پاکستانی طالبان اور ملا فضل اللہ

صورتحال نے ایک عجیب موڑ لے لیا ہے۔ یہ تو نظر آ رہا تھا کہ حکیم اللہ محسود کے بعد ٹی ٹی پی واضح طور پر تین چار حصوں میں منقسم ہو چکی ہے۔ محسود قبیلہ‘ جو پاکستانی طالبان کے لیے اصل قوت اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، میں اس بار دو گروپ بن گئے۔ محسود قبیلے کی ذیلی شاخوں میں سید سجنا کو زیادہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل تھی۔ اکثریت ان کی حامی تھی؛ تاہم حکیم اللہ محسود کے خاص ساتھیوں کا گروپ مختلف سوچ رکھتا تھا۔ باقی دو گروپ ملا فضل اللہ اور مہمند ایجنسی کے عمر خراسانی کے تھے۔ پہلے مرحلے پر جب عصمت اللہ شاہین بیٹھنی یا بھٹنی کو عبوری امیر بنایا گیا تو اسی وقت محسود قبیلے کی اندرونی تقسیم ظاہر ہو گئی۔ بھٹنی قبیلہ پوری طرح پرو پاکستان ہے، جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے دوران بھٹنی قبیلے نے فورسز کا ساتھ دیا اور بیت اللہ محسود کے جنگجوئوں کی دشمنی مول لی؛ تاہم عصمت اللہ بھٹنی ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جو ٹی ٹی پی کے ساتھ رہے۔ عبوری امیر کسی بھٹنی کو بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ محسودوں کے مختلف دھڑوں کے مابین کشمکش کو روکا جائے۔ یہ خدشات شروع سے نظر آ رہے تھے کہ فضل اللہ اور مہمند گروپ کے علاوہ ٹی ٹی پی کے دیگر جارحانہ موقف رکھنے والے بھی کوشش کریں گے کہ تنظیم کی امارت کسی سخت گیر کمانڈر کو دی جائے جو امن مذاکرات کا مخالف ہو۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ لابی کامیاب ہو گئی۔ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان اور موجودہ ترجمان شاہداللہ شاہد اکثر میڈیا پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پاکستانی فوج یا حکومت کے کہنے پر ٹی ٹی پی میں تقسیم کی خبریں پھیلاتا اور پاکستانی طالبان کو تقسیم کرنے کی کوششیں کرتا ہے۔ انہیں حق ہے کہ کوئی بھی رائے رکھیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اخبار نویسوں کو واقعات کی ترتیب اور اندرونی خبروں سے ملنے والے معدوم اشاروں کو ملا کر تجزیہ کرنے کی خاص تربیت ہوتی ہے۔ ممکن ہے کسی ایشو پر یہ تجزیہ غلط ثابت ہو جائے لیکن اس سے ان کی دیانت داری اور اخلاقیات پر حرف نہیں آتا۔ جہاں تک ملا فضل اللہ کے ٹی ٹی پی کا امیر بننے کا تعلق ہے تو اس تبدیلی کو مدنظر رکھ کر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اب عسکریت پسندی کے رجحان میں واضح تبدیلی آئے گی۔ اس حوالے سے چند نکات اہم ہیں۔ ٭ملا فضل اللہ‘ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کی نسبت زیادہ ریڈیکل، بے لچک اور سخت گیر موقف کے حامل ہیں۔ ان کے پیش رو محسود کمانڈر بھی سخت گیر تھے لیکن ان کا فہم دین نسبتاً کم بے لچک تھا۔ بیت اللہ محسود نے قبائلی ایجنسیوں میں کبھی بچیوں کے سکول بند نہیں کرائے تھے، ان سکولوں کو بارود سے اڑانے کا کام بھی خاصا دیر سے کیا گیا۔ گرلز سکولوں کو بند کرانے کی ابتدا ملا فضل اللہ نے سوات میں کی تھی۔ وہ پولیو ویکسین پلانے اور بچیوں کی تعلیم کے شروع ہی سے مخالف تھے۔ حکیم اللہ محسود نے تھوڑے عرصے کے لئے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی جبکہ ملا فضل اللہ اس کے برعکس مدرسے سے پڑھے لکھے ہیں اور ان کے حامی انہیں عالم دین کا درجہ دیتے ہیں۔ ملا فضل اللہ کا پاک فوج اور پاکستانی ریاست کے بارے میں موقف انتہائی سخت اور بے لچک ہے۔ فورسز نے جس طرح آپریشن کر کے انہیں سوات سے بے دخل کیا، اس کی تلخ یادیں ان کے ذہن میں پوری طرح تازہ ہوں گی۔ بیت اللہ اور حکیم اللہ دونوں مشکل حالات کے باوجود وزیرستان ایجنسیوں ہی میں مقیم رہے اور افغانستان جانے سے گریز کیا۔ فضل اللہ نے البتہ نہ صرف افغان صوبہ کنڑ میں پناہ لی، اسے اپنا بیس کیمپ بنایا اور وہاں سے پاکستانی فورسز پر حملے کئے۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی سے رابطے میں ہیں اور وہ انہیں فنانس کرتی رہی ہے‘ اس لئے توقع یہی ہے کہ ٹی ٹی پی اب آل آئوٹ وار کی طرف جائے گی۔ اگلے چند دنوں میں شدید حملوں کی توقع ہے۔ اس بار ٹی ٹی پی پنجاب میں بھی محاذ جنگ کھولے گی۔ انہیں اندازہ ہے کہ اس جنگ کو پنجاب کے شہری علاقوں تک پھیلانے ہی سے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو پریشانی لاحق ہو گی۔ ملا فضل اللہ سوات میں اپنا کھویا ہوا اثرورسوخ دوبارہ پانے کی بھی ضرور کوشش کریں گے۔ ٭یہ پہلا موقع ہے کہ خیبر پختون خوا کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی لیڈرشپ ٹی ٹی پی پر چھا گئی ہے۔ نائب امیر خالد حقانی کا تعلق بھی صوابی سے ہے۔ اب ٹی ٹی پی کے سٹرکچر اور مزاج میں بھی نمایاں تبدیلی آئے گی۔ پہلے محسود جنگجو اس کی اصل افرادی قوت تھے، پہلی بار امارت محسود قبیلے سے باہر گئی ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران سب سے زیادہ نقصان محسود قبیلے کو برداشت کرنا پڑا۔ جانی اور مالی نقصان کے علاوہ ان کے لڑکے تعلیمی اور سماجی اعتبار سے بھی پسماندہ رہ گئے؛ تاہم ٹی ٹی پی کی امارت کی وجہ سے انہیں دوسرے قبائل پر ایک قسم کی برتری حاصل تھی۔ اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ محسود کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں جس قدر لڑائی تیز ہو گی، محسود اس قدر تیزی سے امن کی طرف جائیں گے۔ سید سجنا پر اندرونی دبائو بڑھا تو وہ کیا طرزعمل اختیار کریں گے، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ٭ پنجابی طالبان کا کردار مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ عصمت اللہ معاویہ نے امن مذاکرات کی حمایت کی تھی، ان کا رویہ خاصا نرم تھا لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ ان پر ٹی ٹی پی کے سخت گیر حلقوں کا دبائو بڑھے گا۔ ملا فضل اللہ کہہ چکے ہیں کہ جس گروپ نے حکومت سے رابطہ رکھا، اسے سزا دیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پنجابی طالبان کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ اب انہیں کوئی نہ کوئی واضح پوزیشن لینا ہو گی، ٹی ٹی پی کی حمایت کے بغیر وہ شمالی وزیرستان میں نہیں رہ پائیں گے جبکہ ٹی ٹی پی سے ناتہ توڑے بغیر وہ فورسز کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گے۔ انہیں جلد کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔ تین افراد کا کردار بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ سید سجنا محسود، عصمت اللہ معاویہ اور مولانا صوفی محمد۔ اگرچہ صوفی محمد کا جنگجوئوں میں براہ راست اثرورسوخ نہیں لیکن مالاکنڈ میں ان کا ابھی تک اثر اور مقبولیت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے داماد ملا فضل اللہ کی پُرتشدد پالیسیوں پر کیا ریسپانس دیتے ہیں؟ ٭ٹی ٹی پی کی کوشش یہ ہو گی کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا ملبہ حکومت پر ڈالا جائے، ان کے حق میں یہی جاتا ہے۔ میڈیا میںطالبان کے حامی اور اسٹیبلشمنٹ کے مخالف حلقے متفقہ طور پر یہی لائن دے رہے ہیں کہ حکومت مذاکرات کے لئے سنجیدہ نہیں تھی اور بلف کر رہی تھی۔ پچھلے روز معروف بھارتی تجزیہ کار بھدرا کمار کا ایک تجزیہ شائع ہوا، موصوف ’را‘ سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں۔ بھدرا کمار کے تجزیے کے بعض نکات ہمارے ہاں بھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر پھیلائے جا ر ہے ہیں۔ ایک عجیب و غریب تھیوری پیش کی گئی ہے کہ ڈرون کو پرواز کے لئے پاکستانی ایو ی ایشن والے سہولت فراہم کرتے ہیں ورنہ یہ ڈرون مسافر طیاروں سے ٹکرا جائیں۔ دوسرا یہ کہا جا رہا ہے کہ ڈرون جس چپ پر حملہ کرتا ہے، اس کے سگنل جام کیے جا سکتے ہیں لیکن فوج ایسا نہیں کرتی۔ یہ بچگانہ بات پڑھ کر مجھے ہنسی آئی۔ ٹیکنالوجی میں ہمارا اور امریکہ کا اتنا فرق ہے کہ وہ آ کر اسامہ کے خلاف آپریشن کر کے چلے گئے، ہماری تمام تر ریڈار ٹیکنالوجی دھری کی دھری رہ گئی۔ ویسے بھی چپ کے سگنل سیٹلائٹ پر ریسو کئے جاتے ہیں، ڈرون جس ٹیکنالوجی کے تحت کام کرتا ہے، ہمارے انجینئر بیچارے اسے جام کرنے کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ڈرون کے مسافر طیاروں کے ساتھ ٹکرانے والی بات بھی خوب ہے۔ مسافر طیاروں کے مخصوص روٹس ہوتے ہیں، ان کی بلندی ڈرون کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ویسے بھی شمالی وزیرستان پر کون سی ائر ٹریفک ہوتی ہے؟ کون سے مسافر طیارے وزیر ستان پر سے گزرتے ہیں اور جاتے کہاں ہیں؟ سازشی تھیوریاں گھڑنے والے اس حوالے سے معلومات میں اضافہ فرمائیں تو ہم ان کے ممنون ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں