ضمنی انتخابات: کیا کھویا، کیا پایا؟

پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات کچھ متوقع اور چند ایک ڈرامائی نتائج دے کر اپنے اختتام کو پہنچے۔ اگلے چند روز تک تجزیوںاور تبصروں کا میدان گرم رہے گا، خاص طور پر نیوز چینلز کو کم از کم اس اختتامِ ہفتہ تک کے لئے مرغوب موضوع مل گیا۔سیاسی جماعتوں نے اپنے نتائج کے حوالے سے دعوے شروع کر دیے ہیں‘ جیتنے والوں کو اس کا حق بھی حاصل ہے۔ ہارنے والوں نے اپنی شکست کی تاویلیںاور توجیہیں دینا شروع کر دی ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے کچھ نہ کچھ تو دفاع کرنا ہے۔ ہمارے خیال میں‘ نتائج سے قطع نظر‘ ان انتخابات میں سیاسی جماعتیں میدان گرمانے میں زیادہ کامیاب نہ رہیں۔ ٹرن آئوٹ تو ضمنی انتخابات میں نسبتاً کم رہتا ہی ہے ،مگر سیاسی کارکنوں کی دلچسپی بھی بہت کم تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی سطح پر گرما گرمی اس وقت پیدا ہوئی جب شام کو نتائج آنے پر بعض اہم اپ سیٹ سامنے آئے،ورنہ الیکشن صرف اپنے حلقوں کی حد تک ہی محدود تھا۔ لاہور اور فیصل آباد جیسے شہروں میں تو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے بلدیاتی سطح کا کوئی الیکشن ہور ہا ہے۔بیشتر حلقوں میں الیکٹ ایبلز یعنی روایتی سیاسی شخصیات ہی اہم رہیں۔ ووٹروں نے نظریات کے بجائے شخصیات کو ووٹ ڈالا۔ مسلم لیگ ن اور دیگر پارٹیوں پر بعد میں بات کریں گے، پہلے تحریک انصاف کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے لئے ضمنی انتخابات تباہ کن ثابت ہوئے، ممکن ہے پارٹی کے پرجوش مداح اس سے اتفاق نہ کریں ،مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی جماعت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ عام انتخابات کے بعد سے عمران خان کا مسلسل اصرار ہے کہ ان کی جماعت کو دھاندلی سے ہرایا گیا۔ اس پس منظر میں زیادہ ضروری تھا کہ خان صاحب ضمنی انتخابات میں ایک زبردست انتخابی مہم چلا کر اپنی مخالف جماعتوں کی نشستیں جیت لیتے تو یوں عملی طورپر ثابت ہوجاتا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ پچھلی بار زیادتی ہوئی۔ ہوا اس کے برعکس۔ عمران خان نجانے کیوں اس بار سست رہے، انہوں نے اپنی چھوڑی ہوئی نشستوں کو بھی ایزی لیا۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ پشاور اور میانوالی کے ووٹر ان کے نام پر کھڑے کئے کھمبے کو بھی ووٹ ڈال دیں گے۔ انہوں نے ووٹروں کو اہمیت نہ دی،جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ گیا۔عمران خان کو ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی سے بھی نقصان پہنچا۔ میانوالی میں عائلہ ملک کا آخری وقت میں نااہل ہوجانا اور مقامی گروپنگ بھی اثر انداز ہوئی۔تاہم خان صاحب نے عبیداللہ شادی خیل کو انڈر اسٹیمیٹ کیا۔ وہ ہمیشہ سے مضبوط امیدوار رہے ہیں،ان کے ہر الیکشن میں ستر سے اسی ہزار ووٹ ہوتے ہیں، ان کوہرانے کے لئے ضروری تھا کہ عمران اس حلقے پر خاص توجہ دیتے، جو وہ دے نہیں پائے۔ عمران خان کے لئے بڑی سیاسی لہر بنانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ ضمنی انتخابات میں عام طور پر ووٹر حکمران جماعت کی طرف رخ کرتا ہے کہ اپوزیشن رکن اسمبلی کو جتوانے کی صورت میں حلقہ کے کام نہیں ہوپاتے۔ اس فیکٹر کو بدلنے کے لئے کسی پرجوش انتخابی مہم ، نظریاتی بنیاد پر چلائی گئی تحریک یا پھر زبردست مقامی گروپنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کو اس کی شدید ضرورت تھی، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن جوگیارہ مئی کے عام انتخابات میں بہت پرجوش اور متحرک نظر آئے، ضمنی انتخابات میں ان کی کارکردگی اس کے برعکس رہی۔ لاہور جیسے شہر میں پی ٹی آئی کے کارکن خاصا پیچھے اور بجھے بجھے سے رہے۔ ان میں وہ ماضی والا جوش وخروش مفقود تھا۔اسلام آباد میں اسد عمر کا جیتنا تحریک انصاف کے لئے واحد اچھی خبر رہی،تاہم وہاں بھی مسلم لیگ ن کی مقامی سطح پر دھڑے بندی کا انہیں فائدہ پہنچا۔ این اے ون پشاورکی سیٹ پر غلام بلور کا جیتنا تحریک انصاف کے لئے بڑ اخطرناک ہے۔ اس سے اے این پی میں دوبارہ سے زندگی لوٹ آئی ، بلدیاتی انتخابات میں انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا۔عمران خان کو اب احساس ہو رہا ہوگا کہ انہیں این اے ون کی سیٹ رکھنا چاہیے تھی۔تحریک انصاف نے نجانے کیوں اس رخ پر غور نہیں کیا، مگر عمران خان کا پشاور میں رہنا ان کی صوبائی حکومت کے لئے بہت مفید تھا۔ پشاور کے ایم این اے کے طور پر انہیں صوبائی حکومت اور مقامی ایشوز میں مداخلت کا باقاعدہ استحقاق حاصل ہو جاتا۔ اب ان کی مداخلت پر آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں کہ صوبے سے باہر سے حکومت چلائی جا رہی ہے۔پھر این اے ون پشاور کے ووٹر اندرون لاہور کی طرح ایک خاص مزاج رکھتے ہیں۔ وہ باہر کے امیدواروں کو پسند نہیں کرتے، عمران کے ساتھ انہوں نے خصوصی محبت کا سلوک کیا۔عمران خان نے جو امیدوار کھڑا کیا، ان کی شہرت بھی اچھی نہیں تھی، سوائے سرمایہ دار ہونے اور عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے بعض امیدواروں کی مہم سپانسر کرنے کے ان میں کوئی خوبی نہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اس پر مایوس ہوئے اور پارٹی میں نظریاتی گروپ بن گیا۔ دوسری طرف اے این پی اور جے یوآئی سمیت تمام اینٹی عمران خان قوتیں اکھٹی ہوگئیں، مسلم لیگی ووٹ بھی ان کے ساتھ مل گیا۔ پی ٹی آئی کے اتحادیوں نے اس طرح ان کا ساتھ نہیں دیا، نتیجہ وہی نکلا، جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ مولانا فضل الرحمن خوش نصیب رہے کہ لکی مروت کی نشست پر نتیجہ روک دیا گیا، وہاں پر تحریک انصاف کو برتری حاصل ہے، اسی طرح باخبر صحافتی حلقوں کے خیال میں ٹانک کا الیکشن بھی مولانا صاحب کو خوش کرنے کے لئے ملتوی ہوا کہ وہاں پر ان کی پوزیشن خاصی کمزور تھی۔ مسلم لیگ ن بھی اہم قومی مسائل میں الجھے ہونے کے باعث کوئی بڑی سیاسی لہر نہ پیدا کر سکی ۔ اگرچہ اس نے اپنے مخصوص انداز میں مقامی برادریوں، دھڑوں اور روایتی اثرورسوخ رکھنے والے امیدواروں پر تکیہ کرتے ہوئے لاہور، فیصل آباد اور سرگودھا وغیرہ میں آسانی کے ساتھ اپنی نشستیں برقرار رکھیں۔ جنوبی پنجاب میں البتہ انہیں خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈی جی خان اور راجن پور میں توذوالفقار علی کھوسہ اور میاں شہباز شریف کی چھوڑی ہوئی دونوں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر شکست ہوئی۔مظفر گڑھ میں بھی جمشید دستی کے بھائی کو مسلم لیگ کی خاموش حمایت حاصل تھی، وہ بھی ہار گئے۔ رحیم یار خان میں ایک سیٹ ن لیگ کو ملی ،مگر وہاں پر بھی مخالف امیدوار نے خاصے ووٹ لئے۔ہم جیسے سرائیکی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو تو اندازہ تھا، اب قومی سطح پر بھی واضح ہوگیاکہ سرائیکی ووٹر مسلم لیگ ن کی پالیسیوں سے خاصا ناخوش ہے۔میاں برادران کو سرائیکی علاقوںپر توجہ دینا ہوگی۔ عام انتخابات میں انہیں وہاں سے غیرمعمولی سپورٹ ملی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ن لیگ اپنے منشورکے مطابق نئے صوبے بھی بنائے گی اور سرائیکیوں کا احساس محرومی دور کرے گی۔ جب ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا توشدید ردعمل آنا ہی تھا۔ نتائج کے اعتبار سے اگرچہ زیادہ فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پہنچا، اس نے مظفر گڑھ اور اوکاڑہ میں نشستیں جیت کر بظاہر کم بیک کیا، جبکہ اندرون سندھ اس کا حلقہ اثر مزید پھیل گیا، سانگھڑ میں پیر صاحب پگاڑا اور ٹھٹہ میں شیرازی برادران کو شکست دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب میں بطور جماعت غائب ہی رہی۔ کسی بھی بڑے لیڈر نے انتخابی مہم چلانے کی زحمت نہیں فرمائی۔جو نشستیں انہوں نے جیتیں ، اس میں بھی مقامی شخصیات اور ان کا اثرورسوخ کارفرما تھا۔ پیپلزپارٹی اور بھٹو ووٹ بینک اس طرح اس میں شامل نہیں تھا۔لگتا ہے کہ سردست پیپلزپارٹی کی قیادت نے پنجاب اور کے پی کے میں اپنی پارٹی اورووٹروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔اندرون سندھ میں البتہ انہوں نے اپنا پورا زور لگایااور طاقت دکھائی،مگر پارٹی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف اندرون سندھ کے زور پر قومی سیاست نہیں کی جا سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں