عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیوں کیے جائیں؟

تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد یہ سوال اٹھتا رہتا ہے کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں یا نہ کیے جائیں۔پاکستان کے بعض دیگر ایشوز کی طرح ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے زبردست کنفیوژن اور اختلافِ رائے موجود ہے۔ کچھ لوگ مذاکرات کے حق میں ہیں تو بہت سوں کے خیال میں کسی بھی قیمت پر مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ امر ہماری سیاست اور انٹیلی جنشیا کے فکری تضادات کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں سب سے پہلے تو اس نکتے کو سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیوں کیے جاتے ہیں اور اگر مذاکرات کیے جائیں توکیا لائحہ عمل اپنایا جائے۔ ٭ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ماڈرن پولیٹیکل سائنس میں مذاکرات کو ایک اہم سٹریٹجک اصطلاح کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس سے مراد کسی فریق کا ہتھیار پھینک دینا یا ہتھیار اٹھا لینا نہیں۔ یہ ایک باقاعدہ قسم کی Structured اپروچ ہے،جس سے ایک خاص قسم کا امپریشن یا علامتی اظہار مقصود ہوتا ہے۔ اس سے کئی قسم کے فائدے اٹھائے جاتے ہیں۔ ریاست اس سے تین چار ایڈوانٹیجز حاصل کرتی ہے۔ ایک تو دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ ہم خون بہانے کے لیے بے چین نہیں اور ہم امن کو موقعہ دینا چاہتے ہیں۔ ایک بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عسکریت پسندوں میں موجود اعتدال پسند حلقے‘ جو شدت کی طرف نہیں جانا چاہتے یا جو خون بہانے سے بیزار ہوچکے ہیں، انہیںمذاکرات کے ذریعے موقعہ دیا جاتا ہے کہ وہ الگ ہوسکیں یا مرکزی دھارے میں دوبارہ سے شامل ہوجائیں۔ ہارڈ کور عناصر سے متعلقہ چھوٹے موٹے گروپوں یا ان کو سہولتیں پہنچانے والے ہم خیال عناصر یعنی(Facilitators)کو بھی وارننگ مل جاتی ہے۔ انہیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پھر اگلا مرحلہ سخت تر ہوگا ، ان میں سے کچھ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یوں ہارڈ کور گروپ کو علیحدہ کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ ٭ کسی بھی گوریلا جنگ یا عسکریت پسندی کا خاتمہ آخرکار مذاکرات کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ اگر کچلنے کی حکمت عملی اپنانی ہے تو یہ کام تو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی آپریشن دراصل دو مذاکرات کے درمیانی وقفے کا نام ہے، ایک ناکام مذاکرات جو معاملات کو آپریشن کی طرف دھکیل دیتے ہیں، دوسرے کامیاب مذاکرات جو گوریلا گروپوں کی کمر توڑنے کے بعد آخرکار کرنے ہی پڑتے ہیں۔ مارو یا مر جائو(Do or Die) والی پالیسی تو مسلح گروپوں کی ہوتی ہے کہ ان کے پاس آپشن ہی محدود ہوتے ہیں۔ ریاست کے پاس کئی آپشن ہوتے ہیں۔ریاست بسا اوقات کسی ایشو کو لمبا کھینچ کر، ان کے بنیادی مطالبات مان کر، محرومی کی وجوہات دور کر کے یا گروپوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے اپنے مفادات حاصل کرسکتی ہے۔ معاملات صرف آپریشن سے کبھی نہیں سلجھتے۔ ایک گروپ اگر کمزور ہوبھی جائے تو وہ کچھ عرصے کے بعد جب فوج واپس چلی جائے ، دوبارہ سے منظم ہونے لگتا ہے، اس کوسیاسی اعتبار سے ہی ختم کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح برطانیہ نے آئرش باغیوں کے ساتھ کیا۔ آئرش ری پبلک آرمی کے ساتھ برسوںکشمکش رہی ،ان کے خلاف مختلف نوعیت کے آپریشن ہوئے ، معاملہ آخر سیاسی مذاکرات سے ختم ہوا۔ اس لیے مذاکرات کو حکومت یا ریاست کی کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے، یہ امن پسندی اور معاملات کو الجھائے یا خونریز بنائے بغیر حل کرنے کی خواہش بھی ہوسکتی ہے۔ ٭ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست اپنی نیک نیتی ثابت کرے۔ ریاستی قوت چونکہ ہر حال میں مسلح گروپوں سے زیادہ ہوتی ہے، اس کے وسائل لا محدود اور افرادی قوت بے پناہ ہوتی ہے، اس لیے عسکریت پسند ہمیشہ عدم تحفظ سے دوچار رہتے ہیں۔ انہیں خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں ریاست ہمیں کچلنے کا بہانہ تو نہیں ڈھونڈ رہی۔ اس لیے ریاست کو اپنی نیک نیتی اور کریڈیبلٹی بار بار ثابت کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے اداروں کا کریڈیبلٹی گراف تو پہلے ہی نچلی سطح کو چھُورہا ہے، اس لیے ان پر کچھ زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ریاست کو ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مذاکرات کے عمل میں بھی خون بہے گا۔ کچھ سخت گیر اور انتہائی موقف رکھنے والے عناصر ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی صورت میں مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ وہ امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ریاستی اداروں کو اس حوالے سے انتہائی مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔ جو گروپ یا کمانڈر امن کے حق میں ہیں یا جو ریاست کی سائیڈ لیں، ان کا ہر ممکن اور پوری قوت کے ساتھ‘ ساتھ دینا چاہیے۔ یہ بات ہر ایک پر واضح ہو جانی چاہیے کہ جو ریاست کے ساتھ یعنی امن کی طرف آجائے گا، اس کی حفاظت کی جائے گی، اسے تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ تبھی ایک ایک کر کے دوسرے گروپ امن کی طرف آئیں گے۔ مذاکرات کے حوالے سے ضمانتی ضروری ہیں، بعض مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے نام لیے گئے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، مگر بعض حلقوں کے خیال میںممتاز علمائے دین اور چند بڑے مدارس جیسے جامعہ بنوریہ ٹائون اور جامعہ حقانیہ یاجامعہ رشیدیہ وغیرہ کے شیوخ پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بننی چاہیے۔ ان علماء کا پاکستانی طالبان اور ان سے ملحقہ گروپوں پر خاصا اثرورسوخ ہے یا یہ کہنا چاہیے کہ وہ لوگ ان ممتاز علما ئے دین کا احترام کرتے ہیں۔ ٭ یہ شرط بے جا اور غلط ہے کہ پہلے ہتھیار پھینکے جائیں پھر مذاکرات کیے جائیں گے۔ جس نے ہتھیار پھینک دئیے ،ا س سے کیا مذاکرات ہوں گے؟ مذاکرات ہونے ہی اس لیے ہیں کہ ہتھیار رکھ دیے جائیں تو یہ شرط عائد کرنے کی کوئی تُک نہیں۔ ہاں یہ بات عسکریت پسندوں پر بھی واضح ہونی چاہیے کہ مذاکرات کامیاب ہوجانے کے بعد انہیں ہتھیار رکھنے ہوں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ ان کے ساتھی بھی جیلوں سے رہا کر دیے جائیں، فورسز بھی ان علاقوں سے نکل جائیں ، جن پر برسوں کی محنت اورقربانیوں کے بعد قبضہ کیا گیا،آپریشن بھی مکمل طور پر روک دیا جائے اور عسکریت پسندوں کے یہ تمام مطالبے پورے ہوجانے کے بعد وہ بدستورمسلح اور طاقتور پوزیشن میں رہیں۔ انہیں ہتھیار رکھنے ہوں گے اور پرامن معاشرے کا دوبارہ سے حصہ بننا ہوگا۔اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ ٭ ایک بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ اتنے سارے گروپ ہیں ،کس کس سے بات کی جائے؟ یہ بات لاعلم لوگ ہی کرتے ہیں۔ اہم ادارے اور لوگ جانتے ہیں کہ کس سے بات کرنی ہے؟ اس وقت سب سے بڑی تنظیم تحریک طالبان پاکستان ہے ،جس کے امیر حکیم اللہ محسود ہیں۔ مذاکرات انہی سے کرنے ہوں گے۔ دوسرے کئی گروپ ٹی ٹی پی کے زیرا ثر ہیں یا اس سے مخالفت مول نہیں لے سکتے۔ پنجابی طالبان ہوں یا لشکر جھنگوی کے مختلف گروپ ،یہ ٹی ٹی پی سے الگ رہ کر قبائلی علاقوں میں نہیں رہ سکتے، ان کے بقا کا سوال پیدا ہوجائے گا۔ اسی طرح بعض چھوٹے گروپ جو کسی کسی خاص علاقے میںسرگرم ہیں ، ان سے الگ الگ نمٹا جا سکتا ہے، مثلاً مولوی فضل اللہ، فقیر محمد کا محدود دائرہ کار ہے، اسی طرح عمر خالد کے گروپ کا بھی مہمند ایجنسی میں زیادہ اثر ہے، لشکر جھنگوی کے اینٹی ہزارہ گروپ کو الگ سے ڈیل یا کائونٹر کیا جا سکتا ہے۔ اگر ٹی ٹی پی سے مذاکرات کامیاب ہوگئے تو اس کا ایک خاص نفسیاتی اثر ہوگا اور باقی چھوٹے موٹے گروپوں کے لئے اس طرح کارروائیاں کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی طرح بلوچستان میں تین چاربڑے گروپ ہیں، حیربار مری کی بی ایل اے، ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف، براہمداغ بگٹی کی بی آراے، جاوید مینگل کی لشکر بلوچستان۔ ان میں سے بھی اگرایک دو بڑے گروپوں کے ساتھ معاملات طے پا گئے تو دوسروں پر دبائو آجائے گا اور پھر ان کا مخصوص علاقہ ہوگا،جس پر فوکس کر کے ان کو کائونٹر کیا جا سکتا ہے۔ مختلف محاذ پر لڑنے سے ایک یا دو محاذوں پر لڑنا نسبتاً آسان ہوگا۔ یہ سب کچھ ممکن ہے ،مگر سب سے پہلے حکومت کو اپنی نیک نیتی ثابت کرنا اور سول ملٹری سوچ کو یکساں بنانا ہوگا۔ اس کے بعد قوم کو یکسو کرنے کا مرحلہ ہے ،تاکہ اگرمذاکرات ناکام ہوں تو پھر آخری حل کے لیے قوم اداروں کی پشت پر کھڑی ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں