توجہ اصل ایشو پر مرکوز کی جائے!

ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ اصل ایشو خواہ جس قدر اہم ہو، اس پر ہونے والی بحث ٹریک سے ہٹ کر نان ایشوز کی جانب چلی جاتی ہے۔ یہ طرز فکر بیشتر معاملات میں نظر آتا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ میڈیا کی جارحیت اور ایشو بنانے کے لیے ٹی وی چینلز کی کبھی نہ ختم ہونے والی بھوک‘ سیاستدانوں اور لیڈروں کا بے موقع بولنا اور بولتے رہنا، دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی جذباتیت اور انتہا پر جا کر پوزیشن لے لینا وغیرہ۔ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا ایشو ہی دیکھ لیجیے۔ اس واقعے کو محض پانچ چھ روز ہوئے ہیں۔ دھچکا اس قدر غیرمتوقع تھا کہ ہر کوئی ہل کر رہ گیا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ گہرائی اور گیرائی سے تجزیہ کر کے ایک ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جاتا مگر ہم ایک بار پھر نان ایشوز میں الجھ گئے ہیں۔ اخبارات اور چینلز میں یہ بحث جاری ہے کہ حکیم اللہ شہید ہیں یا نہیں اور اگر وہ شہید ہیں تو ان کے گروپ کے ہاتھوں مارے جانے والے پاکستانی شہری اور جوان کیا تھے؟… وغیر ہ وغیرہ۔ میرے خیال میں اصل ایشو یہ نہیں۔ اس ڈرون حملے نے موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اس پوری صورتحال کو ایک بڑے تناظر میں دیکھیں۔ اس حوالے سے دو تین نکات اہم ہیں۔ ٭ حکیم اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کے امیر اور ایک متنازع شخصیت تھے۔ فاٹا اور کے پی کے سمیت ملک کے کئی علاقوں میں جاری عسکریت پسندی کی ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) ہی ہے۔ اس عسکریت پسندی کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی جانیں جا چکی ہیں، جن میں فورسز کے بے شمار جوان اور اعلیٰ افسر بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے اس کی ذمہ داری ٹی ٹی پی پر عائد ہوتی ہے۔ سوال مگر ٹی ٹی پی اور اس کے مرحوم یا مقتول امیر کی معصومیت یا مجرم ہونے کا نہیں۔ یہ بحث تو اس دن ختم ہو گئی تھی جب آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر حکومت کو یہ اختیار دیا کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کیے جائیں۔ ظاہر ہے یہ اختیار دیتے وقت اچھی طرح سوچ سمجھ لیا گیا تھا کہ جس شخص یا تنظیم سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں، اس پر متعدد دھماکے کرنے اور بے شمار افراد کی ہلاکت کے الزامات ہیں۔ ملک کی تمام قابل ذکر سیاسی قوتوں نے، جنہیں بھرپور عوامی مینڈیٹ بھی حاصل ہے، حکومت کو یہ اختیار دیا کہ وہ ماضی کو پس پشت ڈال کر امن مذاکرات کرے۔ ظاہر ہے‘ مذاکرات کامیاب ہو جاتے تو طالبان کمانڈر اور جنگجو‘ سب دوبارہ مرکزی دھارے میں شامل ہو جاتے۔ ریاست کی رٹ تسلیم کرتے ہی ان پر عائد الزامات اور خون کے چھینٹے حرف غلط کی طرح مٹ جاتے۔ دلچسپ تضاد یہ ہے کہ بلوچستان میں جنگجوئوں نے ڈیڑھ ہزار سیٹلر مار دیے ہیں، بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان ری پبلک آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ جیسی تنظیمیں اس ساری قتل و غارت کی ذمہ داری قبول کر چکی ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے سیاسی لیڈر ہوں یا دانشور، اینکر ہوں یا میڈیا پرسنز، سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ شدت پسند بلوچ لیڈروں سے مذاکرات فوری شروع کیے جائیں بلکہ ناراضی ہے کہ ابھی تک ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے ان بلوچ لیڈروں پر مقدمے چلانے اور سزائیں دینے کے لیے تو مذاکرات نہیں ہوں گے۔ مذاکرات اگر کامیاب ہو گئے تو سب بلوچ لیڈر وطن واپس لوٹیں گے اور ان کا شاندار استقبال ہو گا، ان پر عائد تمام الزامات ختم ہو جائیں گے، کوئی نام بھی نہ لے گا۔ ٭ مجھے جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن پر حیرت ہوئی کہ وہ کس سادگی کے ساتھ ٹریپ ہو گئے۔ حکیم اللہ محسود کو شہید کہنے یا نہ کہنے کی بحث میں الجھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس وقت یہ ایشو ہے ہی نہیں۔ اس سوال سے با آسانی بچا جا سکتا تھا۔ سید صاحب ویسے بھی مفتی ہیں نہ معروف معنوں میں کوئی عالم دین۔ انہیں اس جال میں پھنسنے کے بجائے روئے سخن اصل موضوع پر رکھنا چاہیے تھا کہ حکیم اللہ جو بھی تھا، اصل بات یہ ہے کہ اس وقت جب وہ اور اس کی تنظیم حکومت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے جا رہی تھی‘ اسے نشانہ کیوں بنایا گیا؟ کیا امریکیوں کو یہ علم نہیں کہ پاکستان کس قدر شدید مشکلات سے دوچار ہے، عوام کتنی تکلیف میں ہیں اور پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دینے کی کس قدر سزا بھگتی ہے۔ اب جب کہ عوام، حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر، ایک ہی جگہ کھڑے ہو کر امن کو موقع دینے لگے ہیں، اچانک ہی امریکہ نے سب عمل کیوں تہس نہس کر دیا؟ ہمارے ہاں ایک بڑے حلقے کی شروع سے یہ سوچ تھی کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے، ہم اس میں غیرضروری طور پر الجھے ہوئے ہیں۔ ایک وقت میں ہماری سول ملٹری لیڈرشپ کا بیانیہ یہ تھا کہ نہیں اب یہ ہماری بھی جنگ بن چکی ہے، اس لئے ہم اسے لڑنے پر مجبور ہیں۔ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے نے یہ واضح کر دیا کہ امریکہ پاکستان کو اس جنگ سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہتا۔ اگر یہ پاکستان کی جنگ ہے تو پھر اس کو اپنے انداز سے لڑنے کا اسے حق ہونا چاہیے۔ عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کھل کر یہ بات کہی کہ موجودہ امریکی طرز عمل ہمیں چوائس کے حق سے محروم کر رہا ہے۔ ہم امن کا راستہ بھی اگر خود منتخب نہیں کر سکتے تو پھر اس سے زیادہ بے بسی اور کیا ہو گی؟ ٭ سوشل میڈیا پر بعض لوگ مسلسل یہ مہم چلا رہے ہیں کہ حکیم اللہ محسود پر حملہ حکومت پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر کرایا ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی۔ ہر بات کی کوئی نہ کوئی منطق ہوتی ہے۔ حکومت یا حساس ادارے آخر ایسی حماقت کیوں کریں گے؟ بڑی مشکل سے، بڑے جتن کر کے ٹی ٹی پی کو مذاکرات کے لیے رضامند کیا گیا۔ اب جبکہ مذکرات کا عمل شروع ہونے والا تھا، یہ امکان تھا کہ کوئی بڑا بریک تھرو ہو جائے‘ پنجابی طالبان پہلی بار نرم ہوئے، عصمت اللہ معاویہ جیسے خطرناک کمانڈر نے امن مذاکرات کی ہامی بھر لی اور اس جنگ سے باہر نکلنے کا اشارہ دیا۔ ملا فضل اللہ اور عمر خراسانی کا مہمند ایجنسی گروپ پہلی بار قدرے کمزور پڑتا نظر آیا، امن کی حامی لابی ٹی ٹی پی میں اس قدر طاقتور کبھی نہ ہوئی تھی۔ یہ سب کچھ پچھلے چھ سات برسوں میں پہلی بار ہوا۔ حکیم اللہ محسودکی ہلاکت سے سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ جو کچھ حاصل کیا جا چکا تھا، وہ ضائع ہو گیا، سب دوبارہ صفر سے شروع کرنا ہو گا۔ پاکستانی سول ملٹری لیڈرشپ نے امن کو موقع دینے کی جو کوشش کی، اس ڈرون حملے نے اسے غارت کر دیا۔ سوچنے کی بات ہے‘ آخر ہمارے ادارے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی کیوں مارتے؟ ٭ بعض لکھنے والوں نے حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے کہ ابھی تک مذاکرات شروع کیوں نہیں کیے گئے تھے۔ یہ ناانصافی ہے۔ مجھے حکومت کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف ہے مگر اس معاملے میں سارا ملبہ اس پر ڈالنا زیادتی ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے پیش رفت ہو رہی تھی، اگرچہ اس کی رفتار قدرے سست رہی، مگر اتنے الجھے ہوئے معاملے میں سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ اصل زیادتی اور قصور امریکہ کا ہے، جسے ہم سب کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ہماری لبرل سیکولر لابی میں اتنی اخلاقی جرات تو بہرحال ہونی چاہیے کہ امریکہ نے جو زیادتی کی، اس کی مذمت کرے اور اس کے پیچھے موجود ایجنڈے کو سمجھے۔ ہمارے بیشتر لبرل سیکولر دوستوں کی حب الوطنی اور نیشنل ازم شک و شبے سے بالاتر ہے۔ ان کا اپنا نظریہ اور سوچ ہے، طالبان کی فکر سے انہیں اس قدر چڑ اور بیزاری ہے کہ وہ ہر حال میں طالبان کی مخالف سمت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ بعض مواقع البتہ ایسے ہوتے ہیں جب اپنے نظریاتی مخالفین کی بھی کسی اصولی موقف میں حمایت کرنی پڑ جاتی ہے۔ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ بھی ایسا ہی ایک ایشو ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خلط مبحث کے بجائے اصل ایشو پر توجہ مرکوز کی جائے کہ امریکہ نے یہ ڈرون حملہ کیوں کیا؟ اس سوال کے اندر تمام جواب موجود ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں