامسٹ بھی ڈیلیور نہ کر جائیں ، پھر انہیں ہٹانا ممکن نہیں رہے گا۔ حالیہ تحریک میں جب ڈاکٹر مرسی کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا کہ آپ کو عوام کا اعتماد حاصل نہیں رہا تو ڈاکٹر مرسی نے اس پر پارلیمانی انتخابات کرانے کا کہا کہ عوام سے رائے مانگ لیتے ہیں، اگر پارلیمانی انتخابات میں ہمیں شکست ہوگئی ،تب صدارتی انتخابات بھی دوبارہ کرا دیں گے۔ یہ بات اپوزیشن نے بھی نہیں مانی اور مصری سپریم کورٹ نے باقاعدہ مداخلت کر کے پارلیمانی انتخابات کرانے سے روک دیا۔ ڈاکٹرمرسی کی ناکامی دراصل ایک فرد کی ناکامی یا اخوان کی ناکامی ایک جماعت کی ناکامی نہیں، دراصل اعتدال پسند مذہبی سوچ کو ناکام بنایا گیا۔ جمہوریت اور آئین پر یقین رکھنے والوں کو ناکام بنایا گیا، جس کا تمام تر فائدہ شدت پسندوں کو پہنچے گا۔ یہ وہ بات ہے جس کا مصری اسٹیبلشمنٹ کو ابھی ادراک ہے نہ اس قدم پر خوش ہونے والے مغربی ممالک اور عرب بلاک اس کا اندازہ کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں