ایک ننھی سی شمع

دوسروں کا پتا نہیں، میرا ذاتی تجربہ تو یہی ہے کہ مطالعہ ایسی چیز ہے جو ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیتا ہے۔ فرسٹریشن اور ڈپریشن کے لمحات ہوں یا شدید تھکن کے، ہمیں تو کتاب اور مطالعہ ہی دوبارہ زندگی کی طرف لوٹاتا ہے۔ اہل خانہ میں سے بعض اس پر متوحش ہوتے ہیں کہ سارا دن کتابوں، اخبارات اور رسالوں میں گزار کر آئے اور گھر آتے ہی ایک اور رسالہ اٹھا لیا۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ پانی کے جانور پانی ہی میں خوش اور ریلیکس ہوتے ہیں۔ان لمحات پر جب چاروں طرف سے مایوسی کی یلغار ہے، ایک نو سالہ بچی کی داستان عزم نے حیران کر دیا۔ کمال کی کہانی ہے۔ پچھلے دنوں کسی اخبار یا میگزین میں اس حوالے سے کچھ چھپا تھا، بعد میں انٹرنیٹ پر بیٹھ کر ریسرچ کی تو پوری تفصیل سامنے آئی۔ نو سالہ کیٹی سٹیگلیانو کی روداد نے حیران کردیا۔ خوشگوار حیرت اس بات پر بھی ہوئی کہ کس طرح سکول ٹیچر، والدین، مذہبی رہنما، دوست اور سماج ایک نو سالہ بچی کے خوابوں کی تکمیل میں معاون ثابت ہوا۔ دل چاہا کہ وہ تفصیل روزنامہ دنیا کے اس قاری کو بھیج دوں جس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ہم لوگ کیا کر سکتے ہیں؟ دو تین دن پہلے اسلام آباد سے کسی منصور رضا صاحب کی ای میل آئی۔ ملکی حالات سے وہ سخت شاکی اور مضطرب تھے۔ سیاستدانوں کی نااہلی، حکومت کے ظالمانہ فیصلوں، میڈیا کی جارحانہ اپروچ اورہر طرف پھیلی پریشانیوں کا نوحہ رقم کیا۔بار بار ایک فقرہ لکھتے کہ ایسی صورتحال میں آخر ہم جیسے لوگ کیا کریں جن کا حکومتی فیصلوں میں کوئی عمل دخل ہے نہ اہم حلقوں تک رسائی؟ میں نے ان صاحب کی میل کا جواب نہیں دیا۔ سچ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی شافی جواب تھا ہی نہیں۔ پاکستان آج کل ڈپریشن کے شدید ترین حملے سے گزر رہا ہے۔ جس سے بات ہو، اس کے آنکھوں سے حزن جھلکتا اور مایوسی ٹپکتی ہے۔ایک عجب انداز کی جھنجھلاہٹ اور غصہ ہر ایک کے اندر ابلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بجلی اورپٹرول کے حالیہ اضافے نے تو اونٹ کی پشت پر آخری تنکے والا کام کیا ہے۔ وہ دوست جو مسلم لیگ ن کے حامی تھے، جنہوں نے پورے زور شور سے اپنی پارٹی کے لئے انتخابی مہم چلائی ، مستقبل کے سہانے سپنے خود دیکھے اور دکھائے‘ اب یہ لوگ اپنا منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان کی پارٹی کو کیا ہوگیا۔ عدم مقبولیت کی جس سطح پرسابق حکومت تین سال میںپہنچی تھی، یار لوگوں نے تین چار مہینوں میں وہ حاصل کر لی۔خیربات سائوتھ کیرولینا، امریکہ کی نو سالہ بچی کیٹی سٹیگلیانو کی ہو رہی تھی۔ یہ کہانی پانچ سال پہلے شروع ہوتی ہے جب چوتھی کلاس(گریڈ فور)کی طالبہ کیٹی سٹیگلیانو کو اس کی سکول ٹیچر نے بند گوبھی کا بیج دیا۔ یہ ریاست غذائی قلت کا شکار رہی ہے۔ ایک ریاستی پروگرام کے تحت سکولوں میں گوبھی اور بعض دوسری سبزیوں کے بیج بانٹے گئے تاکہ بچوں کو باغبانی میں دلچسپی پیدا ہو۔ کیٹی نے اپنے گھر کے چھوٹے سے باغیچے میں بندگوبھی کا وہ بیج بو دیا۔اس کے والدین نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے پودے کی خود دیکھ بھال کرے۔ دوسرے عام بچوں کی طرح ننھی کیٹی کو بھی اس میں مزہ آیا، وہ بڑے شوق سے پانی وغیرہ دیتی رہی۔ کچھ عرصے بعد گوبھی کاکئی پونڈ وزنی پھول بن گیا۔ اس کے والدین نے سوچا کہ بیٹی کو چیریٹی کی طرف راغب کیا جائے۔ ان کے مشورے سے کیٹی وہ بند گوبھی ایک ادارے میں لے گئی ،جہاں غریب اور مستحق لوگوں کو مفت سوپ دیا جاتا تھا۔ کیٹی جب وہاں گئی تو لوگوں کی لمبی قطار دیکھ کر حیران رہ گئی۔ان مفلوک الحال لوگوں نے حیرت سے بچی کو دیکھا جو کئی پونڈ وزنی گوبھی بمشکل اٹھا کر لے آئی تھی۔ ان کے پوچھنے پر کیٹی نے بتایا کہ یہ اس نے خود اگائی ہے اور وہ اپنی مرضی سے ان کے سوپ کے لئے لے آئی ہے۔ لوگوں کو یہ اتنا اچھا لگا کہ ان سب نے بیک زبان بلند آواز میں کیٹی کا شکریہ ادا کیا۔ چوتھی کلاس کی طالبہ کے لئے یہ بڑا خوشگوار لمحہ تھا۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کی معمولی سی کوشش اتنے لوگوں کو خوش کر سکتی ہے۔ اس کا دل خوشی سے سرشار ہوگیا۔ بعد میں ادارے کی منتظمہ نے فون کر کے کیٹی کی ماں کو بتایا کہ اس گوبھی کے سوپ سے بہت سے لوگ مستفید ہوئے۔ یہ نوسالہ بچی کے لئے ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔ کیٹی نے اس کے بعد ایک مہم شروع کی۔ اس نے اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز کو اس تحریک میں شامل کیا۔ ان سب نے اپنے گھروں کے باغیچے میں گوبھی ، ٹماٹر اور دوسری سبزیاں اگانی شروع کیں جو بعد میں مفت سوپ دینے والے خیراتی ادارے کو دے دی جاتیں۔کیٹی کا مورال اس قدر بلند ہوا کہ ایک روز وہ اپنے سکول کی پرنسپل کے پاس ایک تجویز لے کر پہنچ گئی۔ پرنسپل پہلے تو حیران ہوئی ، پھر اس نے چوتھی جماعت کی طالبہ پر اعتماد کا فیصلہ کیا اور سکول کا ایک بڑا گرائونڈ کیٹی اور ان کے دوستوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ وہاں پر سبزیاں اگا سکیں۔ یہ اس تحریک کا ایک اورفیصلہ کن موڑ تھا۔ ممکن ہے اگر سکول انتظامیہ بچی کی حوصلہ شکنی کرتی تو وہ دلبرداشتہ ہو کر بیٹھ جاتی۔ ان کے تعاون اور سپورٹ نے کیٹی کے جوش کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ اس کی کوشش سے مقامی چرچ نے بھی ایک بڑا کھیت اس کے لئے مختص کر دیا۔ آج کیٹی کراپس(Katie\'s Crops)کے نام سے بہت سے ایسے کھیت ہیں، جہاں سبزیاں اگا کر مستحق لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہیں یا پھر ان کو مفت کھانا اور سوپ فراہم کرنے والے اداروں کو دی جاتی ہیں۔ بارہ سالہ کیٹی سکول میں پڑھ رہی ہے، مگر اس کے کام نے انسپائریشن کی ایسی لہر پیدا کی کہ امریکہ کی بائیس ریاستوں میں اس ماڈل کی پیروی کی جا رہی ہے۔اسے کلنٹن ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ کیٹی نے اپنے پیج پر بڑے خوبصورت بلاگ لکھے ہیں۔ مجھے وہ بلاگ پڑھ کر سوات کی ملالہ یوسف زئی کی ڈائری یاد آئی۔ نوعمر لڑکی کی ذہنی پختگی اور سوچ دیکھ کربڑی مسرت ہوئی۔ کیٹی نے یہ نہیں دیکھا کہ امریکہ کن بڑے مسائل میں الجھا ہے، عالمی سیاست میں اس کا کردار کیا ہے، امریکی معاشرے میں پھیلی شدید سیاسی پولرائزیشن بھی اس کا موضوع نہیں۔ اس نے تو اپنے معصوم ذہن سے صرف یہ سوچا اور دیکھا کہ ان کے شہر اور ریاست میں کتنی غربت ہے، کتنے ایسے لوگ ہیں جن کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہوسکتا۔ اس نے گمبھیر مسائل سے پریشان ہو کر ہتھیار ڈال دینے کے بجائے صرف یہ سوچا کہ اس کے چھوٹے سے عمل سے اگر ایک بھی شخص کی بھوک مٹ سکتی ہے تو اسے وہ کرنا چاہیے۔ رفتہ رفتہ قدرت کی لافانی قوتوں نے اس کی مدد کی اور وہ ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کا سبب بن گئی۔ کیٹی کے ایک ریڈیو انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ پڑھتے ہوئے مجھے بڑا اچھا لگا جب اس نے اینکر کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں مرنے سے پہلے غربت اور بھوک کی اس ہولناک دیوار میں ایک ڈینٹ ڈالنا چاہتی ہوں، میں نے نو سال کی عمر میں بھوک مٹانے کا جو خواب دیکھا تھا، اگر میرے دنیا سے جانے کے بعددوسرے لوگ بھی اسے آگے بڑھاتے ہیں تو مجھ سے زیادہ خوش کوئی اور نہیں ہوگا۔جب پوچھا گیا کہ تمہار اہیرو کون ہے تو بارہ سالہ بچی کا جواب تھا: ’’ہر وہ شخص جو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے سرگرم رہتا ہے‘ خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے ،مگر خواب پورا کرنے کے لئے صرف ہیرو ہی قدم آگے بڑھاتے ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں