توازن سے بات کی جائے!

پانچ چھ سال پہلے جب پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو نومنتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں دیگر اعلانات کے ساتھ یہ پُرجوش اعلان بھی کیا کہ ہم طلبہ تنظیمیں بحال کر رہے ہیں اور تعلیمی اداروں میں دوبارہ سے یونین الیکشن ہوں گے۔ مجموعی طور پر اس کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا۔ میں نے طلبہ تنظیموں کے خلاف دو تین کالم لکھ مارے، ایک روز ایک قابل احترام سینئر کا فون آیا، ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ''آپ جو مقدمہ لڑ رہے ہیں، وہ اگرچہ درست ہے، مگر اس میں آپ تنہا ہی ہیں‘‘۔ اس بات کا اندازہ مجھے ہو چکا تھا، میرے پاس اس کے سوا کوئی اور جواب نہ تھا کہ ہم جسے درست سمجھتے ہیں، پورے توازن اور انصاف کے ساتھ وہی بات کہنے کے مکلف ہی ہیں، نتائج قدرت کے ہاتھ میں ہیں۔ خیر گیلانی صاحب کے گڈ گورننس اور کرپشن نہ کرنے کے دعوئوں کی طرح یہ اعلان بھی ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
ہمارے ہاں بعض باتیں کلیشے کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ ان میں سے ایک طلبہ یونین کے انتخابات بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک دو باتیں ہمیشہ دہرائی جاتی ہیں کہ طلبہ تنظیمیں سیاست کی نرسریاں تھیں‘ ان پر پابندی سے سیاسی کلچر کو نقصان پہنچا، سیاسی قیادت کو جو تجربہ تعلیمی اداروں کے انتخابات میں حاصل ہوتا تھا، اب نہیں مل رہا، اسی وجہ سے سیاست میں نیا خون شامل نہیں ہو رہا وغیرہ وغیرہ۔ میرا نقطہ نظر یکسر مختلف ہے۔ مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ نوجوانوں کو سیاسی تربیت دینے کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی ہے، وہ اپنا بوجھ تعلیمی اداروں پر کیسے منتقل کر سکتی ہیں؟ ہر سیاسی جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کو سیاسی تربیت دے، ان کے لئے سٹڈی سرکل کا اہتمام کرے، ان کی گرومنگ کرے، آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے، لوکل باڈیز الیکشن میں ٹکٹ دے، جن میں پوٹینشل نظر آئے، انہیں صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں لے جانے کی پلاننگ کی جائے۔ ہوتا اس کے برعکس ہے۔ کوئی سیاسی جماعت اپنے کارکنوں کی تربیت اور سیاسی تعلیم کی زحمت نہیں فرماتی۔ نوجوان ان کے لئے سیاست کا ایندھن ہیں۔ جب انہیں تحریک چلانی ہو یا انتخاب جیتنا ہو تو انہیں وہاں جھونک دیا جاتا ہے۔ رہی نوجوانوں سے پھوٹنے والی قیادت تو یہ معاملہ انہوں نے اپنے خاندانوں کے بچوں، بھانجوں، بھتیجوں کے لئے مختص کر رکھا ہے۔
ہمارے ہاں طلبہ یونین کے الیکشن ویسے بھی ہمیشہ لہو رنگ رہے۔ ایک بار کے الیکشن کے بعد تعلیمی اداروں میں ایسی کشیدگی اور تلخی پیدا ہوتی ہے، جو برسوں ختم نہیں ہوتی۔ میرے جیسے لوگوں‘ جنہوں نے نوے کے عشرے کے اوائل اور وسط تک تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کی کشمکش اور جنگوں کا براہ راست مشاہدہ کیا، کے لئے یونین الیکشن کا حامی ہونا بہت دشوار ہے۔ لاہور جیسے شہر میں 92,93 ء سے لے کر 96,97ء تک کے برسوں میں یونیورسٹیاں محاذ جنگ بنی رہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں بعض طلبا تنظیموں کے خونی معرکے کسی کو نہیں بھولے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں بھی عجب عالم تھا۔ وہاں مختلف ہاسٹلز مختلف جماعتوں کے مرکز بنے ہوئے تھے۔ کسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے لڑکے کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے کسی دوست سے ملنے بھی دوسری تنظیم کے ہاسٹل چلا جائے۔ لڑکوں کو اٹھا کر تشدد کرنے اور ٹانگیں توڑ دینے کے واقعات عام تھے۔ خدا بھلا کرے انجینئرنگ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر کا جنہوں نے آہنی ہاتھ سے سب کچھ درست کر دیا۔ آئوٹ سائیڈر کا خاتمہ، نام نہاد سٹوڈنٹ لیڈروںکی چھٹی اور تعلیمی سیشن کو باقاعدہ بنا دینا ان کا ہی کارنامہ ہے۔ ایم اے او کالج اور دیال سنگھ کالج میں بھی ایک طلبا تنظیم کی آہنی گرفت تھی، وہاں وہ سب کچھ ہوتا تھا، جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ اس دور کے کئی سٹوڈنٹ لیڈر باقاعدہ بدمعاش بنے اور پھر پولیس مقابلوں میں مارے گئے، ایک آدھ ہی استثنائی کیس ہے، جو سٹوڈنٹ پالیٹکس سے نکل جانے کے باعث بچ پائے۔ 
اسی وجہ سے میری ذاتی رائے ہمیشہ یہی رہی کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی ہونی چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو اپنے ذیلی ونگ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ نوجوانوں کو سیاسی تربیت دلانے کا اہتمام سیاسی جماعتوں کو اپنے طور پر کرنا چاہیے، طلبہ کی تعلیم کی قیمت پر نہیں۔ اس اصولی موقف کے ساتھ ساتھ یہ بھی اتنی ہی حقیقت ہے کہ اگر کوئی طلبہ تنظیم اپنی طویل تاریخ، ڈسپلن اور طلبہ میں محنت کے باعث خاص پوزیشن اور سیاسی عصبیت حاصل کر چکی ہے تو اسے دبائو کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی عصبیت تدریجی عمل کے ذریعے پیدا ہوتی اور اسی فطری عمل کے ذریعے ہی تحلیل ہوتی ہے۔ کسی بھی طلبہ تنظیم یا سیاسی جماعت کو کچلنے کی کوشش ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
آج کل میڈیا پر پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے حوالے سے تنازع زوروں پر ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے کوئی بھی بات کرتے ہوئے انصاف اور توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے اپنے پلس اور مائنس پوائنٹس ہیں۔ اس کی ایک خاص تاریخ، کردار اور اہمیت رہی ہے۔ ذاتی طور پر میں کبھی جمعیت یا کسی طلبہ تنظیم کا ممبر تو دور کی بات ہے، ہمدرد بھی نہیں رہا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے طلبہ یونین کے انتخابات کرائے تو ہمارے کالج میں ایم ایس ایف اور سرائیکی قوم پرست سٹوڈنٹس کے درمیان مقابلہ تھا، ہم نے سرائیکی ہوتے ہوئے بھی ایم ایس ایف کے ایک پنجابی سیٹلر امیدوار کو کامیاب بنایا کہ لسانی تعصب کی بنیاد پر سیاست سے اصولی اختلاف تھا۔ جمعیت کے کئی کمزور پہلوئوں پر میں سخت تنقید کرتا رہا ہوں، جب 2007ء میں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے عمران خان پر حملہ کیا اور اسے پولیس کے حوالے کرنے میں انتظامیہ کی مدد کی تو راقم نے سخت تنقیدی کالم لکھا‘ لیکن جمعیت کے خلاف آج کل جو میڈیا مہم چل رہی ہے، وہ میرے خیال میں نامناسب ہے۔ ہاسٹل خالی کرانے کے معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ کو تدبر اور حکمت سے کام لینا چاہیے تھا۔ یونیورسٹی میں پولیس کا آنا انتہائی ناخوشگوار امر ہے، جس سے ہر صورت اجتناب کیا جاتا ہے۔ ہاسٹل ناظم کے کمرے سے شراب کی بوتلیں اور بھنگ برآمد ہونے کی بات بھی مضحکہ خیز ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ہمارے بعض لبرل دوستوں اور تجزیہ کاروں نے اس حوالے سے پولیس کے دعوے پر یقین کر لیا ہے۔ کیا یہی پولیس نہیں جس نے استاد دامن کے حجرے سے بم برآمد کر لئے تھے؟ پولیس کے سٹائل سے کون واقف نہیں؟ ایسی کمزور اطلاعات پر فیصلہ سنا دینا ناانصافی ہے۔ جمعیت میں بہت سی خامیاں ہیں، ان کا طریقہ کار کئی بار نامناسب رہا، مگر ان کے کارکنوں اور ناظمین کی اخلاقی حالت بہرحال سب طلبہ تنظیموں سے بہتر رہی ہے۔ شراب کلچر کی بات کسی اور طلبہ تنظیم کے بارے میں کی جاتی تو شاید مان لی جاتی مگر جمعیت کا یہ کلچر نہیں۔ ویسے بھی کون احمق ہو گا جسے معلوم ہو کہ ایک آدھ روز میں ہاسٹل پر ریڈ ہونے والا ہے اور وہ کمرے میں بوتلیں اور بھنگ کی پڑیاں سجا کر بیٹھ جائے۔ پھر ہاسٹل کے لڑکوں کو سامان لے کر نکل جانے کی مہلت دی گئی تھی، بے وقوف سے بے وقوف لڑکے بھی ایسے موقعہ پر ممنوعہ اشیا ادھر ادھر کر دیتے ہیں، ناظم کے کمرے میں ان اشیا کا پایا جانا بعید از قیاس امر ہے۔ 
مجھے درست طور پر معلوم نہیں کہ جمعیت کے لڑکوں نے اساتذہ کو محبوس رکھا یا نہیں؛ تاہم وہ اس کی تردید کر رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ آزادانہ تحقیقات کی جائے، جس کے نتائج پر سب کو اعتماد ہو۔ اس مسئلے کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے بجائے سلیقے سے سلجھایا جائے۔ مسلم لیگ ن بڑی تیزی سے مختلف محاذ کھول رہی ہے، جمعیت کے خلاف کریک ڈائون بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ لگتا ہے۔ سیاسی جماعتیں جب حکومت میں ہوں، تب انہیں قضیے حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، نئے ایشو پیدا کرنے پر نہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ جمعیت مخالف دانشوروں، تجزیہ کاروں اور لکھاریوں کے لئے یہ ٹیسٹ کیس ہے۔ کچھ کہتے اور لکھتے ہوئے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں