کرنے والے کام

ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ جب ہر طرف تاریکی چھائی ہو، اندھیرے رقصاں ہوں اور شر کی قوتیں غالب آتی نظر آئیں تو آدمی کو کیا کرنا چاہیے؟اسی سوال کا جواب کھوجنے ہی میں ہماری ، آپ کی، ہم سب کی خیر پوشیدہ ہے۔ ہر طرف سے مایوسی کی خبریں امنڈرہی ہیں۔ جس سرکاری یا غیر سرکاری محکمے پر نظر ڈالی جائے، منفی تصویر سامنے آتی ہے۔ کرپشن، چوری، فراڈ، غلط بیانیاں، ظلم ، سفاکانہ حد تک استحصال کی داستانیں ہر سو پھیلی ہوئیں۔ موت اس کے صفحات پر رقص کرتی اور خبروں کی سرخیاں لہو چھلکاتی ہیں۔ روز میڈیا پر عدالتی کیسوں کی روداد نشر ہوتی ہے۔ سن کر حیرت ہوتی ہے۔ ہر دوسرے کیس میں اربوں روپے کا گھپلا نکل آتا ہے۔ جج بھی حیرت زدہ ہیں کہ آخر ملک میں یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ اتنے بڑے بڑے سکینڈل، پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اوروں کو تو چھوڑیے، ہمارے دوست اور مایہ ناز صحافی رئوف کلاسرا نے روزنامہ دنیا کے صفحات پر پچھلے چند ماہ میں جو سیکنڈل بے نقاب کئے ہیں، ان میں ہونے والے قومی نقصانات کا تخمینہ کیا جائے تو معاملہ کئی سو کروڑ تک جا پہنچے گا۔ کوئی اور ملک ہوتا تو تہلکہ مچ جاتا اور ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچا کر سسٹم کو فول پروف بنایا جاتا۔ سوال پھر وہی کہ جب چہار سو مایوسی اور منفی خبریں آ رہی ہوں تو کرنا کیا چاہیے؟ اندھیروں سے گھبرا کر بیٹھ جائیں یا پھر اپنے حصے کی شمع جلا دیں جو ظلمتوں کی اس رُت میں کچھ تو روشنی کی سبیل کرے۔ ہم اخبارنویس بنیادی طور پرمباحث کے شوقین ہیں۔ پریس کلب کے ٹھنڈے کمروں میں آرام دہ کرسیوں پر ایستادہ ہوکر، موسم خوشگوار ہو تو کمپائونڈ میں سنگی بنچوں پربیٹھ کرگرما گرم چائے کے جرعے لنڈھاتے گھنٹوں بحثیں ہوتی ہیں۔ سیاستدانوں کے لتے لئے جاتے، اسٹیبلشمنٹ کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ یہاں سب غلط ہے، کوئی ٹھیک نہیں۔ یہ گتھی کوئی نہیں سلجھاتا کہ ایسے میں کیا کیا جائے؟ کرنے والے کام کیا ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ جنہوں نے کچھ کرنا ہوتا ہے، وہ ان بحثوں میں نہیں پڑتے۔ اس سوچ میں الجھے بغیر کہ ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے، ہر طرف کیوں افراتفری مچی ہے، سسٹم کس قدر خراب ہوچکا ہے … وغیرہ وغیرہ۔ وہ اس جھمیلے میں پڑے بغیر اپنے حصے کا قرض ادا کرتے ہیں۔ چند سال پہلے جب میں لاہور کے ایک طلبہ ہاسٹل میں مقیم تھا، ایک صاحب مجھے ملے۔ ان کے ساتھ گزرے چند دنوں کا سحر ابھی تک باقی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان جیسی یادداشت والا آدمی نہیں دیکھا۔ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً فوٹو گرافک میموری۔ جو دیکھا ، ازبر ہوگیا۔ جو کتاب، کوٹیشن، حوالہ نظر سے گزر گیا، ان کے ذہن میں محفوظ ہو گیا۔ موصوف انجینئرنگ کے طالب علم تھے، پھر اچانک طے کیا کہ انجینئرنگ مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔ مذہبی علوم میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرمطالعہ شروع کیا۔ کسی صاحب علم کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کراچی میں مقیم ہیں،اگلے ہی روز ٹرین پکڑی اور کراچی جا پہنچے۔ مہنیوں اور کبھی برسوں اس صاحب علم کے ساتھ رہے۔ حدیث، قرآن، فقہ، تاریخ، فلسفہ اور ادب سے لے کر عمرانیات تک کوئی مضمون نہ چھوڑا۔ ان دنوں ہمارے پاس بھی وقت تھا، کئی راتیں ان سے گفتگو میں گزریں۔ انتہائی نرم لہجے میں بات کرتے، مخاطب کو احتراماً شیخ (بہ معنی بزرگ)کہہ کر بلاتے۔ لباس انتہائی سادہ ۔ سفید کرتہ شلوارکے دو جوڑے۔ ایک پہن لیا، دوسرا دھو کر محفوظ کر لیا۔ کھانے پینے کی فکر سے آزاد ۔ کچھ مل گیا تو کھا لیا، ورنہ صبر کئے رکھا۔ میلوں پیدل چلتے۔ میں ان کی غیرمعمولی یادداشت، علم اور فراست سے بہت متاثر تھا۔ ایک دن پوچھا کہ حضرت آپ کا اپنے مستقبل کے حوالے سے کیا پلان ہے؟ آپ کو تو کسی بھی بڑی یونیورسٹی میں ملازمت مل سکتی ہے۔ انٹرنیشنل یونیورسٹی زیادہ بہتر رہے گی کہ آپ کو کئی زبانوں پر عبورہے ۔ بڑی بے نیازی سے کہنے لگے، نہیں میرا ارادہ اپنے شہر جا کر رہنے کا ہے۔ وہ ضلع لیہ کی ایک پسماندہ تحصیل کے رہنے والے تھے۔ وہاں تھوڑی بہت زمین تھی۔ کہنے لگے ،’’ میں وہاں پر ایک مدرسہ بنائوں گا، جس میں اچھی اہلیت کے حامل، قدیم و جدید پر نظر رکھنے والے طلبہ تیارکئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کچھ پرانی مذہبی کتابوں کو ایڈٹ کرنا ہے۔ غیر منقسم ہندوستان کے ایک بڑے سکالر ہیں ، جودنیا سے رخصت ہوگئے، مگر ان کے علمی مرتبے کو پہچانا نہیں گیا، ان کی کتابوں کو ایڈٹ کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ ‘‘مجھے یہ سن کر صدمہ ہوا۔ رہا نہ گیا، میں نے کہہ دیا کہ آپ اتنے چھوٹے شہر میں رہ کر اپنی صلاحیتوں سے انصاف نہیں کر پائیں گے۔ یہاں لاہور آجائیں، یہاں آپ کے لئے بہترمعاشی مستقبل کے ساتھ زیادہ شہرت وعزت کا ساماں ہے۔ موٹے عدسوں والے چشمے سے پیچھے ان کی چمکدار آنکھیں مسکراہیں، بڑی نرمی سے بولے، آپ کو اندازہ نہیں کہ ہمارے ہاں دینی میدان میں اچھے علما پیدا کرنے کی کتنی ضرورت ہے۔ ویسے بھی امام بخاری کی عظمت تو سب کو نظر آتی ہے ،مگر جس مدرسے نے انہیں امام بخاری بنایا، اس کا وجود بھی ضروری ہے۔ ‘‘بات ختم ہوگئی، جلد ہی وہ رخصت ہوگئے۔ کئی برس بیت گئے ۔ پچھلے سال ان کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ اپنے آبائی شہرمیں مقیم ہیں، صبح کو ایک سکول میں پڑھاتے اور شام کو اپنے قائم کردہ مدرسے میں تدریسی اور انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، جہاں کسی معاوضے کے بغیر اعلیٰ معیار کی دینی تعلیم دینے کا اہتمام موجود ہے۔ فون پر بات ہوئی، وہی نرم شیریں آواز، وہی انکسار، کہنے لگے ،’’ زندگی مصروفیت میں گزر رہی ہے، مدرسہ جم جائے تو پھر لکھنے پڑھنے کیلئے کچھ وقت نکلے گا، پھر انشاء اللہ ان کتابوں کو بھی ایڈٹ کروں گا۔‘‘ اسی طرح ایک اور صاحب ہیں۔ کراچی سے تعلق، پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر انجینئر، امیگریشن لے کر کینیڈا منتقل ہوگئے۔ اچھا بھلا کیرئر سامنے نظر آ رہا تھا۔ دینی علوم سے دلچسپی تھی،قرآن ان کی دلچسپی کا مرکز تھا، ایک ممتاز سکالر سے مختلف محفلوں میں استفادہ کرتے رہے، انہیں استاد کا درجہ دیتے ۔ ایک روز کینیڈا میں استاد کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ آپ واپس آ کر دعوت وتربیت کے شعبے سے وابستہ ہوجائیں، پڑھے لکھے لوگوں کی شدید ضرورت ہے۔ موصوف نے آئو دیکھا نہ تائو، بوریا بستر باندھا، اہل خانہ کو ساتھ لیا اور وطن لوٹ آئے۔ یہاں دعوت وتعلیم سے وابستہ رہے، ٹی وی چینل پر مذہبی پروگراموں کے اینکر بھی رہے، دو تین کتابیں، بعض مسائل پر پمفلٹ اور ایک دینی جریدے کی ادارت نبھاتے رہے۔ ایک روز خیال آیا کہ ہر دینی حلقے کا فرد کسی نہ کسی قسم کے تعصبات کی زد میں ہے، اس کی بات ایک حلقے میں قابل احترام تو دوسرا حلقہ اس سے انکاری ہے۔ انہوں نے چند برسوں کی محنت میں جو نام کمایا تھا، اسے ترک کیا، ایک قلمی نام رکھا اور اپنی تمام جدوجہد اسی نام سے شروع کر دی۔انٹرنیٹ کو اپنا میدان بنایا ، ویب سائیٹ ، بلاگ، فیس بک پر مختصر طویل نوٹ اور مختلف فورمز پر دینی سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ اپنی تمام تر ذہنی وجسمانی توانائیاں دین کی دعوت کے کام میں کھپا دیں۔ زندگی گزارنے کے لئے مختلف جگہوں پر تدریس کرتے ہیں۔اس طرح کے واقعات دیکھ کر میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ ہم لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں کیا کیا پلان کرتے رہتے ہیں لیکن تجاویز اور سوچ کا محور اپنی ذات ہی ہوتی ہے۔ادھر ایسے لوگ بھی موجود ،جو اپنی ذات کی نفی کر کے خاموشی سے معاشرے میں کنٹری بیوٹ کر رہے ہیں۔ خیر کو پھیلا رہے ہیں،اپنی باتوں، اپنی سوچ اور عمل سے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں