دہشت گردی کے خلاف نئی پالیسی کیا ہونی چاہیے؟

دو باتیں بڑی سادہ اور واضح ہیں۔ ایک یہ کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نئی پالیسی بنانا لازمی ہوچکا ہے۔ دوسرا: اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے بہترین فورم آل پارٹیز کانفرنس ہے۔ جہاں تک نئی کائونٹر ٹیررازم پالیسی کے تعلق ہے، اس کے خدوخال واضح کرنا حکومتی اور اہم قومی اداروں کا کام ہے؛ تاہم اس حوالے سے چند اہم نکات کی نشاندہی ضروری ہے۔ ٭ سب سے پہلے تو اس کانام بدلنا چاہیے۔ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘کوئی اچھی اصطلاح نہیں۔ یہ بری طرح پٹ بھی چکی ہے۔ یہ فقرہ سن کر امریکی صدر جارج بش کا چہرہ ذہن میںآ جاتا ہے کہ یہ اصطلاح انہوں ہی نے سب سے پہلے استعمال کی تھی۔جنگ کے نام ہی سے یوں محسوس ہوتاہے جیسے غیروں کے خلاف لڑا جا رہا ہو۔ درحقیقت ہماری لڑائی کئی حوالوں سے اپنوں کے خلاف ہے۔ ان گروہوں کے خلاف جو ہمارے اپنے ہیں، مگر انہوں نے مختلف وجوہ کی بنا پر ہتھیار اٹھا لئے ہیں۔ ہماری لڑائی اور تمام تر جدوجہد رول آف لا کو یقینی بنانے کے لئے ہونی چاہیے۔ اس کا نام کچھ بھی رکھا جا سکتاہے۔قومی پالیسی برائے بحالی امن یا قومی پالیسی برائے یکجہتی وغیرہ۔ ٭بعض حلقے یہ سوال اٹھا سکتے ہیں اور انہیں اس کا حق ہے کہ نئی کائونٹر ٹیررازم پالیسی کیوں وضع کی جائے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہمارے نیشنل سٹرکچر کے بارے میں یہ عام تصور (Perception) ہے کہ یہاں فیصلہ سازی کے کئی مراکز ہیں۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ اس سے ظاہر ہے مشکلات پیدا ہوتی ہیں، خاص طور پر جب بحرانی حالات ہوں، اس وقت معاملات سنبھالے نہیں جاتے۔ باہر والوں کو مداخلت کرنے کا موقعہ ملتا ہے اور وہ اپنے ایجنڈے کے لئے مختلف پاور سنٹرز کو استعمال کرتے ہیں۔ جب نیشنل سکیورٹی پالیسی ایک ہو،ایک جگہ بیٹھ کر فیصلے کئے جائیں تو سب کو ذمہ داری اور اونرشپ لینی ہوگی۔ تب کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ مجھے پتہ نہیں تھا۔ جوائنٹ سٹرکچر بنے گا، انفارمیشن شیئر ہوگی،تب ذمہ داری بھی شیئر ہوگی۔ ہر ایک کو معلوم ہوگا کہ کرائسس کے موقعہ پر جان چھڑانا ممکن نہیں۔ ٭ سب سے اہم فائدہ یہ ہوگا کہ پالیسیوں میں تسلسل ممکن ہوسکے گا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا کہ حکومتیں بدلنے کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ جب ایک نیشنل سکیورٹی پالیسی ہوگی، تب یوٹرن نہیں ہوپائے گا۔ اس طرح ہم دائروں کے سفر میں جتے رہنے کے بجائے آگے کی طرف دیکھ سکیں گے اور سفر کریں گے۔ میاں محمد نواز شریف اقتدار میں رہیں‘ تحریک انصاف کو موقعہ ملے یا پیپلز پارٹی دوبارہ آجائے ، ہر صورت میں دہشت گردی کے حوالے سے قومی پالیسی ایک رہے گی۔ اس نوعیت کی نیشنل سکیورٹی پالیسی اگلے پچاس ساٹھ برسوں کے لئے بنائی جاتی ہے۔ ہمیں بھی ایسا ہی سوچنا ہوگا۔ ٭ملک میں امن وامان قائم ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کی ہر معاشرے کو ضرورت رہتی ہے، مگر پاکستان اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمارے ملک میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوگی تو اس کے اکانومی پر غیرمعمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ آج کے دور میں اکانومی ہی جدید ریاست کو آگے بڑھانے والی اہم ترین قوت ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کی جو نئی صورت سامنے آئی ہے، اس نے ہمیں ایک تاریخی موقعہ فراہم کر دیا ہے۔ چین کے ساتھ نئے ارینجمنٹ کی وجہ اس کے اپنے مسائل اور مشکلات ہیں۔ چین کو جنوبی چینی سمندر (South China Sea)میں گمبھیر مسائل درپیش ہیں۔ وہاں کی علاقائی قوتیں جنوبی کوریا، جاپان وغیرہ چین کو پیچھے دھکیل رہی ہیں۔ ملائشیا، فلپائن اور آسیان کے دوسرے ممالک بھی ان کے ساتھ ہیں۔ چین کے لئے وہاں مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ اس کا نتیجہ ہمارے حق میں نکلا ہے۔ چین اس بار پاکستان میں اپنا معاشی راستہ بنانے کی سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ خنجراب سے گوادر تک جس سٹرک اور تجارتی راستے کی بات ہوئی، وہ ہماری معیشت میں انقلاب لا سکتا ہے۔ ہمارے بیشتر دانشور، صحافی اور تجزیہ کار‘ جو دن رات منفی اور مایوس کن خبریں بڑی مسرت سے سناتے ہیں، ان میں سے کسی نے اس امکان پر بات نہیں کی کہ یہ کتنا بڑا قدم ہے اور اس کے پیچھے چونکہ چین کے اپنے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم مفادات موجود ہیں، اس لئے اس بار وہ ہر حال میں اسے مکمل کرنا چاہیے گا۔ ہم اپنی معیشت کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے جا سکتے ہیں ،مگر اہم ترین عنصر سکیورٹی کا ہے۔ امن وامان قائم نہ ہو پایا تو چین بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔ ٭ایک اہم بات جو ہماری حکومت اور قومی ادارے تو جانتے ہیں لیکن عوام، انٹیلی جنشیا اور خاص طور پر میڈیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بہت سی غیرملکی قوتیں اس ساری منصوبہ بندی کو ناکام بنانا چاہیں گی۔ پاکستان کی ترقی کے امکانات کو معدوم کرنا چاہیں گی۔ ان میں بڑی عالمی قوتیں اور ریجنل طاقتیں بھی شامل ہیں۔ ممکن ہے ،ان میں بعض ہمارے دوست ممالک بھی شامل ہو جائیں ،جن کے اپنے تجارتی مفادات ہیں اور گوادر سے چین تک کا تجارتی راستہ جن کے مفاد میں نہیں‘ ہمیں ان سب کو کائونٹر کرنا ہوگا۔ اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ دشمن یہ بتانا چاہیں گے کہ پاکستان کے اہم ترین پاور سنٹرز بھی محفوظ نہیں، اس لئے پاکستان کو کوئی ریجنل رول نہ دیا جائے۔ دوسری طرف ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہمارے دور دراز کے علاقے تک محفوظ ہیں۔ ٭ ہمیں اپنے اہداف واضح رکھنے چاہئیں۔ یہ جنگ اندر سے باہر کو لڑی جائے گی، شہروں سے سرحدوں کا سفر کرے گی۔ اس لئے سب سے اہم ہمارا اپنا انٹیلی جنس نیٹ ورک اور پولیس کا نظام ہے۔ ہمیں پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی بنیادوں پر منظم کرنا ہوگا۔ پولیس اور اس کے ذیلی محکموں سی آئی ڈی وغیرہ میں پوٹینشیل ہے۔ ان کی کمزوریاں اور خامیاں دور کی جائیں۔ جہاں نفری درکار ہو، فراہم کی جائے، جدید ہتھیاراور آلات، اچھی ٹریننگ اور اہل افسران کا تقرر۔ کامیابی کی یہی کلید ہے۔ ہیومن انٹیلی جنس نیٹ ورک اور جدید دیجیٹل آلات کے امتزاج سے ایسا مضبوط سسٹم بنایا جائے جو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑ سکے۔ پولیس کا کردار اس لئے اہم ہے کہ اس نے پورا سال یہی کام کرنا ہے، کوئی بھی اور کائونٹر ٹیررازم فورس بنائی گئی تو وہ عارضی بنیادوں پر ہوگی اور پھر اسے منظم کرنے اور اس کے جڑیں پکڑتے بہت وقت لگ جائے گا۔ پولیس کی جڑیں عوامی حلقوں میں ہوتی ہیں۔ ان کا روایتی مخبروں کا نظام ہے، جسے مزید منظم کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف دہشت گردوں کی اصل قوت انہیں سہولتیں فراہم کرنے والے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے آنے والوں کو جو لوگ ٹھیراتے، طعام اور قیام کی سہولتیںفراہم کرتے، اسلحہ پہنچاتے اور ریکی کر کے مقررہ ہدف تک پہنچاتے ہیں، وہ سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس نیٹ ورک کو توڑ دیا جائے تو دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ چند ہفتے پہلے پولیس اور ایجنسیوں نے لاہور سے القاعدہ اور طالبان کا ایک مضبوط نیٹ ورک پکڑا،جو کالیںٹیپ کرتے اور ایک غیرقانونی ایکسچینج چلاتے تھے۔ اس نوعیت کی کامیابی ایک درجن فیلڈ ایجنٹس پکڑنے سے زیادہ بہتر ہے ۔ ہمیں اپنے شہریوں کا پتہ ہو کہ وہ کدھر ہیں، ان کے کن سے رابطے ہیں، کون ہے جو آ کرلاہور پنڈی جیسے شہروں میں مکان لے کرمزے سے رہنا شروع کر دیتا ہے؟ یہ سب روکنے کے لئے ایسے بیریئرز کھڑے کرنا ہوں جو عبور کرنا مشکل ہوجائیں۔ ٭ پولیس کے محکمے میں اصلاحات لانے کے ساتھ فیئر ٹرائل بل پر بھی نیک نیتی سے عمل کیا جائے۔ مسنگ پرسنز سے ہر صورت گریز کرنا ہوگا۔ یہ زیادہ خوفناک صورتحال پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ طے ہو کہ معلومات اور شواہد جمع کئے بغیر مقدمات قائم نہیں ہوں گے ورنہ وہ عدالت سے چھوٹ جائیں گے۔ عدالتوں پر تنقید بلاجواز ہے۔ عدالتی نظام شہادت پر مبنی ہے۔اگر شہادتیں نہیں ہو ں گی توملزم ظاہر ہے چھوٹ جائے گا۔ ہمیں فرانزک کو مضبوط بنانا ہوگا۔جدید کریمنالوجی کو سمجھنے والے لوگوں سے تفتیشی افسروں کی تربیت کرانا ہوگی۔یہ سب نئی نیشنل سکیورٹی پالیسی کے دائرے میں آتی ہیں۔ ہم پہلے ہی بہت دیر کرچکے ہیں، مزید دیر نہیں کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں