گزرے لمحات کی تھکن

روڈ ڈرہیرایک معروف امریکی صحافی ہیں۔ایک نسبتاً چھوٹی امریکی ریاست لوزیانا سے تعلق رکھنے والے اس صحافی نے بڑی محنت کے ساتھ امریکہ کی سخت مسابقت والی صحافتی انڈسٹری میں اپنی جگہ بنائی۔ وہ کئی معروف جریدوں اور اخبارات کے لئے کالم اور ریویو لکھتے رہے۔ روڈ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل، لاس اینجلس ٹائمزمیں چھپنے اور سی این این ، فوکس نیوز جیسے چینلز پر پروگرام کرنے والے اس مصروف صحافی کی زندگی میں ایک ایسا ٹرن آیا ،جس نے اسے اپنے پورے صحافتی سفر اور اپنی زندگی کی معنویت پر ازسر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا۔اچانک اسے محسوس ہوا کہ جس چمکتی دمکتی زندگی کو وہ اپنا نصب العین سمجھ رہا تھا، جس لائف سٹائل کا اس نے خواب دیکھا اور پھر اس کی تعبیر پانے کے لئے دن رات ایک کر دیے تھے، وہ سب مصنوعی اور سطحی تھا۔ لیکن اس سے پہلے روڈ ڈرہیر کی زندگی پر ایک نظرکہ اس کے بغیر اصل کہانی سمجھ نہیں آسکے گی۔ روڈ امریکی ریاست لوزیانا کے ایک قصبے سٹارہل کے ایک درمیانے گھرانے میں پیدا ہوا۔باپ ایک کسان اور ماں ایک سکول وین کی ڈرائیور تھی۔ روڈ کوبچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ اسے اپنے قصبے کے ماحول سے چڑ تھی۔ وہ ہمیشہ کڑھتا کہ یہاں کہ لوگ چھوٹی سوچ اور محدود ویژن کے حامل ہیں۔ سولہ سال کی عمر میں وہ گھراور قصبہ چھوڑ کر بورڈنگ سکول چلا گیا۔ لوزیانا یونیورسٹی سے گریجوایشن کے بعد اس نے صحافت کو اپنا کیرئر بنانے کا ارادہ کیا اور اپنی دانست میں ہمیشہ کے لئے آبائی قصبہ سٹارہل اور لوزیانا سٹیٹ چھوڑ کر پہلے بوسٹن شفٹ ہوگیا۔ وہ واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک میں بھی مقیم رہا۔ اپنے کیریئر کو بہتر سے بہتر بنانے، بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کی دھن میں وہ آگے بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس کا گھر اور اپنے آبائی قصبے سے رابطہ کم ہوتا گیا، جہاں اس کی چھوٹی بہن روتھی رہتی تھی۔ روتھی نے بھائی کے برعکس سٹارہل ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے والدین کی مرضی سے شادی کی اور ایک سکول میں ٹیچر ہوگئی۔ اپنی خوش مزاجی، نرمی اور محبت کے باعث قصبے کی مقبول ترین ٹیچروں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ روتھی قصبے کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتی، فلاحی کاموں کے لئے کام کرنے والے گروپوں کا حصہ بنتی اور قدرے دھیمے مگر موثر انداز سے اپنے علاقے کے نیم دیہی نیم شہری سماج میں کنٹری بیوٹ کرتی رہتی۔ اسے اپنے بڑے بھائی روڈ سے محبت تھی جو کبھی کبھار اپنے خط، فون یا کرسمس کارڈ کے ذریعے اپنی کامیابیوں کی تفصیل بتاتا رہتا۔ کس طرح وہ بڑے شہروں میں شاندار لائف سٹائل سے لطف اندوز ہو رہا ہے… یورپ کے دورے، اخبارات میں کالم اور آرٹیکل ، مداحین کا بڑھتا ہوا حلقہ، ان کے فون اور ای میلز، فلموں اورکتابوں پر چھپنے والے تبصرے جن کو پڑھ کر بہت سے لوگ اپنی رائے بناتے اور تبدیل کرتے تھے۔یہ سب بڑا پرکشش اور گلیمر سے بھرپور تھا، مگر روتھی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے خاوند اور تین بیٹیوں پر مشتمل فیملی، اپنے بوڑھے ماں باپ، رشتے داروں، سہیلیوں، قصبے کے جاننے والے خاندانوں اور اپنے طلبہ وطالبات میں مگن رہتی تھی۔ روڈ اور روتھی بہن بھائی ہونے کے باوجود دو الگ الگ دائروں میں زندگی گزار رہے تھے۔ روڈ کے خیال میں روتھی ایک بیکار، بور اور غیر فائدہ مند زندگی گزار رہی تھی۔ اسے خود پر فخر محسوس ہوتا، جس نے اپنے خواب کو پانے کے لئے دن رات محنت کی۔ سولہ سولہ گھنٹے کام کیا، راتوں کو جاگ جاگ کر ریسرچ کی اور ایسے آرٹیکل لکھے، جن سے صحافتی برادری میں اس کی دھاک بیٹھ گئی۔ اپنے صحافتی کیرئر میں اس نے کئی تہلکہ خیز سکینڈل بھی بے نقاب کئے۔ اہم طاقتور شخصیات، گروپس اور اداروں کو بے نقاب کرنا کبھی آسان نہیں تھا مگر روڈ نے ایسا کر دکھایا۔گزرے ماہ وسال کی تھکن گاہے اس پر وارد ہوتی، مگر وہ اسے جھٹک دیتا۔ہر رات جب وہ سونے کے لئے بستر پر لیٹتا تو اس کی جلتی آنکھوں میں نیند طوفانی بگولے کی طرح اُمڈ آتی۔ اس کے ٹوٹتے بدن کی ہمت جواب دے جاتی۔ اگلی صبح مگر وہ پھر سے جی اٹھتا۔ اپنے حوصلوں کی شکستہ فصیل کو ازسرنو تعمیر کرتا اور ایک تھکے مگر پرعزم گھوڑے کی طرح دوبارہ سے میدان میں اترجاتا۔ پھر 2010ء کی ایک سرد بے رحم شام اسے اطلاع ملی کہ اس کی اکلوتی بہن روتھی کو کینسر ہے، تشخیص دیر سے ہوئی اور ڈاکٹروں نے صرف تین مہینے کی مہلت بتائی ہے۔ روڈ کے لئے یہ بہت بڑا شاک تھا۔ اس کی چالیس سالہ بہن اپنی صحت کا خیال رکھتی تھی مگر کینسر نے پھر بھی اسے آدبوچا تھا۔روڈ ان دنوں فلاڈلفیا میں مقیم تھا۔ وہ اپنی بہن کو ملنے سٹارہل آیا۔ باہمت روتھی کے حوصلے جوان تھے۔ اس نے کینسر سے لڑنے کا عزم کر لیا تھا۔ ڈاکٹروں کی پیش گوئی کے برخلاف روتھی انیس ماہ زندہ رہی ۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دن تک فعال رہی۔ روڈ بیماری کے ان دنوں میں بہن سے قریب ہوگیا۔ وہ وقتاً فوقتاًچکر لگاتا رہتا، فون پر روتھی سے باتیں کرتا اور اس کا حوصلہ بڑھاتا۔ روڈ کی توقعات کے برعکس سٹارہل قصبے کے لوگوں نے روتھی کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے اس کے علاج کے لئے امدادی شو کرایا اور ہزاروں ڈالر جمع کر لئے۔ اسے حیرت ہوتی جب وہ دیکھتا کہ قصبے کے ننھے بچوں سے لے کر ان کے والدین اور بوڑھے دادا دادی تک روتھ کا حوصلہ بڑھانے، اس کے ساتھ وقت گزارنے اور اس کا خیال رکھنے کے لئے آتے رہتے۔ ان کے اپنے خاندان نے بھی اس المیے کو اپنا المیہ سمجھا۔ خاندان کے بڑوں اور ان کی اولادوں نے روتھی کا بھرپور ساتھ دیا۔ روڈ کا خیال تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ نام کمایا، خوشحالی حاصل کی اوراپنے بچپن کے خواب کو پورا کیا۔ اسے اب احساس ہوا کہ اس سب کچھ کے باوجود کہیں اندر سے وہ پوری طرح خوش نہیں۔ اسے وہ آسودگی حاصل نہیں ،جو اس نے کینسر جیسی بیماری سے جنگ لڑنے والی اپنی بہن میں دیکھی۔ اسے محسوس ہوا کہ روتھی اپنی زندگی میں جس قدر خوش رہی، اس نے زندگی کے پیڑ سے جس قدر رس کشید کیا، روڈ اس سے محروم رہا۔ جب اس نے اپنے دوستوں اور کولیگز کی زندگیوں کا جائزہ لیا تو اسے محسوس ہوا کہ ان سب نے زندگی میں کامیابیاں تو حاصل کیں‘ ان کی مالی حالت بھی بدل گئی،دنیا کے بہترین مقامات کی وہ سیریں کرتے ہیں‘ بہترین کھانے کھاتے، قیمتی لباس پہنتے، بہترین گاڑیاں چلاتے اور زرومال میں کھیلتے ہیں،مگر اندر سے وہ خوش نہیں۔اس نے ایک ایک کر کے بہت سے لوگوں سے گفتگو کی۔ ان سے باقاعدہ انٹرویو کیے، سب کا یہی ماننا تھا کہ ’’ہم جو چاہتے تھے ، وہ ہمیں مل گیا، ہمارے جو خواب تھے وہ بھی پورے ہوئے ، مگر خوشی روٹھ گئی۔ اندر سے ہم خالی ہیں۔ ہم سب سیلف میڈ لوگ ہیں، دن رات محنت کر کے بہت کچھ حاصل کیا،مگر اس کی بھاری قیمت بھی چکائی۔ اپنے خاندان سے دوری، اپنے ماں باپ سے فاصلہ، سب سے بڑھ کر جس سماج کا ہم حصہ تھے، جہاں ہماری جڑیں تھیں، وہاں سے کٹ گئے۔ تیزرفتار مشینی زندگی نے اتنی فرصت ہی نہیں دی کہ اپنی زندگی کی معنویت پر غور کر سکیں۔ چند لمحوں کے لئے ٹھیر کر سوچ سکیں، واپسی کا راستہ کھوج سکیں۔ گزرے ماہ وسال کی صعوبتوں، کڑے لمحات کی تھکن نے ہمارے وجود کو شکستہ کر دیا ہے ،مگر اب شائد بہت دیر ہوچکی ۔‘‘روڈ نے مگر اپنی زندگی کا پیٹرن بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے روتھی کے تجربات کے حوالے سے ایک کتاب لکھی، اپنی فیملی کو لے کر کچھ عرصے کے لئے لوزیانا منتقل ہوگیا۔ اس کا کیریئر اسے دوبارہ بڑے شہروں کی طرف لے گیا،مگر اب وہ اپنے ماضی سے جڑ چکا تھا۔اس نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا: ’’آپ کے خواب اہم ہیں ،مگر زندگی میں اس سے بھی اہم چیزیں موجود ہیں۔ خواب پانے کی کوشش ضرور کریں، مگر اپنی زندگی کے دوسرے حصوں کی قربانی کی قیمت پر یہ کام ہرگز نہ کیجئے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں