نئے صوبوں کا ایشو فراست کا متقاضی ہے!

نئے صوبوں کا ایشو دبائے نہیں دب رہا۔ کچھ عرصے کے بعد دوبارہ اچھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس بار یہ ایشوسرائیکی یا ہزارہ قوم پرستوں نے نہیں اٹھایا‘ نہ ہی کسی ایسی سیاسی جماعت نے اسے مہمیز دی ،جس کا مقصد ان علاقوں سے ووٹ لیناہے۔ البتہ اس نعرے یا شوشے کے پیچھے ایک ایجنڈا ہو سکتا ہے ،جسے سمجھنا مشکل نہیں۔ الطاف بھائی نے دہشت گردی کے حوالے سے کامیاب آل پارٹیز کانفرنس کے فوراً بعد بیان داغا کہ نئے صوبوں کے حوالے سے بھی ایک اے پی سی بلائی جائے۔ اس مطالبے کا ایک خاص پس منظر ہے، گمان یہی ہے کہ وہ کراچی آپریشن کے حوالے سے دبائو بڑھانا چاہتے ہیں، ممکن ہے کچھ اور بھی ان کے پیش نظر ہو۔ ان کے بیان سے نئے صوبوں کے ایشو پر بحث دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جوپنجاب کو تقسیم کا نام سن کر ہی جذباتی ہوجاتے ہیں۔اس معاملے کو جذباتیت سے ہٹ کردیکھنا ہوگا۔ چند پہلو ایسے ہیں،جنہیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ٭ جہاںتک موجودہ صوبوں کی تقسیم اورنئے صوبے بنانے کا تعلق ہے تو اس میں اصولی طور پر توکوئی حرج نہیں ۔دنیا بھر میں جب آبادی حد سے بڑھ جائے‘ گورننس کے ایشو سامنے آئیں یا کسی علاقے کی آبادی میں محرومی بڑھے اور انتظامی شکایات پیدا ہوں تو نئے صوبے بنا دیے جاتے ہیں۔ بھارت کی مثال اس لئے زیادہ اہم ہے کہ ان کامعاملہ ہم سے ملتا جلتا ہے۔ وہاں آزادی کے بعد بہت سے نئے صوبے بنائے گئے ، ان میں سے کچھ انتظامی بنیادوں پر بنے تو کئی لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر بھی بنائے گئے۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی وہاں لسانی بنیاد پر ایک اور صوبہ بنایا گیا۔خود بھارتی پنجاب کے حصے کر کے تین صوبے بنا دئیے گئے۔ اس لئے یہ سوچا جانا چاہیے کہ پاکستان میں بھی ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جب ہمارے ہاں کسی صوبے کو تقسیم کرنے کی بات آئے گی تو فطری طور پر پہلا نمبر پنجاب کا ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ پنجاب کا سائز اور آبادی ہے۔ دنیا میں کوئی اور ملک ایسا نہیں جس کا ایک صوبہ باقی تینوں صوبوں سے بڑا ہو۔ پاکستان میں جب بھی کوئی نیا صوبہ بنا، وہ پنجاب کو تقسیم کر کے بنے گا۔ اس پر کسی کو ناراض یا جذباتی ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ فطری اور منطقی تقاضا ہے۔ ٭ البتہ نیا صوبہ لسانی یا ثقافتی بنیاد پر نہیں بننا چاہیے۔ میرے لئے یہ بات کہناآسان نہیں کہ جب بھی یہ بات لکھی یا کہی، ہمیشہ سرائیکی قوم پرستوں کے شکوے اور طعنے سننے کو ملے کہ تم بھی ’’تخت لاہور‘‘ کے ایجنٹ بن گئے ہو۔اس ایشو پر برسوں غور وفکر کیااور پوری طرح قائل ہو کر لکھ رہا ہوں کہ ہم لسانی یا ثقافتی بنیاد پر کسی نئے صوبے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ حالات ہمیں اس ایڈونچر کی اجازت نہیں دیتے۔ ہمارے ہاں مختلف قومیتوں کو آپس میں جوڑنے کی مربوط اور منظم کوششیں کبھی نہیں ہوئیں۔ ہماری اپنی غلطیوں اور کچھ غیر ملکی سازشوں کے باعث ایک قومیت دوسری کے حوالے سے شکوک کا شکار رہتی ہے،اس لئے کوئی نیا پنڈورا باکس کھولنا حماقت ہوگی۔ یہ البتہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہمیں قومی سوچ اور پاکستانی ثقافت کوزیادہ سے زیادہ پروموٹ کرنا چاہیے؛ تاہم اگرقومیتوں اور علاقائی ثقافت کو آگے بڑھا یا گیا تو پھر صرف چار قومتیوں کی بات نہیں بلکہ وطن عزیز کے گلدستے میں کھلنے والے ہر پھول کی بات کرنا ہوگی۔ پنجابی، سندھی، بلوچ اور پشتون کے ساتھ سرائیکی، ہزارہ، پوٹھوہاری، براہوی اور گلگتی، بلتی زبانوں اور ثقافت کی بھی بات کرنا ہوگی۔ہمارے بعض اردو سپیکنگ دوستوں کا اصرارہے کہ اردو بولنے والوں کو بھی اس صف میں شامل کیا جائے۔ مجھے ذاتی طور پر تو کوئی اعتراض نہیں ۔ ان کا اس حوالے سے اگر کوئی احساس محرومی اگر ہے تو وہ دور ہونا چاہیے۔ نسبتاً کم آبادی رکھنے والے قومیتیں بھی اتنی ہی اہمیت اور توقیر رکھتی ہیں،جتنا کہ بعض بڑی قومیتیں۔یہ ممکن نہیں کہ پنجابی ثقافت اور زبان وادب کی بات ہوتی رہے اور سرائیکی اپنی زبان اور ثقافت نظرانداز ہونے پر احتجاج نہ کریں۔سرائیکی زبان اور سرائیکی قومیت کے مسائل کو نظرانداز نہ کیا جاتا تو آج وہاں اس قدر تلخی نہ ہوتی۔ اسی طرح پشتونوں کو اپنے صوبے کی تمام نمایاں قومیتوں کی بات کرنی ہوگی۔ ہزارہ وال کے زخموں پر محبت کا مرہم رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔ ٭ اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ نیا صوبہ دو بنیادی ایشوز پر بنے۔ گورننس کے مسائل اور صوبائی دارلحکومت سے دوری۔جو علاقے صوبائی ہیڈکوارٹر سے سینکڑوں میلوں کی دوری پر واقع ہیں، وہاں پر معاشی اور سماجی پسماندگی ہونے کے علاوہ صوبائی دفاترتک رسائی دشوار ہے۔ مثلاً بہاولپور،لیاقت پور، خان پور، بھکر جیسے علاقے لاہور سے آٹھ دس گھنٹوں کی دوری پر واقع ہیں۔ رحیم یار خان، صادق آبادتک کا فاصلہ تو دس بارہ گھنٹوں کا ہے۔اس لئے جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن(ملتان ، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان)اورمیانوالی، بھکر کے اضلاع پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ بنانا بہتر ہے۔ پیپلزپارٹی نے اس کا دارالحکومت بہاولپور تجویز کر کے خواہ مخواہ کی کشیدگی پیدا کی۔ ملتان ہر اعتبار سے درمیان میں پڑتا ہے، اسے ہی دارالحکومت بننا چاہیے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ گورننس سے مراد کسی شہر کے ٹریفک اور سیوریج وغیرہ کے مسائل ہرگز نہیں۔ انتظامی یا صوبائی دارلحکومت سے دوری کی بنیاد پر نیا صوبہ بنانے کا اصول ہی غیر متنازع رہ سکتا ہے۔ ورنہ کل کو ہر صوبے کے دارالحکومت‘ ہر اعتبار سے ترقی یافتہ اورمعاشی مراکز ہیں، بھی مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں الگ صوبہ بنایا جائے۔ کراچی ، لاہور اور پشاور وغیرہ اگر یہ مطالبہ کریں تو بلاجواز ہے کہ وہاں پر ہر چیز موجود ہے، البتہ انہیں الگ کرنے سے باقی صوبے کے عوام کے لئے مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ ویسے بھی ملکی وسائل کا کثیر حصہ صرف کر کے بعض شہروں کو اس لئے معاشی مرکز بنایا جاتا ہے کہ ان کے ثمرات پورے ملک کو ملیںنا کہ وہ اکیلے ہی مزے لوٹیں۔ ٭ نئے صوبوں کے حوالے سے ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس مسئلے کو میڈیا کے ذریعے حل کرنے کے بجائے کمیشن بنا کر اٹھارویں آئینی ترمیم کی طرز پر خاموشی سے کام کیا جائے۔ ایک میکنزم وضع کیا جائے اور سیاسی سٹنٹ بنائے بغیر اس جانب بڑھا جائے۔ یہ خیال رکھا جائے کہ بحث میں تلخی نہ آئے، لوگوں میں کشیدگی سرائیت نہ کرنے پائے۔ نفرت کی سوداگروں کو باہر رکھتے ہوئے محبت اور خلوص سے یہ کام کیا جائے۔ مجوزہ کمیشن دو یا تین برسوں کا روڈ میپ دے ۔ اس دوران مجوزہ نئے صوبے پر کام کیا جائے۔ وہاں انفراسٹرکچر بنایا جائے ۔ صوبائی ملازمتوں ، پولیس اور ماتحت عدلیہ میں نئی ریکروٹنگ کرتے ہوئے اس علاقے کا خاص کوٹہ ہو، مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جائے، انہیں تربیت ملے تاکہ کل کو وہ ذمہ داری نبھانے کے قابل ہوں۔ وہاں اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیز بنائی جائیں تاکہ مستقبل میں طلبہ کے لئے مسائل نہ پیدا ہوں۔ نئے صوبے بنانے کا کام بالکل اسی نہج پر ہونا چاہیے ،جس طرح کوئی باپ یا بڑا بھائی اپنے بیٹے یا چھوٹے بھائی کو الگ مکان دے کر سیٹل کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ضرورت اور سہولت کی ہر چیز دی جائے تاکہ وہ خوشی سے الگ رہ سکے۔ اسی طرح باہمی تعلقات بھی خوشگوار رہ سکتے ہیں ۔ حرف آخر کہ پیپلزپارٹی نے نئے صوبوں کے نام پر سیاست کی، سرائیکی عوام نے انہیں بری طرح مسترد کر دیا۔ مسلم لیگ ن نے نسبتاً ٹھوس بات کی تھی، نئے صوبوں کے وعدے کو اپنے منشور کا حصہ بنایا اورجنوبی پنجاب کے عوام کو یقین دہانی کرائی کہ وہ سیاست نہیں کریں گے۔ انہیں عوام نے قبولیت بخشی۔ اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ سیاست کئے بغیر اس معاملے کو خوش اسلوبی اور مہارت سے پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔میاں برادران اگر چاہیں تو وہ سرائیکی عوام کے دل جیت کر نئی تاریخ مرتب کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں