ایک اور مایوس کن تقریر

بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ کی برسی پر جی بھر کے برسے، ان کی دھواں دھار تقریر ٹی وی ٹاک شوز کا موضوع بنی، اس پر کالم بھی بہت آئیں گے۔ سوال مگر یہی ہے کہ اس تقریر کا مقصد کیا تھا، اہداف کون سے تھے ،کس حد تک وہ حاصل ہوپائے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ بھٹو کا نواسا، محترمہ بے نظیر بھٹو کا سیاسی وارث اور آصف علی زردای کا فرزند کس انداز کی سیاست کرنا چاہتا ہے۔ ان کی تقریر سنی، اس کی ٹرانسکرپشن پڑھ بھی لی۔اتفاق سے مجھے ان کی تقریر کا کچھ حصہ کسی ٹی وی پروگرام میں دوبارہ دیکھنے کا موقعہ ملا، ٹی وی سیٹ کی آواز اس وقت بند تھی، بلاول پرجوش انداز میں ہاتھ ہلا ہلا کر تمتماتے سرخ چہرے کے ساتھ تقریر کر رہے تھے، گردن کی رگیں تنی ہوئی تھیں، میں حیرت کے ساتھ دیکھتا رہا، اتنا ہیجان، ایسی جھنجھلاہٹ... چند ہی لمحوں بعد وہ مسکرانے لگے‘ کھِلی کھِلی مسکراہٹ کے ساتھ بولتے رہے۔یوںلگا،جیسے وہ غصہ اور ہیجان بھی خودساختہ تھا اور یہ مسکراہٹ بھی۔پیپلزپارٹی کے جیالے احباب سے معذرت، مگر ہمیں تو یہ سب مصنوعی سا لگا۔
ہم نے ان کے نانا کی تقریریں زیادہ نہیں دیکھیں، اس دور کے ہم عینی شاہد نہیں، دو چار تقریروں کے فوٹیج ہی دیکھے ہیں، بھٹو صاحب کے انداز میں ایک خاص قسم کی گھن گرج تھی،شلوار قمیص پہنے آستینوں کے بٹن کھولے وہ دھواں دھار تقریریں کرتے، اپنے حریفوں کی خوب خبر لیتے اور کارکنوں کے دل گرماتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بلاول کے اتالیق یا اساتذہ نے انہیں بھٹو صاحب کی تقریریں خوب دکھائی اور وہ انداز یاد کرایا ہے، یہ بتانا مگر بھول گئے کہ گرمیوں میں تو خیر قمیص کی آستینیں چڑھانے کا کوئی جواز ہے، دسمبر کی یخ بستہ رُت میں کھلے کف اور پھر آستینیں اوپر چڑھانے کے کوئی تک ہے نہ جواز۔ بھٹو صاحب کو کاپی کرنے میں کوئی حرج نہیں، مگر یہ سب کسی فطری طریقے سے ہو تو بھلا لگے گا۔بلاول کی تقریر میں بھی خاص قسم کی شعلہ بیانی اور شاعرانہ جملے تھے،جیسے''میرے پاس نانا کی پھانسی کے پھندے میں جھولتی لاش، رات کی تاریکی میں اٹھنے والا جنازہ اور لیاقت باغ کی سڑکوں پر بکھرا لہو ہے، جو میرا سرمایہ ہے۔‘‘زرداری صاحب نے یقیناً اپنے صاحبزادے کے لئے اچھے سپیچ رائٹرز کا انتخاب کیا ہوگا، انہیں کرنا بھی چاہیے، بلاول ان کا آخری سیاسی سرمایہ اور اثاثہ ہے۔ ایک بات کا مگر خیال نہیں رکھا گیا کہ بلاول کی شخصیت یکسر مختلف انداز کی ہے۔بھٹو صاحب کی اپنی شخصیت اور خاص امیج تھا۔ وہ بھی آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ تھے، مگر انہوں نے سیاست میں کئی برس گزار دئیے اور جب پارٹی بنائی تو وہ ایک تجربہ کار سرد و گرم چشیدہ شخص تھے۔ ان کے چہرے پر خاص قسم کی سنجیدگی اور متانت تھی، گاہے خشونت بھی درآتی تھی۔ بلاول ایک سافٹ امیج والے نوجوان ہیں، آکسفورڈسے فارغ التحصیل ایک وجیہہ نوجوان، سیاست جسے ورثے میں ملی، مگر جس کی تمام عمر چھائوں میں گزری، زندگی کی دھوپ سے جس کا واسطہ نہیں پڑا۔ ان کے لبوں سے انقلاب کی باتیں زیادہ جچتی نہیں۔قومی رہنمائوں کے بارے میں تضحیک آمیز جملے، منچلوں والی فقرے بازی، لاشوں ، خون کی باتیں ان پر سوٹ نہیں کرتیں۔بعض کمنٹس ٹوئٹر کی حد تک ہی چل سکتے ہیں کہ وہاں پڑھنے والوں کی تعداد محدود ہوتی ہے اور وہ مزا لینے کے خاطر کمنٹس پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ایک قومی سیاسی جماعت کے رہنما بلکہ قائد کو بہت زیادہ پختگی اور بردباری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔بلاول بھٹو زرداری کی گزشتہ روز ہونے والی تقریر میں جس کی ازحد کمی پائی گئی۔ 
بلاول کی تقریر کے تین اجزا تھے۔ انہوں نے ڈٹ کر اپنے والد کا دفاع کیا ، بار بارکارکنوں کو یہ یاد دلایا کہ جناب زرداری کو خراج تحسین پیش کیا جائے ،جنہوں نے گیارہ برس قید کاٹی ہے،جو آمریت کے راستے میں دیوار بن کر کھڑے ہوگئے تھے ...وغیرہ وغیرہ۔ انہیں غالباً اندازہ ہے کہ ان کے محترم والد نے پچھلے پانچ سالہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی کا کس قدر بیڑا غرق کر دیا ہے، پارٹی سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے بے شمار ووٹر اور بہت سے کارکن یا تو دلبرداشتہ ہو کر گھر بیٹھ گئے یا پھر ان میں سے کچھ نے تحریک انصاف کا رخ کیا۔ لاہور اور سنٹرل پنجاب کی حد تک تو یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک کا بڑی حد تک صفایا کیا۔بلاول بھٹو نے اسی لئے پارٹی کارکنوں کو اپنے نانااور والدہ کی اموات‘ لاشوں اور قبروں کا ذکر کر کے جذباتی کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایک طرف پنجابی اسٹیبلشمنٹ پر الزام دھر کر پیپلزپارٹی کی حکومت کی غلطیوں اور ناکامیوں پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کی، دوسری طرف پیپلزپارٹی کے روایتی ووٹ بینک کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی ،اس کی بنیاد بھی کسی نئے ایجنڈے یا ویژن کی جگہ جذباتی اپیل پر رکھی گئی۔بلاول کی تقریر میں مسلم لیگ ن کے لئے اہم پیغام موجود تھا، انہوں نے اگرچہ حکومتی جماعت پر بھی تنقید کی ، مگر شریف برادران کے لئے براہ راست سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیا۔ ان کی باتوں میں واضح اشارہ موجود تھا کہ ہم آپ کو نہیں چھیڑیں گے، ساتھ دیں گے، آپ بھی ویسا ہی رویہ اختیار کریں۔ ممکن ہے اس مفاہمانہ رویے کے پیچھے زرداری صاحب کے نیب میں موجود کیسز ہوں۔
پیپلزپارٹی کی قیادت کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے ساتھ جو مرضی سلوک کریں، تاہم ایک قومی جماعت کے طور پر پیپلزپارٹی کا مستقبل ہمارے سیاسی منظرنامے کے لئے بہت اہم ہے۔ اس کا برقرار رہنا، سیاسی اعتبار سے مستحکم رہنا بڑا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پچھلے پانچ برسوں میں پیپلزپارٹی کو جو نقصان پہنچا ،ویساپچھلے چالیس برسوں میں نہیں ہوسکاتھا۔ پارٹی کا عملی طور پر سنٹرل پنجاب اور خیبر پختون خوا سے صفایا ہو چکا ہے، جنوبی پنجاب جو کبھی پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اب وہاں بھی صورتحال یکسر مختلف ہے ۔ بلاول نے اپنی تقریر میںانتخابی شکست کی ذمہ داری طالبان پر ڈالی کہ ان کے حملوں کے خوف سے انتخابی مہم نہیں چلائی جا سکی۔ یہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے لئے خطرات تھے اور وہ جلسے جلوسوں میں نہیں جا سکے، مگر یہ آدھا بلکہ چوتھائی سچ ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ پارٹی نے اخبارات اور چینلز کے ذریعے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی مہم چلائی ، اربوں روپے جھونک دئیے 
گئے، مگر پانچ سالہ بدترین نان گورننس اور بدعنوانی نے پارٹی کا امیج اس قدر خراب کر دیا تھا کہ متعدد امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ لاہور ، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے شہروں میں پیپلزپارٹی پر ایسا برا وقت کبھی نہیں آیا تھا۔ 97ء میں بھی پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک سکڑ گیا تھا، مگر اس بار کارکن دلبرداشتہ ہو کرگھروں میں بیٹھے رہے تھے، اِس بار تو وہ دوسری پارٹیوں کی طرف چلے گئے ، جو کہ اصل نقصان ہے۔ ایسی بدترین صورتحال میں بلاول سے توقعات وابستہ تھیں۔وہ کلین امیج اورغلطیوں کے بوجھ کے بغیر سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔ ان سے امید تھی کہ وہ ایک نئے ویژن اور نئے اسلوب کے ساتھ پارٹی کو متحرک کریں گے۔ آکسفورڈ کے پڑھے لکھے ایک نوجوان سے یہ توقع تھی کہ وہ نئی ڈکشن استعمال کرے گا، وہ اصلاحات لے آنے کا کہے گا،جو جدید معاشروں کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی قوت نوجوان ہیں، تیس سال سے کم عمر کے کئی ملین نوجوان ملک میں موجود ہیں، عمران خان نے اسی یوتھ فورس کو اپنی طرف متوجہ کیا، حالانکہ کپتان کی عمر اس وقت ساٹھ برس کے لگ بھگ ہے۔ بلاول تو پچیس چھبیس سال کی عمر کے ہیں،وہ با آسانی نوجوانوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں،مگر کیا ان کی ایک گھنٹے کی تقریر میں نوجوانوں کے لئے کچھ تھا؟اصلاحات کا کوئی نیا پیکیج، نیا اقتصادی ایجنڈا، کوئی روڈ میپ؟ جواب نفی میں ہے۔ بلاول کی تقریر میں جذباتیت اور لفاظی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ ان کے فقرے اخبار کی شہ سرخی بن گئے ،مگر کیا یہ تاریخی موقعہ صرف اس لئے تھا کہ لیڈلگوانے کے لئے فقرے بازی کی جائے؟ افسوس کہ بلاول روایتی سیاستدانوں کی سطح سے اٹھ کر لیڈر نہ بن سکے۔ انہوں نے ایک اہم موقعہ کو روایتی تقریر سے ضائع کر دیا۔ ایک اور مایوس کن تقریر۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں