ریاست کو نئی قومی پالیسی دینا ہوگی

ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمومی طور پر تصویر کا ایک ہی رخ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر فریق اپنی پسند کا سچ اورایک خاص انداز کا منظرنامہ پیش کرتاہے۔اس کا سب سے بڑا نقصا ن یہ ہے کہ یک رخی اور ادھوری معلومات ہی سامنے آ تی ہیں۔ جب تک تصویر کے تمام ٹکڑے یکجا نہ ہوں، منظر کی تفصیل اورجزئیات موجود نہ ہوں،صورتحال کی درست عکاسی نہیں ہوسکتی۔ ہر بار کچھ نہ کچھ رہ جائے گا۔ معاملہ جب قومی پالیسی بنانے کا ہو تب یہ بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ ایشو کے تمام زاویے اور رخ سامنے آ جائیں تاکہ درست تجزیہ کر کے ٹھوس اور جامع حل نکالا جائے۔ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے حوالے سے بھی بہت ضروری ہے کہ زمینی حقائق اور موجودہ صورتحال کو پوری طرح سے سمجھا جائے۔ اگر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو شکست دینی ہے تو طویل المدت پالیسی بنانی اور اپنی غلطیاں درست کرنی ہوں گی۔دہشت گردی کا عفریت فائرفائٹنگ کے ذریعے قابو نہیں آسکتا۔ یہ کوئی معمولی آگ نہیں، جسے پانی چھڑکنے سے بجھایا جا سکے۔ اسے ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام عوامل پر نظر رکھی جائے ،جو بظاہر غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں، مگر ان کا اصل مسئلے سے گہرا تعلق ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ’’ہمارے انتظامی ادارے ، ہماری ایجنسیوں اور سزاوجزا کے نظام نے خود کودہشت گردوں کے سنگین چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کا اہل ثابت نہیں کیا‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’متعلقہ اداروں پر طاری جمود توڑے بغیر کامیابی ممکن نہیں‘‘۔ یہ ادھورا سچ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی قیادت بھی مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ پچھلے پانچ برسوں اور حالیہ تین مہینوں کے دوران ہماری منتخب حکومتوں، ارکان اسمبلی اور سیاسی لیڈروں میں سے کسی نے دہشت گردی کے مسئلے کو سمجھ کر اس کا حقیقی حل نکالنے اور عوام کو درست صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔اے این پی کو اگرچہ دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے کئی اہم لیڈر اور کارکن گنوانے پڑے ،پیپلزپارٹی بھی اس حوالے سے دبائو کا شکار رہی ،مگر جو کرنے والے کام تھے ، وہ ان دونوں نے نہیں کئے۔مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو کچھ رعایت اس لئے دی جا سکتی ہے کہ انہیں آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا،مگر بظاہر وہ بھی پرانی غلطیاںہی دہراتے نظر آ رہے ہیں۔ عسکریت پسندی اور اس کے فروغ… دونوں کے لئے بعض نفسیاتی عوامل اہم ہیں،ان سے یہ جڑ پکڑتی اور مزید نفسیاتی عوامل پیدا کرتی ہے۔ اس کے خاتمے کے لئے بھی جدید سائنٹفک انداز میں نفسیاتی پہلوئوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ سب سے پہلے تو اس حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ عسکریت پسند اور حکومت دونوں اپنی کامیابی کے لئے عوامی حمایت کے محتاج ہیں۔ عوامی حمایت اور تائید کے بغیر دنیا کی کوئی گوریلا تحریک نہیں چل سکتی۔ جہاں بھی لمبے عرصے سے موثر گوریلا تحریک چل رہی ہو، وہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انہیں کسی نہ کسی حد تک عوامی حمایت حاصل ہے۔ عسکریت پسندی یا گوریلا تنظیموں کو ختم کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ انہیں عوام سے الگ کر دیا جائے۔ جب عام آدمی ان کے خلاف ہوجائے ،تب ان کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔اس لئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ عوامی آرزوئوں، خواہشات اورسماج کے عمومی مزاج کامعروضی تجزیہ کیا جائے، اس کے بعد یہ سمجھ آ جائے گی کہ شدت پسند تنظیمیں کون سے حربے اختیار کر کے عوامی جذبات استعمال کر رہی ہیں۔ جہاں تک تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسلک گروپوں کا تعلق ہے ، ان کا مقدمہ دو بنیادی نکات ’’مظلومیت‘‘ اور ’’اخلاقی برتری‘‘ پر قائم ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مظلوموں کی حمایت کے لئے علم اٹھایا ہے، ان کی تمام تر جدوجہد افغانستان کے عوام (یعنی طالبان)کے لئے ہے۔ افغانستان میں امریکی موجودگی کے حوالے سے ممکن ہے کسی فرد یا گروہ کی مختلف رائے ہو، مگر اس پر پاکستانی عوام کی اکثریت متفق ہے کہ وہاں پر بیرونی جارحیت ہوئی اور طالبان کی حکومت ناجائز طریقے سے ختم کی گئی۔ امریکہ کے لئے ہمارے سماج میں دیرینہ نفرت اور بیزاری موجود ہے، امریکہ نے ہمارے لئے جتنا کچھ بھی کیا ہو، اس پر سب متفق ہیں کہ وہ پاکستان کا دوست ملک نہیں۔ افغانستان پر امریکہ کے قبضے اور اُس کے خلاف افغان طالبان کی جدوجہد کو عوامی سطح پر جائز اور درست سمجھا جاتا رہا ہے۔ ڈرون حملوں کے نتیجے میں بے گناہ افراد کی ہلاکتوں نے اس مظلومیت کے فیکٹر کو مزید نمایاں کر دیا۔ پاکستانی طالبان اور القاعدہ کے سسٹم کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کی ویڈیوز اور امریکی مظالم کا پروپیگنڈہ کر کے ہی زیادہ ترریکروٹنگ ممکن ہوپائی۔پاکستانی طالبان کا دوسرا اہم ہتھیار ’’اخلاقی برتری ‘‘ہے۔یہ لوگ اخلاق کے منبع یعنی اسلام کو استعمال کر تے ہیں۔ ان کادعویٰ یہی ہے کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے سرگرم اور طاغوت سے نبرد آزما ہیں۔ یاد رہے کہ یہ عسکریت پسند گروہ طاغوتی قوتوں کی اس فہرست میں فورسز کو بھی شامل کرتے ہیں۔ دلیل ان کی یہ ہوتی ہے کہ امریکی افواج پاکستان کے بغیر کبھی افغانستان پر حملہ آور نہ ہوپاتیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے اور ان کے نشر واشاعت کے شعبے اس دلیل کا توڑ کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے۔وہ کوئی ایسا بیانیہ (Narrative) پیش ہی نہیں کر سکے، جسے عوام میں پزیرائی حاصل ہوسکے۔ عوام تو ایک طرف ہماری کئی اہم سیاسی جماعتیں تک ان کے دلائل سے متاثر نہیں ہوسکیں۔ یہ اہم ترین نقطہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے عوام اسلام سے گہری واقفیت نہیں رکھتے، مگر جذباتی طور پر ان کی مذہب سے وابستگی شدید ہے۔ وہ مذہب کے خلاف کوئی بات سننے پر آمادہ ہوتے ہیں نہ ہی کسی ایسے اقدام کی حمایت کرتے ہیں، جس سے انہیں لگے کہ مذہب کو نقصان پہنچے گا۔یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی نام نہاد اسلامائزیشن سے گیارہ سال تک دھوکہ کھائے رکھا، مگر جنرل پرویز مشرف کے سیکولر ایجنڈے اور اعتدال پسند روشن خیالی پر ایک دن کے لئے بھی بھروسہ نہیں کیا۔ یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی سماج کی ساخت میں ایسٹرن اسلامک ویلیوز(مشرقی مذہبی اخلاقیات) کا بنیادی کردار ہے، یہ قدریں ان کے مزاج میں گندھی ہیں۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی غیر عملی مسلمان ہو، وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی اولاددین سے دور جائے۔اپنی اولاد میں وہ روایتی اخلاقیات، شرم وحیا ، ادب آداب اور تہذیب دیکھنے کا متمنی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنرل مشرف کے دور میں اس کے بعد ’’مذہبی شدت پسندی ‘‘کو روکنے کے لئے سیکولر ازم کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی تو اس پر ردعمل ہوا۔ مذہبی انتہاپسندی کا توڑ مذہب کی حقیقی تصویر سامنے لانا، قرآن وسنت کی تعلیمات کو عام آدمی تک پھیلانا ہے تاکہ وہ دین کو سمجھ کر شدت پسند تعبیر کو خود ہی رد کر دیں۔ سیکولرخیالات ردعمل پیدا کرتے ہیں۔ پاکستانی سماج کبھی سیکولر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف اگر سیکولر دانشور اور لکھاری ہی متحرک ہوں گے تو ان کی عوام میں پزیرائی نہیں ہوگی۔ ان لبرل سیکولر دانشوروں کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے ، مگردہشت گردوں کے خلاف سیکولر بیانیہ (Narrative)موثر نہیں ہوسکتا۔یہ بیک فائر کر چکا ہے، آئندہ بھی کرے گا۔ ریاست کو سوچ سمجھ کر ایک کائونٹر ٹیررازم پالیسی بنانی ہوگی۔ عسکریت پسندوں کا ایک خاص موقف ہے، اسے بڑے سلیقے اور مہارت سے رد کرنا ہوگا، جوابی بیانیہ(Counter Narrative) بھی ہمیں سوچ سمجھ کر دینا ہوگا۔ اس کے خدوخال کیا ہوسکتے ہیں، کائونٹر ٹیررازم پالیسی کن خطوط پر تشکیل دی جائے، اس پرانشاء اللہ اگلی نشست میں بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں