تحریک انصاف کوکیا کرنے کی ضرورت ہے؟

کیا تحریک انصاف کا سونامی تھم گیا؟ کیا تبدیلی کے نعرے کی کشش ہوا ہوگئی اور نوجوانوں کی مقبول جماعت تاریخ کے بھولے بسرے صفحات کا حصہ بننے جا رہی ہے؟ مسلم لیگ ن کے حامی لکھاریوں اور تجزیہ نگاروں کا تو شاید یہی خیال ہے، مگر یہ نتیجہ نکالنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔ سیاسی جماعتیں اتنی آسانی سے بنتی بکھرتی نہیں، خاص کر وہ جنہیں سیاسی عصبیت حاصل ہوچکی ہو۔ تحریک انصاف میں لاکھ کمزوریاں سہی، اس کی قیادت کی غلطیاں اپنی جگہ، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تھوڑے عرصے کے دوران یہ جماعت اپنی سیاسی عصبیت پیدا کر چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے جیالوں اور مسلم لیگ ن کے متوالوں کی طرح تحریک انصاف کے پاس بھی کارکنوں کی ایک جمعیت تیار ہو چکی، جو اپنی پارٹی اور قائد کے ساتھ ایک خاص قسم کا لگائو اور وابستگی رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کو ایک بڑا ایڈوانٹیج یہ حاصل ہے کہ اس نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی پالیسیوں سے اکتائے ہوئے لوگوں کے لئے ایک آپشن پیدا کی۔ اس خلا کو پُر کیا، جو ہماری دونوں بڑی قومی سیاسی جماعتوں نے پیدا کیا تھا۔ پیپلزپارٹی ایک خاص طرز کی سیاست کرتی ہے جس کے اپنے مداح اور مخالفین موجود ہیں۔ پیپلزپارٹی کی بدقسمتی یہ رہی کہ جس بھٹو خاندان کے زور پر یہ جماعت چار عشروں تک اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی، وہ اب پیپلزپارٹی کا حصہ نہیں ۔ جناب آصف علی زرداری جو بھی کہیں یا کریں، وہ بھٹوخاندان کا حصہ نہیں۔ ان کا اپنا اسلوب سیاست ہے، جس کے اپنے مداحین اورمخالفین موجود ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک کا بڑا حصہ پچھلے چند برسوں سے کسی آپشن کے انتظار میں تھا، تحریک انصاف کی صورت میں اسے وہ پلیٹ فارم دستیاب ہوگیا۔ مسلم لیگ ن سے ناخوش ووٹروں کے ساتھ کم وبیش یہی صورتحال رہی۔ میاںبرادران نے ایک لمباعرصہ رائیٹ ونگ اور رائیٹ آف سنٹر ووٹ بینک پر قبضہ جمائے رکھا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے روایتی خاندان، اعتدال پسند افراد، مشرقی روایات کو عزیز رکھنے والے، بھارت کے خلاف ایک خاص قسم کا خطرہ اور معاندانہ جذبات رکھنے والے افراد کے لئے مسلم لیگ ایک بہترین پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتی تھی۔ جو لوگ مذہبی جماعتوں سے بیزار تھے، مگر وہ ملک میں اسلام پسند پالیسیاں اور ماحول چاہتے تھے، ان کے لئے تو یہ واحد پریکٹیکل آپشن تھی جس کا میاں نواز شریف نے سیاسی فائدہ بھی اٹھایا۔ تاہم جب وہ اپنی مصلحتوں، عالمی دبائو یا بعض دوسری وجوہ کی بنا پر اپنے روایتی موقف سے ہٹے، بھارت کے حوالے سے ان کی سوچ نہ صرف بدلی، بلکہ اس سے دوستی کے لئے ایک غیرمعمولی قسم کا جوش وخروش اور عجب انداز کا والہانہ پن پیدا ہوا۔ تب اس ووٹ بینک میں کسی حد تک دراڑ پڑی،خاص کر ان پرانے مسلم لیگی خاندانوں کی نئی نسل نے بغاوت کا نعرہ لگایا، جن کا خیال تھا کہ نئے زمانے کے تیزرفتار طور طریقے اور تبدیلی لانے کے لئے درکار صلاحیتوں سے میاں برادران تہی دامن ہیں۔ تحریک انصاف میں موجود تیسری بڑی قوت اُن پڑھے لکھے نوجوانوں اور پروفیشنلز پر مشتمل ہے، جو سیاست سے دور تھے، الیکشن کا دن وہ گھر میںسو کر گزارتے تھے، دگرگوں ملکی حالات اور عالمی سطح پر تبدیلی کے حوالے سے جاری تبدیلی کے ٹرینڈ نے انہیں مسحور کر دیا۔ ملک میں موجود سیاسی جماعتوں میں سے تحریک انصاف کے نعرے میں ان کے لئے زیادہ کشش تھی۔ اس لئے یہ لوگ دیوانہ وار پارٹی میں شامل ہوئے۔ اسی حلقے کے بیشتر لوگ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں، ان میں صبر بھی کم ہے اور انہیں تبدیلی کے تصور کو پوری گہرائی کے ساتھ کسی نے سمجھایابھی نہیں۔ا نہیں اندازہ ہی نہیں کہ سماج کو بدلے بغیر تبدیلی فوری نہیں آسکتی۔ نظام بدلنے کا نعرہ بھی انہیں پرکشش ضرور لگتا ہے، مگر اس کا ابھی انہیں ادراک نہیں کہ نظام ہوتا کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں اور بدلے ہوئے نظام کے لئے بدلے ہوئے لوگ کہاں سے آئیں گے؟ان بحثوں سے آزاد یہ نوجوان کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں، مگر کیا… اس کا انہیں شاید خود بھی اندازہ نہیں۔ تحریک انصاف پراس حلقے کا داخلی دبائو بھی سب سے زیادہ ہے، مگر یہ پارٹی کی اصل قوت اور اثاثہ بھی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو یقیناً اندازہ ہوگا کہ ان کے ووٹ بینک کا فیبرک کیا ہے، اس کی ہیئت کیسی ہے اور انہیں مایوس ہونے سے بچانا کس قدر ضروری ہے؟ ہمارے خیال میں تحریک انصاف کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ دو تین باتیں انہیں سمجھ لینی چاہئیں کہ اب سیاست سائنس بن چکی ہے۔ جس طرح پاکستانی کرکٹ ٹیم میں بعض کھلاڑی بے پناہ ٹیلنٹ کے باجود ناکام رہے کہ انہوں نے اپنا دماغ استعمال نہیں کیا یا ان کی تکنیک میں سقم تھے، جو وہ دور نہ کر پائے‘ اسی طرح سیاسی جماعتیں بھی اگر اپنے سقم دور نہیں کرتیں تو ناکامی ہی ان کا مقدر بنتی ہے۔ تحریک انصاف کو سب سے زیادہ اپنے تنظیمی ڈھانچے پر زور دینا چاہیے۔ اس میں بہت کمزوریاں اور خلا ہیں۔ عام انتخابات کے موقع پر اندازہ ہوگیا کہ پارٹی کے پاس کوئی ایسا سسٹم موجود نہیں جس کے ذریعے مختلف علاقوں کے امیدواروں کے بارے میں ڈیٹا جمع کیا جاسکے، وہاں کے غیرجانبدارانہ سروے کر کے حقیقی زمینی پوزیشن معلوم ہو اور پھر اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹکٹیں دی جائیں۔ یہ غلطی اب دور ہو سکتی ہے۔ چند ماہ بعد بلدیاتی انتخابات ہونے کو ہیں۔ ابھی سے ان کی تیاری کرنا ہوگی۔ تحریک انصاف بھی پیپلزپارٹی کی طرح ایک بڑی غلطی کر رہی ہے۔ پچھلے پچیس تیس برسوں میں پیپلزپارٹی نے پنجاب میںصوبائی سیاست کرنے کے لئے لیڈرشپ پیدا کی نہ ہی وہ اس سطح کی تنظیم سازی کر سکی۔ ان کے تمام نمایاں لیڈرخواہ وہ فاروق لغاری ہوں یا یوسف رضا گیلانی یاحالیہ دور میں قمر الزماں کائرہ وغیرہ…یہ سب مرکز میں چلے گئے، نتیجے میں صوبے میں اوسط سے بھی نچلے درجے کی قیادت باقی رہی۔ یہی غلطی تحریک انصاف کر رہی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ عام انتخابات میں اس پارٹی کے کسی مرکزی لیڈر نے صوبائی اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑا۔ جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسحاق خاکوانی وغیرہ سب مرکز کی طرف گئے۔ اگر تحریک انصاف الیکشن جیت جاتی تو وزیراعلیٰ کسے بنایا جاتا؟ موجودہ قائدحزب اختلاف تو ضلع لاہور کی سطح کے لیڈر ہیں، جنہیں مجبوراً یہ منصب سونپا گیا۔ عمران خان کو سوچ سمجھ کر ایک یا دو مرکزی لیڈروں کو صوبے میں لانا ہو گا تاکہ صوبائی تنظیم ہر معاملے میں ان کی طرف نہ دیکھے اور ان کے پاس صوبائی معاملات نمٹانے کے لئے میچور لیڈرشپ موجود ہو۔ عمران خان کئی بار اعتراف کر چکے کہ ان کی مستقبل کی سیاست خیبر پختون خوا میں ان کی کارکردگی سے مشروط ہے۔ اب اس حوالے سے انہیں کچھ کر گزرنا چاہیے۔ عملی طور پر ابھی تک کچھ بھی نہیں ہو پایا۔ پشاور کے عوام نے عمران خان سے بڑی توقعات باندھی تھیں، ان کے مسائل حل ہونے چائییں۔ دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جسے صوبائی حکومت تنہا حل نہیں کر سکتی، مگر وہ سیاسی اثرورسوخ سے پاک اہل اور دیانت دار پولیس افسروں کی تعیناتی تو کر سکتی ہے۔ میرٹ پر سلیکشن کرنے میں تو کوئی محنت درکار نہیں۔ صوبے میں اغوا برائے تاوان کے نیٹ ورک کو اچھی پولیسنگ کے ذریعے توڑا جا سکتا ہے۔ پشاور اور دوسرے بڑے شہروں میں سٹریٹ کرائم بھی بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ بعض اقدامات اچھے ضرور ہوتے ہیں، مگر وہ عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتے کہ ان کا براہ راست عوام پر اثر نہیں پڑتا۔ اطلاعات تک رسائی کا قانون بہت اچھا کام ہے، مگر لوگوں کو اس کی افادیت جلد سمجھ میں نہیں آئے گی۔ لوگوں کو ہسپتالوں، سکول اور تھانوں میں ریلیف چاہیے۔ تعلیم ،صحت ، لا اینڈ آرڈر اور روزگار کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔کرپشن کم ہو گی تو اس کا تاثر زیادہ گہرا ہو گا۔ انتظامیہ کا رویہ اگر بدلا تو اس کی خوشبو خود بخود ہر ایک تک پہنچے گی۔ تحریک انصاف کو یہ کام ہر صورت کرنے ہوں گے، ورنہ وہ اپنا اثاثہ ایک ایک کر کے لٹا بیٹھے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں