نالج لیس ڈگریاں

کچھ عرصہ قبل میرے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ ایک نوجوان نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔فیس بک پر اس نے مجھے میسیج بھیجا کہ میں آپ کے کالم پڑھتا ہوں ، ملنے کی خواہش ہے، کچھ وقت دیں۔ میں عام طور پر ایسے میسیج نظر انداز کر دیتا ہوں۔ وجہ اس کی سادہ سی ہے کہ قارئین کا جس قدر لکھنے والوں سے دور کا تعلق رہے، دونوں کے لئے بہتر رہتا ہے۔ ایسا بہت بار میرے ساتھ بھی ہوا کہ کسی من پسند مصنف سے بڑی چاہت اورا نتظار کے بعد ملاقات کا موقعہ ملا تو شدید مایوسی ہوئی۔ دراصل پڑھنے والے اپنے ذہن میں لکھاری کا ایک خاص تصور بنا لیتے ہیں، اس پر وہ پورا نہ اترے تو بھلا نہیں لگتا۔نگار کے مدیر نیاز فتح پوری جب لاہور آئے تو علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نیاز لکھنوی طرز کے نازک اندام شاعر، ان کے نزدیک شاعر کو ہونا ہی نحیف ولاغر چاہیے، فکر سخن نے جس کی کمر دوہری کر دی ہو۔ علامہ سے مل کر انہیں شدید مایوسی ہوئی، علامہ کے پنجابی تلفظ نے مزید دھچکا پہنچایا۔ انہوں نے اپنے جریدے میں اس حوالے سے مضمون لکھ مارا، جس پر بڑا شور مچا۔ ادھر سے سالک، تاثیروغیرہ نے نیاز مندان لاہور کے نام سے جوابی گولہ باری کی۔ لکھنوی اور لاہوری ادیبوں کی کئی مہینوں تک ادبی چپقلش چلتی رہی۔نقوش کے'' ادبی معرکے نمبر‘‘میں یہ دلچسپ تفصیل محفوظ ہے۔
بات اس نوجوان سے ملاقات کی ہو رہی تھی۔ ان کے اصرار پر میں نے دفتر بلا لیا، قریبی چائے خانے میںچلے گئے، کچھ دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ وہ صاحب ایم اے ایل ایل بی کی ڈگری کے حامل تھے، سی ایس ایس کے خواہش مند تھے، ایک بار امتحان دے بھی چکے تھے۔ مجھ سے اپنے کیرئرکے حوالے سے ڈسکس کرنا چاہتے تھے۔ میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے کہ ہر آدمی ایک کام کے لئے پیدا ہوتا ہے، اسے جلد از جلدیہ دریافت کر لینا چاہیے کہ کو ن سا پروفیشن ایسا ہے، جس میں اس کی زندگی کا مقصد مضمر ہے۔ جتنا جلد اسے یہ ادراک ہوجائے ، اتنا ہی اس کے لئے بہتر رہتا ہے۔باتوں باتوں میں میں نے گاندھی جی کے ایک واقعے کا حوالہ دیا۔ مجھے لگا کہ اس نوجوان کا چہرہ سپاٹ سا ہے، جیسے وہ گاندھی کے نام سے واقفیت نہیں رکھتا ہو۔ میں نے موہن داس کرم چند گاندھی اور پھر مہاتما گاندھی کے الفاظ استعمال کئے ، مگر واقفیت کی چمک اس کے چہرے پر نہیں آئی۔ آخر میں نے براہ راست پوچھ لیا کہ آپ گاندھی کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ چند لمحوں تک وہ سوچتا رہا ، پھر نفی میں سر ہلا دیا کہ مجھے کچھ زیادہ نہیں معلوم ۔ مجھے شدید حیرت ہوئی، اسی عالم میں بے اختیار میرے منہ سے نکلا، آپ کے ذہن میں اس حوالے سے کیا تاثر بن رہا ہے۔ چند لمحے مزید گزر گئے، پھر ایک فاتحانہ مسکراہٹ لبوں پر سجا کر بولا، میرے خیال میں اندرا گاندھی کا کوئی رشتے دار تھا... آپ تصور کر سکتے ہیںکہ میرے اوپر کیا گزری ہوگی۔ ظاہر ہے میں اس سے یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ گاندھی بھگت ہویا گاندھی کا کوئی بڑا پرجوش مداح ہو،مگر ایک ایسے نوجوان سے جو پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر ڈگری رکھتا ہو، اس نے لا ء کر رکھا ہو، سی ایس ایس کی تیاری کر رہا ہو اور وہاںہندوپاک ہسٹری اس کا آپشنل مضمون ہو، اسے گاندھی جی کے نام ہی کا پتہ نہ ہو، یہ میرے لئے مایوس کن تھا۔ 
بدقسمتی سے ایسے مایوسی کے لمحات کاسامنا آج کل بار بار کرنا پڑتا ہے۔ چند ماہ پہلے غالباً ہارون الرشید صاحب نے ایک کالم لکھا، جس میں ایک شخصیت کا حوالہ دے کر لکھا تھا کہ کیا وہ گورباچوف ثابت ہوں گے؟ اسی روز ایک عزیز گھر ملنے آئے ، ان کے ساتھ ان کا نوجوان بیٹا تھا، جس نے ابھی ابھی یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ اس نے غیر ارادی طور پر میز پررکھا اخبار اٹھایا اور باآواز بلند وہ سرخی دہرائی۔ میں توقع کر رہا تھا کہ سوشل سائنسز میں ماسٹر کرنے والا یہ نوجوان ابھی اس حوالے سے اپنی رائے یا تبصرہ بیان کرے گا، مگر اگلے ہی لمحے اس نے کمال معصومیت اور سادگی سے مجھ سے پوچھا، انکل! یہ گوربا چوف کون تھے؟ 
یہ واقعہ ممکن ہے پہلے بھی لکھا ہو، مگر اس قدر افسوسناک ہے کہ میں اسے بھول ہی نہیں سکتا۔ دو ڈھائی برس پہلے لاہور کی ایک
معروف نجی یونیورسٹی میں ایم اے جرنلزم کی کلاس پڑھاتے ہوئے میں نے رائیٹ ونگ اور لیفٹ ونگ کی اصطلاح استعمال کی۔ ہوا یوں کہ لیکچر کے دوران چند منٹ کی بریک تھی، بریک سے پہلے کلاس میں لڑکیاں دائیں طرف بیٹھی تھیں ، بریک کے بعد وہ سب لیفٹ سائیڈ پر بیٹھ گئیں۔ میں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ بریک سے پہلے گرلز رائیٹ ونگ پر تھیں اور بریک کے بعد میں اچانک ہی سب لیفٹسٹ ہوگئیں۔ اس فقرے پر خوفناک خاموشی چھا گئی، مجھے لگا کہ یہ جملہ ان کے سر سے گزر گیا ہے۔میں نے کلاس سے پوچھا کہ رائیٹ ونگ اور لیفٹ ونگ سے کیا مراد ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے سو فیصد کلاس کو اس حوالے سے معمولی سا بھی آئیڈیا نہیں تھا۔ کسی کے خیال میں یہ رائیٹ رانگ کا قصہ تھا،بیشتر نے تو صاف جواب دے دیا۔ المیہ یہ ہے کہ انہی دنوں لاہور کی معروف پبلک یونیورسٹی میں جو ایک صدی سے زیادہ کی روایات کی حامل ہے، وہاں بھی ایم اے کی کلاس کو لیکچر دینے کا موقعہ ملا۔ وہی سوال دہرایاتو یکساں جواب ادھر بھی ملا۔ کسی کو آئیڈیا ہی نہیں تھا کہ رائیٹ ونگ اور لیفٹ ونگ کیا ہوتا ہے؟ میں ششدر رہ گیا کہ ہم اپنے کالموں میں کس قد ر آسانی کے ساتھ یہ اصطلاحات استعمال کرتے ہیں اور نوجوان نسل کی بے نیازی اور کم علمی کا یہ حال ہے ۔ 
پچھلے چند دنوں میں برادرم رئوف کلاسرا اور خالد مسعود نے اپنے کالموں میں کتابوں اور علم کی اہمیت پر بات کی۔ رئوف کلاسرا نے اس سال آنے والے سی ایس ایس کے بدترین نتائج پر بات کی اوراپنا دکھ شئیر کیا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کتابیں نہیں پڑھتے۔ یہ حقیقت ہے کہ کتابوں کا رجحان پہلے سے کم ہوا ہے، بلکہ مطالعے کا ٹرینڈ ہی بہت کم ہوگیا ہے ۔ کتاب تو دور کی بات ہے ، نوجوان اخبار پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ مجھے پہلے تو حیرت ہوتی تھی، اب عادت سی ہوگئی ہے کہ کسی چینل یا اخبار کے نوجوان صحافی سے بات ہو تو وہ بڑے تفاخر سے کہتا ہے کہ سر میرے پاس کتاب پڑھنے کا وقت کہاں، مجھ سے تو اپنا اخبار ہی نہیں پڑھا جاتا۔ ان سے پوچھا جائے کہ آپ ڈبل جاب کرتے ہیں تو جواب نفی میں ملتاہے۔ آٹھ گھنٹے ملازمت کرنے والے اور وہ بھی میڈٖیا میں کام کرنے والے کے پاس پڑھنے کا وقت نہ ہو۔ یہ رجحان ویسے عمومی ہوگیا ہے۔ مختلف شعبوں کے لوگ مختلف پروفیشن اختیار کرتے ہیں، اعلیٰ ڈگریاں بھی لے لیتے ہیں، مگر ان کے پاس اپنے سبجیکٹ کے علاوہ معلومات نہیں ہوتیں۔ یہ افسوسناک بات ہے ،مگر اس سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ وہ اپنے اس ناکافی اور ادھورے علم یا جہالت کے ساتھ ترقی کی منازل بھی طے کرتے چلے جاتے ہیں، ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر اتنا علم دشمن ہوچکا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو روک سکتا ہے نہ ہی کہیں پر شرمسار کرتا ہے۔میرا اصل دکھ نالج لیس ڈگریاں لینے والے نوجوان نہیں، بلکہ معاشرے کا یہ رویہ اور چلن ہے جہاں کتابیں نہ پڑھنے اور اخبار کی شکل تک نہ دیکھنے والے نوجوان فخریہ اسے بیان بھی کر دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں