بگ باس

کوئی پینسٹھ سال پہلے مشہور برطانوی ناول نگار جارج اورویل کا ناول نائنٹین ایٹی فور(Nineteen Eighty-Four) شائع ہوا۔ یہ ایک دلچسپ طنزیہ ناول تھا، جس میں ایک ایسی فرضی ریاست کامنظر پیش کیا گیا، جہاں انتہائی درجے کا جبر واستبداد ہے۔ ریاستی خفیہ ادارے کمال مہارت سے شہریوں کو ذہنی طور پر خوفزدہ اور مرعوب رکھتے ہیں۔ سڑکوں پر ہر طرف بڑے بڑے بل بورڈ لگے ہیں، جن پر لکھا ہے ''بگ برادر دیکھ رہا ہے‘‘۔بگ برادر کے اس کردار کی دہشت ہر ایک کے دلوں پر بیٹھی ہے۔ کسی نے اسے نہیں دیکھا۔ درحقیقت اس کا کوئی چہرہ ہی نہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر قوتوں کا دوسرا نام ہے۔ ہر ایک کو خطرہ ہے کہ گھر ہو یا باہر، ہر جگہ اس پر بگ برادر کی نظر ہے ، اس نے اگر کوئی سازش کی یا ریاستی قوتوں کے خلاف کچھ سوچا تو بگ برادر کو معلوم ہوجائے گا۔ نائنٹین ایٹی فور دراصل سوشلسٹ ریاستوں کے سخت ماحول پر طنز تھا۔ ویسے جارج اورویل کا شاہکار ناول'' اینمل فارم ‘‘بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے نہ پڑھنا ایک طرح کی بدنصیبی ہے۔ اس کے کئی فقرے ضرب المثل بن چکے ہیں اور سیاسی تجزیہ کار مختلف انداز میں کہیں نہ کہیں اس کا حوالہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جارج اوریل کو یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ اس کا تخلیق کردہ کردار'' بگ برادر‘‘ایک دن دنیا کے مشہور خیالی کرداروں میں شمار ہوگا، بلکہ شوبز کی جگمگاتی دنیا میں جا پہنچے گا، جہاں اسے کروڑوں ناظرین دستیاب ہوجائیں گے۔ 
آج بگ برادرمحض ناول کا کردار نہیں رہا، بلکہ امریکہ اور یورپ میں چلنے والا بہت مشہور ٹی وی ریالٹی شو بن چکا۔ یہ انتہائی دلچسپ شو ہے ،جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات کو تین ماہ کے لئے ایک بڑے گھر میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران 
ان کا باہر سے کوئی رابطہ نہیں رہتا۔ انہیں اخبار، فون ،کمپیوٹر سمیت کسی بھی ایسی چیز کی سہولت نہیں دی جاتی ،جس سے انہیں باہر کی کوئی خبر مل سکے یا ان کی خبر باہر جا سکے۔ اس گھر میں چاروں طرف کیمرے لگے ہوتے ہیں، شرکا کے لئے یہ لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنے گلے میں ایک نہایت حساس مائیکرو فون لٹکائے رکھیں تاکہ ان کے لبوں سے نکلی ہر بات ، ہر جملہ ریکارڈ ہوسکے ۔ کیمروں کے باعث ان کی ہر حرکت پہلے ہی محفوظ ہو رہی ہوتی ہے۔ شرکا میں بیشتر کا تعلق شو بز سے ہوتا ہے، باقی لوگ بھی عام طور پر کسی نہ کسی حوالے سے کوئی خاص شہرت رکھتے ہیں۔ اپنی معمول کی زندگی میں شائد ہی کسی نے اٹھ کر پانی پیا ہو، ان کے آگے پیچھے ملازمین پھرتے ہوں گے، مگر اس ریالٹی شو کے دوران گھر کے اندر انہیں سب کام خود کرنے ہوتے ہیں۔ کھانا پکانا، صفائی،برتن ،کپڑے دھونے وغیرہ ،ہر ایک کے ذمے مختلف ڈیوٹیاں لگتی ہیں، جو انہیں بجالانی ہوتی ہیں۔ بھارت میں اس شو کو بگ برادر کے بجائے بگ باس کے نام سے نشر کیا جاتا ہے۔ بگ برادر یا بگ باس میں پروڈیوسر حضرات مختلف طریقوں سے پروگرام کو دلچسپ بناتے ہیں۔ ہر ہفتے ایک مہمان کو گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ گھر کے مکین اپنے ووٹ سے ان چند لوگوں کا اعلان کرتے ہیں، جن میں سے کسی ایک کو عوام کے ووٹوں سے باہر کیا جائے گا۔ 
بگ برادر کا پہلا پروگرام 1999ء میں ہالینڈ کے ایک ٹی وی نے نشر کیا۔ بعد میں امریکہ، کینیڈا سمیت بہت سے ممالک میں یہ شو چل رہا ہے۔ بھارت میں سات سال پہلے بگ باس شروع ہوا۔ آج کل بگ باس سیز ن 7چل رہا ہے۔ اس شو کے بیشتر سیزن کی میزبانی سلمان خان نے کی۔ اس بار بھی وہی شو کے میزبان ہیں۔بگ باس سیز ن فور میں پاکستانی اداکارہ وینا ملک نے بھی حصہ لیا اور اپنی حرکتوں سے خاصی بدنامی کمائی، ویسے تو موصوفہ بدنامی کو شہرت ہی سمجھتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وینا ملک پر دینی حلقوں نے تنقید کی تو ہمارے بعض لبرل لکھنے والے اس کی حمایت میں اتر آئے۔ خالد احمد جیسے سنجیدہ دانشور نے بھی ایک کالم لکھا۔مجھے یاد ہے کہ ایک ٹاک شو میں ایک مفتی صاحب اور وینا میں خاصی نوک جھونک ہوئی،وینا کے بولڈ جوابات سے مولوی صاحب کھسیا گئے۔ دراصل وینا ملک کے ملبوسات پر بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ ہماری فلموں یا تھیٹر وغیرہ میںاس سے بھی گیا گزرا حال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شو کے دوران وینا ملک کا رویہ خاصا عامیانہ اور پست رہا۔صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ محض شو میں جگہ بنانے کے لئے رومانس کرتی اور دکھاوے کی دوستیاں بنا رہی ہے۔ شو کے اکثر شرکا نے باہر آکر وینا کو فیک یا جعلی قرار دیا۔ ایک پاکستانی اداکارہ ہونے کے ناتے اسے کچھ نہ کچھ تو وقار اور ڈیسنٹ ہونے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، مگر وہ ایسا نہ کر پائی اور سب کے مذاق کا نشانہ بنتی رہی۔ 
بات بگ باس کی ہو رہی تھی۔ اس بار کے پروگرام کی بعض اقساط دیکھنے کا مجھے موقعہ ملا۔ مجھے ایک بات دلچسپ اور اہم لگی کہ باقاعدہ طور پر شو کی مینجمنٹ کی جانب سے یہ پابندی لگائی گئی کہ شرکا انگریزی کے بجائے ہندی میں گفتگو کریں گے۔ یہ بات اس لحاظ سے اہم ہے کہ اکثر شرکا کا تعلق شو بز ہی سے ہے اور وہ انگریزی نہایت روانی سے عادتاً بولتے ہیں۔ ان کے لئے ہندی بولنا نسبتاً مشکل ہے ،مگر اس کے باوجود ان کو باقاعدہ مجبور کیا جاتا ہے کہ آپس کی گفتگو انگریزی کے بجائے ہندی میں کی جائے ۔ اس ہفتے قانون توڑنے کی پاداش میں دن بھر کچن کو لاک کر دیا گیا تاکہ وہ بطور سزا کچھ کھا پی نہ سکیں۔ شو کے میزبان سلمان خان بھی ہندی بولتے نظر آتے ہیں، جس میں بعض الفاظ خاصے گاڑھے اور ثقیل بھی محسوس ہوتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ بڑے بھارتی انٹرٹینمنٹ چینلز پر یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ کون بنے گا کروڑ پتی بھی مشہور شو ہے ، جس کی میزبانی نامور اداکار امیتابھ بچن کرتے رہے ہیں، موصوف تو ایسی گاڑھی ہندی بولتے ہیں کہ اگر ان کا سوال انگریزی میں لکھا دکھایا نہ جائے تو پاکستانی ناظرین کے لئے اسے سمجھنا ممکن نہیں۔ سٹار پلس، کلر اور سونی وغیرہ جیسے چینلز کے ڈراموں میں تو پہلے ہی ہندی بولی اور ہندو کلچر کو بڑی خوبصورتی سے نمایاں کرنے کی کوشش ہوتی تھی، اب یہ رویہ ہر قسم کے پروگراموں تک آ گیا ۔ کچھ عرصہ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ بھارتی سپورٹس چینلز نے بھی رمیز راجہ جیسے پاکستانی کمنٹیٹرز پر پابندی لگائی کہ وہ خالص اردو بولنے کے بجائے ہندی آمیز زبان بولیں۔ ان صاحبان کو غالباً کوئی شارٹ کورس بھی کرایا گیا، ان کی کمنٹری میں اب ہندی کے الفاظ اور جملے شامل ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے بڑے کاروباری مراکز اور شہروں میں انگریزی کا خاصا غلبہ ہے، بھارتی مڈل کلاس جس کی قوت خرید کی دنیا میں دھوم ہے اور جس باعث دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش نگری بنا، وہ مڈل کلاس بھی انگریزی بولتی ہے۔ اس کے باوجود کمرشل چینلز نے اپنے پروگرامز اور ڈراموں کے ذریعے اپنی زبان کو پروموٹ کرنے کی ٹھان لی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان کی پہنچ لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس تک بھی ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں منظرنامہ یکسر مختلف ہے۔ ہمارے بڑے شہروں اور کاروباری مراکز میں انگریزی کا بہت کم عمل دخل ہے، اردو ہی سب سے زیادہ سمجھی جانے والی زبان ہے۔ انگریزی تو محض چند ہزار ایلیٹ گھرانوں کی زبان ہے، جنہوں نے ملک میں شاپنگ کرنی ہی نہیں ہوتی، اسکے باوجود اردو کے بجائے ہر جگہ انگریزی ٹھونسی جاتی ہے۔ہمارا الیکٹرانک میڈیا کئی اعتبار سے بھارت کی نقل کرتا ہے ۔ مضحکہ خیز انداز کے بھارتی ڈرامے اور ان میں موجود گلیمر کی ہمارے بیشتر انٹرٹینمنٹ چینلز کھل کر نقالی کرتے ہیں۔ کاش ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھارتی میڈیا سے کچھ اچھی باتیں بھی سیکھ سکے۔ اپنی قومی زبان اور شناخت کی حفاظت کرنے کی جوغیر اعلانیہ تحریک بھارتی میڈیا میں شروع ہوئی، اسے ہمارے ہاں بھی لانے کی ضرورت ہے۔ کم از کم اسے بحث کا موضوع تو بنانا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں