انہیں یاد رکھا جائے گا!

یہ دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست نے امریکہ سے آئے ایک پاکستانی ڈاکٹر کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ لاہور کے ایک فائیوسٹار ہوٹل میں بارہ چودہ لوگ جمع تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ کھانے سے پہلے گپ شپ جاری تھی۔ اچانک بات کا رخ چیف جسٹس (اب سابق) افتخار چودھری کے جوڈیشیل ایکٹوازم کی طرف ہو گیا۔ شرکاء میں سے زیادہ تر چیف جسٹس کا نام سنتے ہی آگ بگولا ہو گئے۔ ان کی آنکھوں سے شعلے اور لہجے سے انگارے برسنے لگے۔ انہوں نے انتہائی سخت الفاظ میں چودھری صاحب کو ہدفِ تنقید بنایا اور انہیں پبلسٹی کا شوقین قرار دیا۔ مجھے یہ شدید ردعمل دیکھ کر حیرت ہوئی۔ تھوڑی دیر سنتا رہا، پھر رہا نہ گیا۔ ایک دو جملے چیف صاحب کی حمایت میں کہہ ڈالے۔ اس پر وہ لوگ مزید بھڑک گئے۔ ان کی تنقید میں مزید شدت آ گئی۔ پہلے میرا خیال تھا کہ شاید یہ احباب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان دنوں اس پارٹی کے لوگ چیف صاحب پر شدید برہم تھے۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ ان کی بدترین کارکردگی، نان گورننس اور نااہلی کا سبب چیف جسٹس کے فیصلے ہیں۔ گفتگو تھوڑی سی آگے چلی تو اندازہ ہوا کہ چیف صاحب سے شاکی افراد کا اصل گلہ یہ ہے کہ انہوں نے انتظامیہ کا وقار مٹی میں ملا دیا ہے، ''ٹکے ٹکے‘‘ کے لوگوں کی درخواستوں کی سماعت کر کے سینئر افسران کو طلب کر لیتے ہیں، انہیں ذلیل کرتے ہیں اور یوں انتظامیہ کے لئے کام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ بحث طویل نہ ہوئی، میزبان نے موضوع بدل دیا۔ کھانے کے بعد رخصت ہوتے وقت میں نے میزبان دوست سے پوچھا کہ آپ کے دوسرے مہمان کس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ ان میں دو تین صاحبان مختلف اضلاع کے ڈی سی اور ڈی پی او تھے، باقی بھی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔
جسٹس افتخار چودھری عدالت عظمیٰ سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ان کا دور خاصا طویل رہا۔ ان کے حوالے سے اب بہت کچھ لکھا اور کہا جائے گا۔ ایسی تحریریں پڑھیں اور پروگرام دیکھیں گے جن میں ان کی شخصیت کے پرخچے اڑائے جائیں گے۔ دوسری طرف چیف جسٹس کے مداحین بھی موجود ہیں۔ ایسے لوگ جو ان کی مالا جپتے اور انہیں رول ماڈل قرار دیتے ہیں۔ میرے خیال میں سابق چیف جسٹس کا معاملہ قدرے مختلف انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر شخص میں خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں، ان سے مبرا کوئی نہیں۔ جب ہم عام شخصیات کا تجزیہ کرتے ہیں تو ان کے مثبت اور منفی نکات سامنے رکھ لیتے ہیں۔ افتخار چودھری مگر کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ ایک جج تھے۔ جج کا معاملہ دوسروں سے مختلف تصور کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس شخص کو مثالی سمجھا جاتا ہے، جس کے ہر ایک سے اچھے تعلقات ہوں، کوئی اس سے ناراض نہ ہو۔ اچھے جج سے مگر سب ناراض اور ناخوش رہتے ہیں۔ صرف سٹیٹس کو کے حامی جج سے ہر ایک خوش رہ سکتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں سے کسی کو ناراض نہیں کرتا۔ دنیا کے بعض نامور جج صاحبان کی شہرت یہ رہی ہے کہ وہ کورٹ روم میں دانستہ سخت رویہ رکھتے تھے، بعض تو بے لحاظ بھی ہو جاتے۔ ایسا اس لئے کیا جاتا کہ انصاف ہو سکے۔ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی کو ریلیف نہ مل سکے۔ اچھا جج وہ ہوتا ہے جس سے ہر کوئی شاکی ہو۔ 
اس پیمانے پر جسٹس افتخار چودھری صاحب کو پرکھا جائے تو انہوں نے نوے فیصد سے زیادہ نمبر لئے ہیں۔ ان سے کوئی بھی خوش نہ رہا۔ پیپلز پارٹی تو اقتدار میں آتے ہی ان کی مخالف ہو گئی تھی۔ زرداری صاحب کو طاقتور جج پسند ہی نہ تھا۔ جب انہیں ناپسند تھا تو ظاہر ہے پارٹی کی ہر سطح تک اسی پالیسی نے سفر کرنا تھا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت ہی طے کرتی ہے کہ کون سا شخص اچھا ہے یا برا۔ پارٹی کے دوسرے رہنما، لیڈر، کارکن بیچارے اتنی ہمت، جرأت یا سکت نہیں رکھتے کہ سوال کر سکیں یا اپنی قیادت کی اعلان کردہ حکمت عملی سے ہٹ سکیں۔ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر آج جناب زرداری یہ اعلان فرما دیں کہ چیف جسٹس افتخار چودھری بہت بڑے انسان ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ پر یوم سوگ منایا جائے تو اگلے روز ہر شہر میں جیالے آنسو بہاتے پائے جائیں گے۔ یہی حال مسلم لیگ ن کا ہے۔ شخصیت پرستی کا یہ زہر پی ٹی آئی میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ عام انتخابات سے پہلے تک عمران خان چیف جسٹس کے پُرجوش حامی تھے‘ بعد میں انہیں لگا کہ چیف صاحب نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ انہوں نے نجی محفلوں میں ان کی مخالفت شروع کر دی۔ خان صاحب کی ناپسندیدگی کا ''ٹریکل ڈائون ایفکیٹ‘‘ نیچے تک گیا اور پی ٹی آئی کے کارکن‘ جو پہلے عدلیہ کے زبردست حامی تھے، اب پیچھے ہٹ چکے ہیں۔
ہماری وکلا برادری‘ خاص طور پر بعض نامور وکلا رہنما عدلیہ بحالی تحریک میں چیف جسٹس کے بھرپور حامی تھے۔ ان میں سے بعض رفتہ رفتہ الگ ہوتے گئے۔ ان کے شکوے اور دلائل سنے جائیں تو ہنسی آجاتی ہے۔ لے دے کے ان کا زور ماتحت عدلیہ میں تبدیلیاں نہ لانے پر ٹوٹتا ہے۔ یہ سادہ سی بات ان وکلا رہنمائوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ اگر ماتحت عدلیہ میں انقلابی تبدیلیاں آگئیں، سستا اور جلد انصاف ملنے لگا تو سب سے زیادہ مخالفت وکلا برادری کی جانب سے کی جائے گی۔ ہمارے وکلا قطعی طور پر نہیں چاہتے کہ ماتحت عدلیہ کا چلن بدلے، وہ ایسے سول اور سیشن ججوں کو ناپسند کرتے اور ان کے خلاف ہڑتالیں کرتے ہیں جو میرٹ پر فیصلے کریں۔
افتخار چودھری صاحب کی کئی باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس ملک کے بدنام اور کرپٹ ترین طبقات، نااہل اور بے حس انتظامیہ، منافع خور تاجر، ہر ایک کو خریدنے کی قوت رکھنے والی شخصیات، طاقتور بزنس ٹائیکون اور موقع پرست سیاسی گروہ، پہاڑجیسی بلند انا رکھنے والے تجزیہ کار اور اینکر حضرات تمام اپنے اندرونی اختلافات بالائے طاق رکھ کر چودھری صاحب کی مخالفت میں اکٹھے ہو گئے۔ ان کی یہ مخالفت ہی افتخار چودھری کو بڑا بناتی ہے۔ یہ بتلاتی ہے کہ بطور چیف جسٹس افتخار چودھری کو خریدا نہ جا سکا، یہ لوگ انہیں موم نہیں کر سکے‘ ورنہ ملک کے یہ طاقتور ترین لوگ، گروہ اور ادارے ان کی ریٹائرمنٹ کا اس قدر بے تابی سے انتظار نہ کرتے۔ اگر افتخار چودھری مسلم لیگ ن کے حامی ہوتے، جیسا کہ عمران خان سمجھتے ہیں‘ تو ملک کا طاقتور وزیر اعظم اہم عہدوں پر تقرریوں کو مہینوں زیر التوا رکھنے پر مجبور نہ ہو جاتا۔ مسلم لیگ ن کو نہ چاہتے ہوئے بھی صرف سپریم کورٹ کے دبائو پر بلدیاتی انتخابات کی جانب جانا پڑا ہے۔ جن لوگوں کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ افتخار چودھری کی سپورٹ کر رہی تھی، انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ مسنگ پرسنز کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کو اس قدر ٹف ٹائم کبھی نہیں ملا، کسی نے نہیں دیا۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار کسی جج نے حساس اداروں کا محاسبہ کیا اور انہیں سبق دیا کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا سیکھیں۔
چیف جسٹس افتخار چودھری کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عدلیہ کا کلچر ہی بدل کر رکھ دیا۔ ان سے پہلے عدلیہ کبھی اتنی آزاد، بااختیار اور فعال نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے بتلایا کہ جج کس قدر بااختیار ہے اور وہ چاہے تو کہاں کہاں انتظامیہ کا ہاتھ روک سکتا ہے۔ جوڈیشیل ایکٹوازم کے تصور کو انہوں نے پہلی بار پاکستان میں متعارف کرایا۔ ان کے لئے سوموٹو نوٹس اگرچہ بعض حلقوں کی تنقید کا نشانہ بنے مگر اسی سے عام آدمی کے لئے امید کا دروازہ کھلا۔ اعلیٰ عدلیہ اپنی پوری تاریخ میں کبھی اتنے بڑے پیمانے پر عوامی توقعات کا مرکز نہیں بنی تھی۔ افتخار چودھری کے بہت سے فیصلوں سے عام آدمی کو ریلیف ملا، بے شمار پر انتظامیہ نے عمل درآمد نہیں کیا، اس لئے ان کے ثمرات نہیں مل سکے۔ افتخار محمد چودھری عدلیہ سے رخصت ہو چکے، ان کے کردار کا تعین مستقبل کا مورخ ہی کرے گا۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ افتخار چودھری کو بھلایا نہیں جا سکے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں