ہر غلطی کی ذمہ دار قوم نہیں!

یہ پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے، میں ان دنوں ہاسٹل میں مقیم تھا، اکثر ویک اینڈ پر لاہور کے نواحی علاقے میں مقیم ایک دوست سے ملنے جانا ہوتا۔ ہم گپ شپ لگاتے اور مل کر کھانا بناتے بلکہ کھانا تو وہی دوست بناتا تھا، ہم اس کا صفایا کرنے کی خوشگوار رسم پوری کرتے۔ اس گلی میں ایک دیوانہ شخص رہتا۔ وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک دکان کے تھڑے پر بیٹھا رہتا، رات کو وہیں سو جاتا۔ دن بھر وہ بیٹھا خلائوں میں نجانے کیا تکتا رہتا، ہر آدھے پونے گھنٹے کے بعد نجانے اسے کیا خیال آتا کہ بلند آواز سے گالیاں بکنا شروع کر دیتا۔ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی، ایسے دیوانے عام مل جاتے ہیں مگر اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی گالیوں کا ہدف اس کی اپنی ذات ہوتی۔ وہ کبھی کسی اور کو گالی نہ دیتا۔ ہمیشہ اپنے اوپر لعنت بھیجتا۔ انداز کچھ یوں ہوتا: ''میرے اوپر لعنت، میرے منہ پر خاک، میں بڑا ...وغیرہ وغیرہ۔ بچے دلچسپی سے اس کی گالیاں سنتے، بعض اسے چھیڑتے اور ایک آدھ تو پتھر بھی مار دیتا مگر وہ اس کے باوجود ان کے پیچھے بھاگتا نہ ہی انہیں گالیاں دیتا بلکہ زیادہ جوش و خروش سے اپنے آپ کو گالیاں بکنے لگتا۔ ایک دن ہم نے محلے کے ایک پرانے رہائشی سے اس کے بارے میں پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو اس نے بتایا کہ اس دیوانے کے ساتھ اکٹھی کئی ٹریجڈیاں ہو گئیں، جس کے بعد اس کی یہ حالت ہو گئی۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس تباہی کا ذمہ دار وہ خود ہے، اس لئے بے خودی کی کیفیت میں خود ہی کو لعن طعن کرتا رہتا ہے۔ اس دیوانے کی صورت اب مجھے پوری طرح یاد نہیں، لیکن اس کا خود کو ملامت کرنے اور دیوانہ وار گالیاں بکنے کا انداز ذہن میں نقش ہے۔ بعد میں نفسیات کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ شکست خوردگی اور ڈپریشن کی بعض کیفیات ایسی ہوتی ہیں، جن میں مریض خود ہی کو ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ اس کے نزدیک ہر حادثہ، خرابی اور غلطی اس کی اپنی کمزوریوں اور داخلی مسائل کے باعث رونما ہوئی، اس میں خارجی عناصر کا کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ کیفیت بڑھتی جائے تو دیوانگی تک جا پہنچتی ہے۔ 
پچھلے کچھ عرصے سے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے ہاں بھی پے در پے کچھ ایسی مصیبتیں نازل ہوئیں یا مسائل اس قدر گمبھیر ہو گئے کہ ایک اچھا خاصا حلقہ اسی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو چلا ہے۔ ان میں ہمارے میڈیا اور انٹیلی جنشیا کے کچھ لوگ سرفہرست ہیں۔ ان لوگوں کو ہر غلطی، ہر جرم اور ہر خامی پاکستانی قوم میں نظر آتی ہے۔ یہاں تک بھی چل سکتا تھا کہ خود احتسابی کی ایک سخت شکل یہ ہے کہ اپنی معمولی سی غلطی کو بھی سنجیدگی سے لیا جائے مگر ہمارے ان محترم قلم کار، تجزیہ کار اور اہل دانش حضرات نے بزعم خود ان غلطیوں کو جواز بنا کر پوری قوم کو لعن طعن کرنے کا افسوسناک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ روزانہ صبح شام منہ بھر بھر کر قوم کو گالیاں دینا ان کا شیوہ بن چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی واقعہ ملک کے کسی خاص حصے میں ہو، کسی خاص شہر کے خاص محلے یا بازار میں کچھ ہو جائے، اس کی ذمہ داری پوری قوم پر ڈال دی جاتی ہے کہ پاکستانی قوم نے ایسے کیا۔ قومی کرکٹ ٹیم کسی ملک سے ہار جائے تو ایک بار 
پھر لعنت ملامت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، یہ کوئی نہیں سوچے گا کہ کھیل ہے، اس میں کسی نے ہارنا بھی ہے اور دنیا کی بہترین ٹیمیں بھی بری طرح ہارتی رہی ہیں۔ اسی طرح کہیں مقامی انتظامیہ کی غلطی اور کمزوری سے فساد ہو جائے تو اس کا ذمہ دار بھی ملک کا ہر فرد قرار پائے گا، خواہ وہ بے چارہ اس جگہ سے پندرہ سو میل دور رہتا ہو۔ کوئی مشہور گلوکار یا اداکار کسمپرسی کی حالت میں مر جائے تو اس کی ذمہ داری بھی پوری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔ کوئی یہ سوال نہیں کرے گا کہ موصوف زندگی میں لاکھوں روپے ایک شو یا فلم کے لیتے رہے، اگر عیاشیوں پر نہ لٹاتے تو کروڑ پتی کی حیثیت سے انتقال فرماتے۔ یہ نکتہ کوئی نہیں اٹھائے گا، بس نان سٹاپ کالموں پر کالم اور ٹاک شوز پر ٹاک شوز داغ دیے جائیں گے۔ 
چلتے چلتے یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میرا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ اپنی خامیوں اور غلطیوں پر گرفت نہ کی جائے اور خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہوئے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا لیا جائے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ جہاں پر کوئی بلنڈر ہو، کوئی غلطی ہوئی ہو، اس کا تجزیہ کر کے پورے توازن کے ساتھ نتیجہ اخذ کیا جائے۔ جس کی جتنی غلطی ہو، اتنا ہی اس پر بوجھ پڑنا چاہیے۔ ہماری بہت سی خامیاں بآسانی دور ہو سکتی ہیں اگر ہم اپنی غلطیوں کا سائنٹفک تجزیہ کر کے اصلاح احوال کی کوششیں کریں۔ عاشورہ کے روز ہونے والے تازہ ترین سانحہ ہی کو لے لیجئے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا حماقت ہے کہ ملک میں فرقہ واریت کی کوئی خوفناک لہر آ گئی ہے اور شیعہ سنی اختلافات کی تاریخ کھنگالنی شروع کر دی جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ملک بھر میں ہزاروں جلوس نکلے، ایسے حساس شہر بھی تھے، جہاں ہر سال چھوٹا بڑا فساد ہو ہی جاتا ہے، اس بار وہاں بھی معاملات ٹھیک رہے۔ کہیں تلخ کلامی تک نہ ہوئی۔ صرف پنڈی میں یہ سانحہ ہوا، وہاں بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے بدترین نااہلی دکھائی۔ جو افراد کوتاہی کے مرتکب ہوئے انہیں اس کی سزا ملنی چاہیے۔ اسی طرح اس سانحے میں ایک فریق پر ظلم ہوا، قیمتی جانیں گئیں، کچھ شرپسند ایسے ضرور تھے جنہوں نے جنونیت کا مظاہرہ کیا۔ خوش قسمتی سے ان سب کے چہرے فوٹیج میں محفوظ ہیں۔ ان کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ اس میں دوسری کوئی بات ہی نہیں۔ تاہم یہ کہنا کہ پاکستانی قوم نے ایک دوسروں کے گلے کاٹنا شروع کر دیے ... وغیرہ وغیرہ، یہ درست نہیں۔ یہی حال کرکٹ ٹیم کا ہے، اس میں موجود خامیاں دور کر دی جائیں تو یہی ٹیم جیتنا شروع کر دے گی۔ 
جہاں تک مختلف شعبوں میں موجود نان گورننس کا تعلق ہے، اس کا تعلق بھی حکومتی نااہلی اور عزم کی کمی سے ہے۔ کوئی بھی اچھی انتظامیہ اور اچھا لیڈر چند ہی مہینوں میں خلوص نیت سے کوشش کر کے بگڑی صورتحال میں خاصی بہتری لا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ادارے ڈوب رہے ہیں اور سب نے دیکھا کہ ایک دو وزیروں نے تھوڑی بہت کوشش کی تو بعض ڈوبتے محکموں میں نئی جان پڑتی نظر آ رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم کرپشن کی دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں مگر ماحول بہتر کیا جائے، خود احتسابی ہو تو آج بھی حیران کن کام ہو سکتے ہیں۔ چند سال پہلے پنجاب میں جو صوبائی حکومت تھی، وہ کرپشن کے حوالے سے زیادہ نیک نام نہیں تھی، ان پر بہت سے الزامات رہے، قیادت کا ویژن بھی اوسط درجے کا تھا مگر ریسکیو 1122جیسا شاندار محکمہ اسی دور میں بنا، جس نے پچھلے کئی برسوں سے اپنا قابل رشک معیار برقرار رکھا ہوا ہے، لاہور جہاں ٹریفک کانسٹیبل بیس روپے کی رشوت بھی لے لیتا تھا، وہاں ٹریفک وارڈنوں نے رشوت کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ اس سے پہلے ہم موٹر وے پولیس کی معجز آفرینی دیکھ چکے ہیں۔ مجھے خود پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ ہم نے پولیس کے کرپٹ ترین اہلکار موٹر وے پولیس میں بھیجے تو وہ بھی وہاں جا کر ایماندار ہو گئے۔ 
دانشوروں کو اپنی رائے میں توازن ہر حال میں مقدم رکھنا چاہیے۔ غلطیاں قیادت سے ہوتی ہیں۔ سیاسی، فکری اور علمی قیادت ہی قوموں کی شکست خوردگی اور کمزوریوں کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ہر الزام قوم پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ افراد کی طرح قوموں کی بھی عزت نفس اور وقار ہوتا ہے، جسے ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں