مختلف ٹکڑوں میں بٹی تصویر

ہمارے ہاں بعض اورایشوزکی طرح عسکریت پسندی کے معاملے میں بھی اس قدرالجھائو اور پیچیدگی درآئی ہے کہ اسے ایک نظر میں سمجھنا آسان نہیں رہا۔ یہ ایک ایسی تصویر کے مانند ہوچکا ہے جس کے درجنوں ٹکڑے ہوچکے ہوں کہ جب تک یہ تمام ٹکڑے یکجا نہ کئے جائیں، تصویر کے خدوخال واضح نہ ہوسکیں،دوچار ٹکڑے ہاتھ لگ بھی جائیں تو انہیں ملانے سے نامکمل تصویر ہی بن پائے گی۔ ہمارے بعض لبرل سیکولر تجزیہ کاروں اور لکھنے والوں کے ساتھ یہی معاملہ ہے کہ وہ تصویر کے تمام ٹکڑے اکٹھے کر کے انہیں یکجا کرنے کی کڑی مشقت اٹھانے کے بجائے عجلت میں کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ ان میں سے بعض کی دیانت اور کمٹمنٹ پر شک نہیں کیا جاسکتا، وہ بڑے خلوص سے تجزیہ کر رہے ہیں اور اتنے ہی خلوص اور دردمندی سے پریشان ہو رہے ہیں کہ باقی لوگ یہ ''سادہ بات‘‘ سمجھ کیوں نہیں رہے؛حالانکہ وہ جس نقطے کوسادہ تصور کرتے ہیں وہ اتنا سادہ نہیں ہے۔عسکریت پسندی کی جہتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان سب کو سامنے رکھے بغیر جلدی میں کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ایسے دو تین ایشوز پر مختصراً تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں،مقصد صرف یہ ہے کہ معاملے کی تفہیم ہوسکے۔
حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس کیوں بلائی؟ میڈیا میں کئی لوگ لکھتے اورکہتے ہیں کہ حکومت نے عوام کا مینڈیٹ ملنے کے باوجودطالبان کے معاملے پراے پی سی کیوں بلائی؟ طالبان کے مخالف حلقے تلملاتے ہیں کہ یہ حکومتی کمزوری ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کسی نومنتخب حکومت کوتازہ مینڈیٹ مل جائے تواس کے پاس بڑا قدم اٹھانے کا جواز موجود ہوتا ہے؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات یاان کے خلاف آپریشن بڑی حساسیت لیے ہوئے ہے،یہ کوئی عام سا انتظامی آپریشن نہیں۔ پاکستانی طالبان کے بارے میں میری رائے زیادہ اچھی نہیں،ان میں شامل بعض طاقتور گروپوں کی سفاکی اور بے رحمی سب پر آشکار ہے، یہ مگر حقیقت ہے کہ طالبان کوہمارے ہاں اچھی خاصی عوامی حمایت حاصل ہے۔
پاکستانی طالبان کو دو حوالوں سے سپورٹ ملتی ہے۔۔۔۔۔ان پاکستانیوں کی حمایت جوافغان طالبان اور ملا عمر کو پسند کرتے ہیں۔ ان میںروایتی مذہبی فکر اور ایک خاص مسلک کے مدارس کا حلقہ شامل ہے، مگر مسلکی بنیادوں سے ہٹ کران میںقدامت پسندوں کا وہ حلقہ بھی شامل ہے جس کے خیال میں مسلم سماج کو سنوارنے اور ڈسپلن میں لانے کے لئے افغان طالبان جیسی سخت کوشی، ڈسپلن اور سخت گیر اخلاقی قدروں کی پابندی ضروری ہے۔ پاکستانی طالبان کی سوچ،اہداف اور تنظیمی ڈھانچہ افغان طالبان سے یکسر مختلف ہے،اس لیے مجھ جیسے لوگ انہیں افغان طالبان سے الگ قرار دیتے ہیں، مگر عام آدمی اتنی باریکیوں میں نہیں جاتا، اس کے نزدیک طالبان کہلانے والا ہرفرد طالبان ہے۔ پاکستانی طالبان کوامریکہ مخالف جذبات کی بنا پربھی بعض حلقوں سے حمایت ملتی ہے، ان کے خیال میں یہ لوگ امریکی سامراج سے برسر پیکار ہیں۔انہیں یقین ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یا صاف لفظوں میں فورسز امریکی پالیسیوں کی پیروی کر رہی ہیں اورغلطی پر ہیں۔ طالبان کے خلاف آپریشن سے پہلے یہ سوچ بدلنا ضروری ہے، ورنہ شمالی وزیرستان یاکہیں اورچڑھائی بے سود ہوگی۔
اے پی سی کافائدہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کے مختلف طبقوں کی حمایت رکھنے والی قوتیں یک جا ہوجاتی ہیں،ان کے متفقہ فیصلے پرعمل ہواورکوئی فریق غلط رویے کا مظاہرہ کرے تو وہ تنہا ہوجاتا ہے۔
حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کے حوالے سے بھی دلچسپ ردعمل آیا۔ بعض دوستوں نے لکھا کہ حکومت پاکستان نے چونکہ حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت مقرر کی تھی، جو واپس نہیں لی، اس لیے اسے امریکہ کے خلاف احتجاج کرنے کا حق نہیں۔یہ موقف سادگی پر مبنی ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی سرکاری اہلکار کو طالبان لیڈروں کے سرکی قیمت واپس لینے کاخیال نہیں آیامگر کیا امریکہ نے صر ف اس لیے حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنایا؟امریکی رویہ دجال کے مانند ہے۔اسلامی روایات کے مطابق دجال ہر ایک کو یہی جتائے گا کہ جو میرے ساتھ رہے گاصرف وہی زندہ اور محفوظ رہے گا۔ دجال اپنی طرف نہ آنے والوں کوبے رحمی اور مکاری سے نشانہ بنائے گا تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔خدابہتر جانتا ہے کہ امریکہ دجال ہے یا نہیں، مگر رویہ اس کااسی جیسا ہے۔ سب پر کھل چکا ہے کہ ڈرون حملے مخصوص مفادات کے لیے کیے جاتے ہیں۔حکیم اللہ محسود کی ویڈیو فوٹیج موجود ہے جس میں وہ ایک دوافراد کے ساتھ باتیں کررہے ہیں، اچانک آسمان پر ڈرون منڈلانے لگتا ہے،بجائے خوفزدہ ہونے کے وہ ڈرون کی طرف اشارہ کر کے ہنسنے لگتے ہیں۔ غالباً انہیں اندازہ تھا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ یاد رہے کہ ڈرون میں نیچے کی طرف دیکھنے اور ویڈیو بنانے کے لیے طاقتور کیمرے نصب ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ کو سٹیلائٹ نگرانی کی سہولت بھی حاصل ہے۔ امریکی ماہرین کے بقول سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویراتنی صاف اور واضح ہوتی ہیں کہ زمین پر پڑے ٹائروں کے نشانات بھی صاف نظر آتے ہیں،اس لیے یہ ممکن نہیں کہ امریکیوں کو حکیم اللہ محسود کے ٹھکانے کا علم نہ ہو اورفضا میں منڈلاتے ڈرون سے ان کی شکل نہ پہچانی جائے۔ امریکی چاہتے تو بہت پہلے حکیم اللہ کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے ایسا نہیں کیا اور اب اپنے پسندیدہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا۔کچھ عالمی تجزیہ کار اس جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ امریکی ڈرون حملے بعض اوقات مختلف گروہوں اور اداروں کے لیے اشارہ یا پیغام ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی افغان طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیںمگر افغان طالبان کے اہم ترین حصے حقانی نیٹ ورک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک امریکہ کے آگے جھکنے سے انکار کر رہا ہے، اسے نشانہ بنا کر ایک طرف پاکستانی پریمیئر ایجنسی کو پیغام دیا جاتا ہے،دوسری طرف افغان طالبان کے دوسرے گروپوں کو دھمکایا جاتا ہے۔اسلام آباد میں نصیر الدین حقانی کا قتل بھی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسی نوعیت اشارہ ہے۔حکیم اللہ محسود کا قتل بھی ذومعنی تھا۔۔۔۔۔امن پراسیس کا خاتمہ،مذاکرات کے حامیوں کو دھمکی،ٹی ٹی پی کے لیے پیغام اورمحسود قبیلے سے قیادت کی منتقلی ۔ازرہ کرم ان وجوہ کی بنا پرڈرون حملوں کی حکمت عملی اور اس کے اثرات کوگہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
چلتے چلتے ڈاکٹر شکیل کے حوالے سے بھی صورتحال سمجھ لی جائے۔ ملالہ یوسف زئی کے والد نے چند روز پہلے امریکہ میں تقریب کے دوران ڈرون حملوں کی حمایت کی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بے گناہ قراردیا۔ہمارے بعض سینئر ساتھی بھی لکھ چکے ہیں کہ اسامہ بن لادن جیسے مطلوب ترین شخص کو ڈھونڈنے میں مددکرنے والے کومجرم کیوں سمجھا جائے؟اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اسامہ کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ڈالروں کی لالچ میں سی آئی اے کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔ اسے علم ہی نہ تھا کہ یہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے کا آپریشن ہے۔ اس قسم کے ہائی پروفائل آپریشن کے بارے میں تو خود سی آئی اے کے اپنے ایجنٹوں تک کو نہیں بتایا جاتا۔ شکیل آفریدی نے وہ کام کیاجو سی آئی اے نے کہا۔کیا یہ صریحاً غداری نہیں؟ اس کمپائونڈ میں کوئی پاکستانی نیوکلئیر سائنس دان ہوسکتا تھا، ٹاپ سیکرٹ لیول کاکوئی اور ایشو ہو سکتا تھا،کیاڈاکٹر شکیل نے سوچا کہ امریکی ایسا کیوں کر رہے ہیں؟اس سے ملک کو نقصان تو نہیں ہوگا؟یہ سوچنے کی زحمت کیے بغیر وہ صرف امریکی ایجنٹ ثابت ہوا۔ ایسے ایجنٹوں کی حمایت کرنے سے پہلے ہمیں ضرورسوچ لینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں