یہ چندلوگ

ڈاکٹر امجد ثاقب سے میری ملاقات آٹھ نو سال پہلے ہوئی تھی۔ وہ ہمارے فورم سی این اے میں بطور مہمان آئے اور مائیکروکریڈٹ فنانس پر بریفنگ دی۔ ان کے بارے میں سن چکا تھا کہ وہ بیوروکریسی میں تھے، ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہے ، پھر ایک دن فیصلہ کیاکہ سرکاری ملازمت سے معاشرے میں تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ استعفیٰ دیا اور سماجی خدمت کا شعبہ چن لیا۔ پنجاب حکومت نے پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کے نام سے دیہاتیوں کے لیے چھوٹے قرضے (مائیکروکریڈٹ فنانس)دینے کا پروگرام شروع کیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب یہاں سے چلے گئے، مائیکرو کریڈٹ فنانس کو گہرائی تک سمجھا،اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی۔ مائیکرو کریڈٹ فنانس کا آئیڈیابنگلہ دیشی پروفیسر محمد یونس کا برین چائلڈ ہے۔اکنامکس کے اس پروفیسر نے دیہی خواتین کوبہت چھوٹے قرضے دے کر ایک تجربہ کیا، جو بہت کامیاب رہا۔ انہوں نے بعد میں گرامین بینک کی بنیاد ڈالی جس نے لاکھوںافراد کو چھوٹے قرضے دئیے اور دنیا بھر میں ایک نیا ٹرینڈ قائم کر دیا۔ عالمی مالیاتی اداروں نے اس تجربے کو بہت سراہا۔ مائیکرو کریڈٹ فنانس کا فائدہ یہ ہے کہ بغیر کسی مالی ضمانت کے چھوٹا قرضہ مل جاتا ہے،ورنہ بینک تو پیسے دینے سے پہلے جائیداد رہن رکھتے ہیں یا زیور وغیرہ۔ جس کے پاس کچھ نہیں، اسے عام بینکوں سے کچھ نہیں مل سکتا، مائیکروکریڈٹ فنانس نے ان کا یہ مسئلہ حل کر دیا۔ ان قرضوں میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ان کا مارک اپ یعنی سود بہت زیادہ ہے۔ پینتیس سے چالیس پچاس فیصد تک‘ جبکہ عام بینک اپنے قرضوں پر دس پندرہ فیصد تک مارک اپ لیتے ہیں۔ مائیکرو فنانس والے اس اعتراض کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہمارے خرچے بہت زیادہ ہیں، عام بینک تک قرضہ لینے والے کو خود جانا پڑتا ہے، ہمارے کارکن دیہات یا شہروں میں گھر گھر وزٹ کرتے اور خود جا کر قرضہ دیتے ہیں، ریکوری بھی خود کرانی پڑتی ہے، اس لئے کاسٹ لیول بڑھ جاتا ہے۔ بات درست ہوگی، مگر ہے پھر بھی ظالمانہ۔ ڈاکٹر امجد اپنی بریفنگ میں یہ سب باتیں بتاتے رہے۔ آخر میں کسی نے پوچھا ، ڈاکٹر صاحب ،آپ لوگوں نے جو بلاسود قرضہ دینے کا تجربہ کیا ہے، اس کے بارے میں بھی کچھ بتائیے؟ ڈاکٹر امجد ثاقب شرمیلے انداز میں مسکرائے اور پھر بتایا کہ میں اور میرے چند دوستوں پروفیسر ہمایوں احسان ، ڈاکٹر اظہار، ڈاکٹر کامران شمس، رانجھا وغیرہ نے مل کر اخوت کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے، جو قرض حسنہ دیتی ہے، اس کا بنیادی تصور مواخات مدینہ کا وہ تصور ہے جو سرکارمدینہﷺنے مہاجرین اور انصاریوں کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا کر پیش کیا تھا۔ اخوت کا سٹرکچر تین چار نکات پر قائم تھا۔ اخوت کے ڈائریکٹراوراعلیٰ عہدے داروں میں سے کوئی تنخواہ نہیں لے گا، سب کام رضاکارانہ بنیاد پر ہوگا،اخوت کے قرضوں پر ایک روپیہ بھی سود وصول نہیں کیا جائے گا،اخوت کے اجلاس اورچیک بانٹنے کی تقریبات مسجدوں میں ہوں گی، اخوت بیرون ملک سے کوئی مدد وصول نہیں کرے گا، پاکستانی عوام ہی اس کا اصل سورس ہوں گے۔ مجھے یاد ہے کہ اخوت کی تفصیل سن کر ہم سب بڑے متاثر ہوئے، فورم کے اختتام پراس پراجیکٹ کی کامیابی کے لئے دعا بھی کرائی گئی۔ اس کے باوجود ہم سب متفکر تھے کہ یہ چند لوگ آخر کب تک یوں ڈٹے رہیں گے، آخر ہمت ہار کر خاموش ہوجائیں گے۔ کئی برس گزر گئے، اخوت کا ننھا منا پودا پھلتا پھولتا اور سرسبز ہوتا گیا۔ یہ تجربہ کامیاب ہوا تو اس کی خوشبو دور دور تک گئی، میڈیا میں بہت سے سینئر ز نے اس پر لکھا، متواتر سپورٹ کیا، اپنی بساط کے مطابق ہم بھی قلم گھسیٹتے رہے۔ارباب اختیار بھی اس جانب متوجہ ہوئے، سابق گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول نے ابتدا کی، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس تصور سے اتنے متاثر ہوئے کہ پچھلے سال انہوں نے ایک ارب اخوت کو تھما دئیے کہ اپنی مرضی اور اپنے سیٹ اپ کے مطابق مستحق افراد کو بلاسود قرضے دیں۔ اس سال یہ رقم بڑھ گئی، مرکزی حکومت نے بھی ایسا ہی کیا ہے، گلگت بلتستان کی حکومت بھی ایسا کر رہی ہے۔ اس وقت اخوت ساڑھے چار ارب روپے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ افراد میں تقسیم کر چکا ہے، ریکوری ریٹ اس کا ننانوے فیصد سے زیادہ ہے ،جو ایک ریکارڈ سمجھا جاتا ہے۔ اخوت کی حیران کن کامیابی میری آنکھوں کے سامنے ہوئی، اس نے میرے اس یقین کو مزید استحکام بخشا کہ چند افرادبھی کارہائے نمایاں سرانجام دے سکتے ہیں، ضرورت صرف اخلاص نیت ، جذبے اور پوری قوت کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی ہے۔ پی اوبی (Prevention of Blindness) بھی ایسا ہی ایک ادارہ ہے، لاہور کے ایک آئی سرجن ڈاکٹر انتظار حسین اس کے بانی ہیں، انہوں نے اپنے ساتھی ڈاکٹر زاہد لطیف اور دیگرساتھیوں کے ساتھ مل کر چند سال پہلے اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد ملک کے مختلف علاقوں میں فری آئی کیمپ کر کے مستحق افراد کے فری آپریشن کرنا تھا۔ آج پی اوبی میں ملک بھر کے چار پانچ سو آئی سرجن شامل ہیں۔ سفید موتیے کے ساٹھ ہزار سے زیادہ مفت آپریشن کر چکے ہیں، لاکھوں مریضوں کا معائنہ اور انہیں آنکھوں کی دوائیوں کی فراہمی الگ ہے۔ہر ہفتے کسی نہ کسی شہر ، قصبے ، گائوں میں پی اوبی کا کیمپ لگا ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر انتظار جیسے آئی سرجن اپنی پریکٹس چھوڑ کر وہاں جاتے اور دن رات سرجری کرتے ہیں۔ اس تنظیم نے ایک اور انوکھا کام کیا۔ افریقہ کے غریب ممالک میں آنکھوں کی بیماریاں عام ہیں، وہاں پورے پورے ملک میں ایک دو سے زیادہ آئی سرجن موجود نہیں۔ پی اوبی کے ڈاکٹروں کی ٹیموں نے سوڈان، نائیجیریا، مالی، الجزائر، صومالیہ، چاڈ،برکینافاسو وغیرہ میں فری کیمپ لگا کر ہزاروں لوگوں کا علاج کیا ہے۔ وہاں بہت سے لوگ نسل در نسل نابینا ہیں کہ کوئی علاج کرنے والا ہی نہیں تھا، ایسے چند صحت یاب ہوجانے والے مریضوں کی دیوانہ وار خوشی کی تصاویر اور ویڈیو دیکھ کر میرے جیسے سخت دل انسان کی آنکھیں بھی نمناک ہوگئیں۔ پی اوبی کی کامیابی بھی مجھے ایک کرشمہ لگتی ہے، سروسز ہسپتال لاہور کے چند ڈاکٹروں نے اپنی جیب سے اس نیک کام کا آغاز کیا، میڈیا تک ان کی کوئی رسائی نہیں، تشہیر سے گریز بھی یہ چاہتے ہیں کہ کہیں نیکی ضائع نہ ہوجائے ، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت ڈالی کہ ہزاروں خاندانوں کا نفع ہو رہا ہے۔ غزالی ٹرسٹ سکولز بھی ایسے ہی چند باہمت لوگوں کا پراجیکٹ ہے۔ ایک کمرہ ایک سکول کے تصور پر عامر محمود اور ان کے ساتھی آگے بڑھے ،آج غزالی ٹرسٹ سکول سسٹم کے ملک بھر میں سینکڑوں سکول کام کر رہے ہیں، چالیس ہزار سے زیادہ بچے مفت تعلیم پا رہے ہیں،ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ ادارہ پھل پھول رہا ہے۔ مجھے جب کوئی اوور سیز قاری یا فیس بک فرینڈ ای میل یا میسج کے ذریعے پوچھتا ہے کہ ہم چیریٹی کرنا چاہتے ہیں ،کیا کریں۔ میرا ہمیشہ یہی جواب ہوتا ہے کہ ایسے اچھے اداروں کی سپورٹ کریں۔ اداروں کو مضبوط بنانا چاہیے کہ اس سے ایک فرد کی جگہ پر ہزاروں لاکھوں کا بھلا ہوگا۔سماجی خدمت کے میدان میں کوئی آنا چاہتا ہے تو بلا خطر آئے۔ یہ کام بظاہر مشکل لگتا ہے ،مگرخلوص اور جذبہ سچا ہوتو قدرت ایسے خاموشی سے ہاتھ تھام لیتی ہے کہ آدمی کو یقین نہیں آتا۔ کسی کو شک ہے تو ڈاکٹر امجد ثاقب، ڈاکٹر اظہار ہاشمی، ڈاکٹر انتظارحسین، میا ں اخلاق الرحمن جیسے لوگوں سے پوچھ کر دیکھ لے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ گروہ اورہجوم در ہجوم اکٹھے ہونے سے کچھ نہیں ہو پاتا، چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیںجو کام کر دکھا تے ہیں، یہی چند لوگ ہی زمین کانمک ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں